عالمی یوم یوگا ہندوتوا کے خفیہ ایجنڈہ کا حصہ

محمد ریاض احمد
ہندوستان میں مودی حکومت 21 جون کو عالمی یوم یوگا بڑے پیمانے پر منانے کی تیاریاں کررہی ہے ۔ یوگا کی تائید اور مخالفت میں مختلف تنظیموں کے بیانات سامنے آرہے ہیں ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے برسرعام یوگا کی شدید مخالفت کی ہے ۔ عیسائی طبقہ بھی یوگا کے خلاف ہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کا استدلال ہے کہ یوگا اور سوریہ نمسکار اسلامی تعلیمات کے مغائر ہیں ۔ جہاں تک یوگا کا سوال ہے اس میں جو آسن اور طریقے ہیں ان میں دراصل ہندوؤں کی مقدس کتاب کے اشلوک پڑھے جاتے ہیں ۔ سوریہ نمسکار میں ہندو اپنے سوریہ بھگوان کی تعریف و ستائش کرتے ہیں ۔ سورج سے صحت کی دولت عطا کرنے کی دعا کرتے ہیں اور ایسے بے شمار کلمات ادا کرتے ہیں جس میں ان کے سوریہ بھگوان کی تعریف کے ساتھ ساتھ اچھی صحت ، دولت ، درازی عمر اور خوشحالی عطا کرنے کی التجائیں ہوتی ہیں ۔ اگر کوئی ہندو یوگا کرتا ہے یا سوریہ نمسکار کے ذریعہ اپنے سوریہ دیوتا کو خوش کرتا ہے تو اس پر کسی مسلمان یا عیسائی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ہر کسی کو اس کے اپنے مذہبی عقیدہ پر چلنے کی مکمل آزادی ہے ۔ دین اسلام نے بھی کسی دوسرے مذاہب کے رہنماؤں کی تضحیک کرنے سے منع کیا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ عز و جل نے ’’تمہارا دین تمہارے ساتھ ہمارا دین ہمارے ساتھ‘‘ کا اعلان کیا ہے ۔ اب رہا مسلمانوں کے یوگا کرنے یا نہ کرنے سوریہ نمسکار میں حصہ لینے یا نہ لینے کا سوال تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان عقیدہ توحید کے بنا مسلمان باقی نہیں رہتا ۔ مسلمانوں کا عقیدہ و ایمان یہی ہے کہ ساری کائنات کی تخلیق رب العزت نے کی ہے ۔ شجر ہجر شمس و قمر لعل و گوہر ، آب و ابر چرند پرند سب کے سب اللہ نے پیدا کئے ہیں ۔ ہوائیں اس کے حکم سے چلتی ہیں ۔ سمندروں میں روانی اسی پاک پروردگار کے حکم پر ہوتی ہے ۔ بارش کا برسنا ، طوفانوں کا تھمنا ، آتش فشاں کا پھٹ پڑکر ابلنا ، جنگلات و جنگلاتی حیات کا پھیلاؤ زمین کا کٹاؤ ، حشرات الارض سے لیکر انسان اور دیوہیکل حیوانوں کیلئے رزق کا انتظام سب کچھ اللہ تعالی کے حکم کے تابع ہے ۔ اس کے حکم کے بغیر نہ ہوائیں چل سکتی ہیں نہ ہی آسمان سے بارش کا ایک قطرہ گرسکتا ہے ۔

زمین میں پیداوار ہوسکتی ہے نہ ہی عالم کا نظام چل سکتا ہے ۔ موت کا دینے والا وہی ہے ۔ حیات عطا کرنے والی طاقت بھی وہی ہے ۔ اس کے سامنے کسی کی کوئی اہمیت نہیں وہ رحیم وکریم ہے وہ چاہے تو بادشاہ کو فقیر ، گداگر کو باشادہ بنادے ، جاہل کو عالم ، عالم کو علم سے محروم کردے ۔ غرض انسان سے لیکر کائنات کا ذرہ ذرہ اسی معبود برحق نے پیدا کیا ہے ۔ اسی پاک پروردگار نے اپنے بندوں کیلئے سورج کو پیدا کیا ۔ رات میں چاند کی ٹھنڈک کا تحفہ ان کی قسمت میں لکھ دیا ۔ تاروں سیاروں کے ذریعہ دنیا کو حسن بخشا اور ان تمام کو زمین پر اپنے خلیفہ یعنی آدم کیلئے مسخر کردیا ۔ یہی وجہ ہیکہ قدرت کی عطا کردہ عقل سلیم کیلئے ذریعہ انسان نے چاند پر کمند ڈال دی ہے۔ سورج جسے ہندو بھائی سوریہ بھگوان کی حیثیت سے مانتے ہیں اس طرح کے کئی سیاروں تک انسان کی رسائی کو یقینی بنادیا ہے ۔ غرض وہ کہے ہو جا تو ہر چیز ہوجاتی ہے ۔ یہی مسلمانوں کا ایمان ہے ۔ اس کے برعکس انسانوں کیلئے رات اور دن کے تعین کیلئے پیدا کردہ سورج اور چاند کو ہندو بھگوان مانتے ہیں اس کے آگے سرجھکاتے ہیں ۔ حالانکہ وہ ہر دن ایک مقررہ وقت کے بعد غروب ہوجاتا ہے یا ڈھل جاتاہے ۔ ہندو ازم میں 33 کروڑ سے زیادہ دیوی دیوتائیں اور بھگوانیں ہیں اور ہندوستان کی 1.25 ارب آبادی میں سے 80 کروڑ آبادی ہندو مذہب پر عمل کرتی ہے ۔ ان کے یوگا یا سوریہ نمسکار پر کسی کو کسی بھی حال میں اعتراض نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ کسی تہذیب و ثقافت کا معاملہ نہیں بلکہ خاص مذہبی معاملہ ہے اور مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے ہی مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ دوسروں کو پریشان نہیں کرتے ۔ اگر ہندوستانی تہذیب و تمدن کے نام پر یا پھر گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے کے نام پر ہندوتوا کا فروغ اس کا مقصد ہے تو پھر یہ ملک اور عوام دونوں کے حق میں کسی بھی طرح بہتر نہیں ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ یوگا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی قابو پانے اور یکجا کرنے کے ہیں ۔

یوگا مراقبہ کا ایک قدیم ہندو طریقہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال قبل اس کے آسنوں کی تعداد 84 لاکھ ہوا کرتی تھی لیکن بدلتے دور اور تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس کی آسنوں کی تعداد میں مکمل کمی آتی گئی اور اب ان کی تعداد 84 تک پہنچ گئی ہے ۔ یوگا کے بارے میں یوگا ماہرین کا کہنا ہے کہ یوگا کے آسن کرنے سے جسم میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے آسنوں میں سانس کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ سانس لینے اور سانس چھوڑنے کی بنیاد پر ہی یوگا کے تمام آسن کام کرتے ہیں ۔ جسم کو سکڑنے اور پھیلانے مخصوص انداز میں سانس لینے سانس چھوڑنے کے نتیجہ میں کہا جاتا ہے انسانی جسم میں الکٹرو میگنیٹک انرجی اور سرخ و سفید خلیوں میں نئی جان پیدا ہوتی ہے ۔ قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ دوران خون میں بہتری پیدا ہوتی ہے ، آکسیجن کی بہتر انداز میں ترسیل عمل میں آتی ہے ۔ یوگا کے آسنوں سے جسمانی و ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ آخر یوگا دن میں کتنی مرتبہ کیا جاسکتا ہے ۔ مرکزی مملکتی وزیر یوگا و روایتی ادویات شری پدیسونائک کا کہنا ہیکہ مسلمان جو نماز ادا کرتے ہیں اس میں یوگا کے کم از کم آٹھ آسن ہیں ۔ انھیں اندازہ نہیں کہ نماز کو مسلمان کسی کسرت کا نام نہیں دیتے بلکہ اللہ تعالی نے نماز کے ذریعہ اپنے بندوں کو صحت مند صاف ستھرے اور پاکیزہ رہتے ہوئے ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کا موقع عطا فرمایا ہے ۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ نماز اللہ عز و جل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا کا ذریعہ ہے ۔ نماز ادا کرنے والوں کا قلب و چہرہ پرنور ہوجاتا ہے ۔ یہ رحمت و راحت کا ذریعہ ہے ۔نماز انسان کو ہر برائی سے محفوظ رکھتی ہے ۔ طبی لحاظ سے بھی اس کے بے شمار فوائد ہیں ۔ دونوں ہاتھوں سے لیکر پاؤں ، گھٹنوں کے جوڑ ، کمر ، پیٹ ، پیٹھ ، ریڑھ کی ہڈی کے جوڑوں ، گردن ، چہرہ ، سر اور ذہن و دماغ کو یہ بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے ۔ نماز سے قبل جب بندہ وضو کرتا ہے تو اس کے جسم میں توانائی کی ایک ایسی لہر پیدا ہوتی ہے جو دوران خون میں باقاعدگی پیدا کرتی ہے ۔ سجدہ ، قاعدہ ، رکوع ، قیام ، غرض نماز کے تمام ارکان میں انسانوں کیلئے فائدہ ہی فائدہ ہے ۔

سوریہ نمسکار کے ذریعہ سوریہ بھگوان کو خوش کرنے کی ہندو کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات انسان کی خدمت کیلئے ہی سورج کو پیدا کیا ۔ چنانچہ سائنسی و طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سورج کی روشنی انسانی صحت کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ اس سے وٹامن ڈی یا سن شن وٹامن حاصل ہوتا ہے ۔ سورج کی روشنی یا دھوپ سے محروم لوگوں میں وٹامن ڈی کی کمی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ان کی ہڈیوں میں بوسیدگی نمودار ہوتی ہے ۔ دانت کمزور ہوجاتے ہیں ، بال جھڑنے لگتے ہیں جلد کی رونق غائب ہوجاتی ہے ۔ اس لئے نماز فجر کے بعد دھوپ میں چلنے پھرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ بہرحال جو مسلمان نماز کا پابند ہے اسے کسی یوگا کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ اور بات ہیکہ کوئی کسرت کے طور پر یوگا کرے تو اس میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے ۔ مودی حکومت 21 جون کو بڑے پیمانے پر عالمی یوم یوگا منانے کی تیاریاں بھی مکمل کرچکی ہے لیکن آثار و قرائن اور ماضی کے تجربات سے ایسا لگتا ہیکہ اس کے پیچھے ہندوتوا کا کوئی خفیہ ایجنڈہ کارفرما ہے ۔ یہ اچھی بات ہوئی کہ عالمی یوم یوگا کے موقع پر حکومت نے مجبوراً سوریہ نمسکار کو حذف کردیا ہے ۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے 21 جون کو عالمی یوم یوگا منانے کا اعلان کیا ہے ۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 69 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران مودی نے یہ تجویز پیش کی تھی اور اس تجویز کی 177 ممالک نے تائید کی ۔ ان میں 47 مسلم اکثریتی ممالک بھی شامل ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ان ملکوں کے نمائندوں کو سوریہ نمسکار یا یوگا کے پیچھے کارفرما ہندوتوا ایجنڈہ سے واقفیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہیکہ یوگا کو فروغ دینے کیلئے حکومت ہند 193 ممالک میں مختلف تقاریب کا انعقاد عمل میں لارہی ہے ۔ صرف ہندوستان میں عالمی یوم یوگا منانے کیلئے 30 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ۔ راج پتھ پر 35 تا 40 ہزار لوگوں کو جمع کرنے کا منصوبہ اس یوم کی تیاری کے لئے ہے ۔ ملک میں 100 سے زائد یوگا سنٹرس قائم کئے گئے ہیں جبکہ ملک کے ہر ضلع میں 560 سے زائد یوگا سنٹرس پہلے ہی سے موجود ہیں ۔ حکومت یوگا اور سوریہ نمسکار کو اسکولوں میں بھی لازم قرار دینے کے منصوبہ بنارہی ہے جو ہندوستان کے سیکولرازم کیلئے نہایت ہی خطرناک اشارہ ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com