عالمی صحافت کے ممتاز اور بیباک صحافی خالد المعینا

(I will not apologies for Paris Attack)

سعید حسین ۔ جدہ
قرون وسطی میں تین مملکتیں تسلیم کی گئی تھیں مذہبی پیشوا ، امراء اور عوامی نمائندے ، ہر ایک کا اقتدار کی سطح پر اہم رول ہوا کرتا تھا ۔ Edmund Burke نے 1789ء میں صحافت کی چوتھی مملکت کی اصطلاح میں متعارف کروایا ۔ ایڈمنڈ برگ آئی لینڈ کے ایک ممتاز سیاستداں ، فلسفی ، شعلہ بیان مقرر تھے بعد میں وہ برطانیہ منتقل ہوگئے ۔ انیسویں صدی میں پریس یا صحافت کو چوتھی مملکت کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ۔
اس چوتھی مملکت کے مقتدر اعلی جناب خالد المعینا ہیں جنھوں نے پیرس میں دہشت گرد کے حملہ کے حلاف اپنی آواز اٹھائی بلکہ دنیا کے صحافتی اداروں ، صحافیوں اور سربراہان کو ببانگ دہل للکارا ’’ہر دہشت گرد حملہ کو مسلم حکومتوں یا مسلمانوں سے مت جوڑو‘‘ یہ ہیں خالد المعینا جو مملکت سعودی عرب کے بیباک صحافی ہیں ۔ صحافت کو امانت سمجھتے ہیں اور کبھی بھی اپنے مفاد کے لئے اس پیشے سے مصالحت نہیں کرتے ۔
1982 میں سعودی عرب کے مشہور انگریزی روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ سے وابستہ ہوگئے ۔ محنت جستجو اور بہترین کارکردگی کی بنیاد پر آپ کو ایڈیٹر انچیف کے عہدہ پر ترقی دی گئی ۔ جناب خالد المعینا عربی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی مہارت رکھتے ہیں ۔ عربی کے علاوہ اردو شاعری سے انہیں بڑا شغف ہے  ۔ فرصت کے اوقات میں بڑے ذوق سے اردو کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ جدہ کے معروف ادبی حلقوں نے آپ کی رہنمائی اور سرپرستی میں کئی مقامی اور بین الاقوامی مشاعرے منعقد کئے ہیں  ۔ادبی اور سماجی تنظیموں کے آپ سرپرست بھی رہے ہیں
صحافت سے وابستہ رہنے کی وجہ سے آپ نے تقریباً دنیا کے ممالک  کا دورہ کیا ہے ۔ مملکت سعودیہ کی جانب سے جتنے بھی سمینار اور کانفرنسیں منعقد ہوتی تھیں آپ ایک مملکتی صحافی کی حیثیت سے اس میں شریک رہا کرتے تھے ۔ اسی طرح ایسی تقریبات میں آپ مہمان خصوصی اور مندوب کی حیثیت سے مدعو کئے جاتے ہیں ۔ خالد صاحب میں یہ خصوصیت ہے کہ انہوں نے صحافت کے حلاف کبھی بھی مصلحت سے کام نہیں لیا ۔ جب بھی عوام الناس کی بھلائی کی بات ہوتی آپ نے ببانگ دہل عوام کے حق میں اپنا نظریہ پیش کیا ۔ کسی ملک یا کسی سربراہ سے مرعوب نہیں ہوئے ۔ 1990 میں مملکت سعودی عرب اور روس کے درمیانی سفارتی سطح پر مصالحت اور دونوں ممالک کے مابین دوستانہ فضا پیدا کرنے کا آپ کو اعزاز حاصل ہے ۔ اسی طرح 1993 میں آپ کی بہتر خدمات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے سعودی عرب کے دوسرے معروف انگریزی روزنانہ سعودی گزٹ نے بھی آپ کی خدمات حاصل کرتے ہوئے چیف اکزیکیٹو عہدہ کی آفر کی ۔ یہاں بھی آپ نے اپنے وسیع تجربہ اور بہترین صلاحیتوں کے ذریعہ سعودی گزٹ کی اشاعت میں ریکارڈ اضافہ کیا ۔ عالمی صحافت پر آپ کی اجارہ داری کسی معروف صحافی سے کم نہیں ۔ خالد صاحب جب بھی کوئی لکچر دیتے ہیں تو ہال میں سکوت چھا جاتا ہے اور سامعین بڑے انہماک سے آپ کا لکچر سنتے ہیں ۔

خالد المعینا نے مملکت سعودی عربیہ کی طرف سے مساجد میں آئمہ کرام کو یہ مشورہ دینے میں کسی قسم کا خوف اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کہ ’’انھوں نے کہا کہ آپ ممبروں سے اتر کر عوام تک پہنچیں ، ان کے مسائل کو سمجھیں ، اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں‘‘ ۔ آپ نے اپنی بیباکی سے حقوق انسانی کے اصولوں پر کام کرتے ہوئے عوام کی رہنمائی کی ہے اور عوام کی یہاں کامیاب نمائندگی کی ہے ۔ خالد المعینا نے سعودی عرب کے نظام کفالت پر بھی اپنی آواز بلند کی ہے ۔ مزدوروں کے حقوق میں مثبت تبدیلیوں پر مملکت کو اپنی تجاویز پیش کی ہیں ۔ کالم نگار کی حیثیت سے بھی مملکت سعودیہ کے انگریزی اور عربی کے معروف اور معیاری روزنامے آپ کی بہتر خدمات سے استفادہ کررہے ہیں جن میں گلف نیوز ، الاقتصادیہ ، عمان ٹائمز ، چائینا پوسٹ ، الشرق الاوسط ، المدینہ اور اردو نیوز شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ٹی وی ، ریڈیو پر بھی تبصرہ اور مختلف عوامی موضوعات پر لکچر دیتے ہیں ، گلف الطیبہ بینک کے اڈوائزری بورڈ کے ممبر بھی ہیں ۔ ان کی خدمات کا محور عوام الناس کی خوشحالی اور بہتر زندگی ہوتا ہے ۔ خالد المعینا ہر سعودی فرمانروا کے قریب رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وزرائے مملکت ، معروف تجار ، ماہرین تعلیم کی ہر مجلس میں آپ کی شرکت ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ جیسے بی بی سی ، وائس آف امریکہ ، الجزیرہ ، مصری عربی اور انگریزی ذرائع ابلاغ آپ کی خدمات سے استفادہ کرتے رہتے ہیں ۔ سعودی مملکت کی طرف سے اس الزام کی وہ پرزور مخالفت کرتے ہیں کہ مملکت بعض عربی ممالک میں متحارب تنظیموں کی مدد کرتا ہے ۔
2008 میں صحافت میں بہتر اور مثبت خدمات کے سلسلہ میں خالد المعینا کو حکومت پاکستان نے ملک کے اعلی ترین خطاب ’’ستارۂ پاکستان‘‘ سے سرفراز کیا ۔ مغربی ممالک پوری شد و مد سے دہشت گردی کومسلمانوں اور اسلام سے مربوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ افسوس اس بات پر ہے کہ بعض جمہوری ممالک کے سربراہان اور امیدواران مملکت بھی ببانگ دہل یہی بات کہہ رہے ہیں ۔

حالیہ فرانس دھماکہ پر مغربی ذرائع ابلاغ نے خالد المعینا سے عجیب سوالات کئے جس میں ایک یہ بھی تھا کہ ’’کیا عرب ممالک اس واقعہ پر معافی چاہیں گے؟‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ ’’نہیں؟ کیوں معافی چاہیں‘‘ ان کے جواب کا مطلب ہرگز اس دہشت گردی کی تائید کرنا نہیں ہے بلکہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو یہ مسلمانوں یا مسلم ممالک کی کارروائی ہے دوسروں کی دہشت گردی کا کسی مسلم ملک یا مسلم حکمراں سے معافی مانگنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ ہم سب دہشت گردی کے سخت مخالف ہیں اس قسم کی کارروائیوں سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ایک گہری سازش کے تحت ہورہا جس سے مسلمانوں کے تئیں نفرت اور ان سے خوف کے حالات پیدا کرنا ہے ۔ اس کی ابتداء 9/11 سے شروع ہوئی جانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ میں اور ہم سب بلکہ تمام انسانیت دوست عوام ایسے حادثوں کی سخت مذمت کرتے ہیں ۔ آج فلسطین میں نہتے فلسطینی باشندوں پر ظلم و جبر کی کارروائیاں بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں ۔ ہر روز معصوم بچے یہودیوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں  ۔ ہر روز فلسطینیوں کے گھر مسمار کئے جارہے ہیں ، مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر یہودیوں کی بستیاں تعمیر کی جارہی ہیں ۔ فلسطینیوں کو بے گھر کیا جارہا ہے ۔ اس بربریت پر کسی کی زباں نہیں کھلتی ۔ کہیں کوئی نتن یاہو پر دباؤ ڈالنے والا نہیں ۔ شام اور عراق کے مہاجرین کے معصوم بچے بھوک اور پیاس سے دریا برد ہورہے ہیں یہاں کوئی کچھ نہیں بولتا ۔ جب کبھی یوروپ یا امریکہ میں چند لوگ دہشت گردوں کا شکار ہوتے ہیں تو ساری دنیا واویلا مچادیتی ہے ۔ کیا یہی جمہوریت ہے ۔
اس طرح کے بے شمار واقعات کے ردعمل کے طور پر بذریعہ صحافت اپنے موقف کا اظہار بڑی بیباکی سے کیا ہے ۔ اسی بیباکی اور راست گوئی نے عالمی صحافت میں انہیں ممتاز لوگوں کی صف میں شامل کیا ہے ۔