عالمِ اسلام اسرائیلی بربریت پر خاموش کیوں؟

ظفر آغا

ہم اور آپ عید مناچکے ۔ نئے لباس پہن کر پروردگار کی بارگاہ میں رمضان کی عبادتوں کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے مساجد اور عیدگاہوں میں عید کی نماز بھی پڑھ چکے ۔ پھر رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ عید کے تہوار کا لطف بھی لے چکے ۔ بریانی اور سیویوں اور شیرخرمہ سے ملنے جلنے والوں کی ضیافت بھی کرچکے ۔ ایک ہم اور آپ ہندوستانی مسلمان کیا سارا عالم اسلام عید کی خوشیوں کا لطف لے چکا ۔ لیکن ذرا فلسطین کی عید کاتصور کیجئے۔ غزہ پٹی میں عید کے روز فلسطینی عید کی نماز نہیں پڑھ رہے تھے ،بلکہ وہ اس دن بھی قبرستانوں میں اپنے مردوں کو دفن کرنے میں مصروف تھے۔ عیدکا دن فلسطینیوں کے لئے نئے کپڑے پہننے کا دن نہیں تھا بلکہ اس دن تو وہ اپنے بچوں کے کفن کا انتظام کررہے تھے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ فلسطینیوں پر قہر ڈھایا جارہا تھا اور ہم اور آپ اسی روز عید کی خوشیوں میں سیویوں اور شیر خرمہ کا لطف لے رہے تھے۔
راقم الحروف پچھلے تین ہفتوں سے لگاتار اپنا کالم محض فلسطین کے تعلق سے لکھتا چلا آرہا ہے۔ اور پھر اس ہفتے بھی غزہ میں ڈھائے جارہے مظالم پر قلم اٹھارہا ہے۔ کیا کروں سوچتا ہوں اس ہفتے قارئین کو فلسطین کے تعلق سے زحمت نہ دوں لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں ہے۔ آخر کیسے اپنے ضمیر کی آواز کو دفن کردوں، اس وقت جبکہ میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ،میرے سامنے اردو کا ایک اخبارہے جس کی ہیڈ لائن ہے: اسرائیلی حیوانیت کا ننگا ناچ جاری،اقوام متحدہ کے اسکول پر بمباری ،اس کالم کے لکھے جانے تک 23دن کی جنگ میں غزہ پٹی میں مارے جانے والوں کی تعداد 1321ہوچکی تھی۔ لیکن ستم یہ ہے کہ ساری دنیا میں کہیں سے یہ آواز نہیںاٹھ رہی تھی کہ یہ جنگ بند کرو! محض ایک ایران ہے کہ جو کوئی نہ کوئی بیان اسرائیل کے خلاف دئیے جارہا ہے۔ کچھ اور اسلامی ممالک جنگ بند کرنے کی رسم ادائیگی کرتے ہیں۔ لیکن اسرائیل ہے کہ اس پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ وہ لگاتار بم برسا رہاہے اور ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

اور کیوں نہ ہو جب عالم اسلام پر فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کا کوئی اثر نہیں تو پھر غیر کیوں اپنی جان دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عالم اسلام کر ہی کیا سکتا ہے اسرائیل کے خلاف !کیونکہ جدھر نگاہ ڈالئے ادھر عالم اسلام میں امریکی پٹھو راج کررہے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان کو ہی لے لیجئے۔ ہر وقت اسلام کی تسبیح پڑھنے والے پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ جب سفارتی تعلقات ہیں تو ظاہر ہے کہ اسرائیل سے تجارت بھی ضرورہوگی۔ پھر سعودی عرب،قطر،ترکی اور انکے ساتھ دیگر عرب ممالک کو لے لیجئے ان ممالک کے براہ راست اسرائیل سے سفارتی تعلقات تو نہیں ہیں۔ لیکن یہ تمام ممالک امریکہ کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک کے تیل پر امریکہ کا دارومدار ہے۔ خود کو اسلامی ممالک کہنے والے اس حیثیت میں تو نہیں ہیں کہ وہ اسرائیل سے جنگ لڑ سکیں۔ لیکن اس حیثیت میں توضرور ہیں کہ یہ انتباہ دے دیں کہ اگر 24گھنٹوں کے اندر اسرائیل نے فلسطین کے خلاف جنگ بندی نہیں کی تو تمام عرب ممالک امریکہ کو تیل کی سپلائی بند کردیں گے۔ لیکن کسی عرب ملک میں یہ جرأت ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف آواز بلند کرسکے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ خود کو اسلامی ممالک کہنے والے تمام عرب ممالک امریکہ کے ویسے ہی ایجنٹ ہیں جیسے کہ اسرائیل ۔

اس سیاسی پس منظر میں آخر فلسطین کا ہوتوکیا ہو!تلخ حقیقت یہی ہے کہ موجودہ صورت حال میں فلسطین پر اسرائیل جب تک چاہے گا بمباری کرتا رہے گا۔فلسطینیوں کی موت کی تعداد ابھی ایک ہزار سے کچھ زیادہ ہے تو کل کو یہ ہزاروں میںہوجائے گی ۔ حالیہ جنگ میں اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ حماس کو ہر سطح پر تباہ وبرباد کردیا جائے۔ اسرائیل اس وقت تک معصوم فلسطینیوں کی جان لیتارہے گا جب تک کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جاتا ہے ۔اس کا پہلا مقصد یہ ہے کہ حماس کی پوری اعلیٰ قیادت کو ماردیا جائے۔ پھر اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس نے اسرائیل میں داخلے کے لئے جو سرنگیں بنائی ہیں ان سب سرنگوں کو تباہ وبرباد کریا جائے۔ ایران نے حماس کو جو راکٹ دیئے ہیں اسرائیل ان تمام راکٹوں کو نشانہ بنا کر برباد کرنا چاہتا ہے۔ ساتھ ہی حماس کے پاس جو بھی ہتھیار ہیں ان سب کو تباہ وبرباد کردیا جائے۔ اسرائیل اپنے مشن کو پورا کرلے گا تب ہی وہ غزہ میں ہونے والی بمباری کو روکے گا۔

اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل حماس کی کمر توڑنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ کیونکہ اسرائیل کے پاس جو فوجی طاقت ہے حماس اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے، پھر ساری دنیا میں اسرائیل کو روکنے کے لئے کوئی تیار بھی نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اسرائیل کا جو مشن ہے اس میں اسرائیل کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہی دم لے گا۔ یعنی اسرائیل اپنے فوجی مشن میں کامیاب ہوکر رہے گا لیکن اسرائیل کو کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔ اسرائیل کچھ بھی کرلے وہ فلسطینیوں کے جذبۂ حریت کو کبھی بھی نہیں کچل سکتا ہے۔

ساٹھ برسوں سے زیادہ عرصہ گزرا اور اسرائیل نے اس مدت میں سب کچھ کرلیا لیکن آج تک وہ فلسطینیوں کو ذہنی طور پر اپنا غلام نہیں بنا سکا۔ یاسرعرفات جیسے فلسطینی قائد کو زہر دے کر اسرائیل نے مروادیا ۔ پی ایل او جیسی تنظیم کی کمر توڑ دی ۔ اب حماس کو بھی اسرائیل کچل دے گا۔ لیکن فلسطینی ہی ہیں کہ اپنی آزادی کی جدو جہد ختم کرنے کو راضی نہیں ہوتے ہیں۔ ایک فلسطینی گھر سے ایک جنازہ جاتاہے تو دوسرے گھر سے سر پر کفن باندھ کر دوسرا نوجوان فلسطین کی آزادی کے لئے نکل پڑتا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو تو مار سکتا ہے، لیکن وہ فلسطینیوں کے جذبۂ آزادی کا قتل نہیں کرسکتا ہے۔ اس لئے فلسطین میں جو جنگ چل رہی ہے، اس میں بمباری بند ہو یا نہ ہو وہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ فلسطین آزاد نہیں ہوتا۔ فلسطینی کسی عرب یا نام نہاد اسلامی ملک کی مدد کے محتاج نہیں ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب ممالک امریکہ کے پٹھو فلسطین کی حمایت میں کچھ نہ بھی کریں تب بھی فلسطینیوں کی جنگ آزادی کو اسرائیل نہیں روک سکتا ہے۔ آخر فتح فلسطین کی ہوگی خواہ بمباری بند ہو یانہ ہو۔ اس جنگ کی شروعات تو اسرائیل کرسکتا ہے لیکن یہ ایک طویل جنگ ہے جس کا خاتمہ آخر فلسطینی ہی کریں گے۔ خواہ دنیا میں کوئی انکا ساتھ دے یا نہ دے۔ ایک نہیں سیکڑوں عید یں فلسطین پہ بھاری پڑسکتی ہیں۔ لیکن آخر ایک عید ایسی آئے گی جب فلسطینی اپنی فتح کا جشن منائیں گے اور اسرائیل میں ماتم ہوگا۔