عادل آباد میں اردو گھر شادی خانہ تنازعہ کے گھیرے میں

عادل آباد /26 مئی ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) مستقر عادل آباد کا اردو گھر شادی خانہ جو پتلی باؤلی پر موجود ہے اس کی آمدنی کیا صرف کمیٹی افرار تک ہی محدود رہے گی یا اس آمدنی سے قوم کا کچھ فائدہ ہوگا ۔ ان خیالات کااظہار مقامی افراد اکثر و بیشتر چائے خانوں ، شادی کی محفلوں اور مساجد میں ایک دوسرے سے گفت شنید کے دوران کیا کرتے ہیں ۔ اردو گھر شادی خانہ کی تعمیر تلگودیشم دور حکومت میں عمل میں لائی گئی ۔ تقریبا چھ سال سے اردو گھر شادی خانہ میں تقاریب منعقد کئے جارہے ہیں ۔ انتظامی کمیٹی کی جانب سے فی تقریب ہر پندرہ سو روپئے معاوضہ صفائی اور برقی چارجس علحدہ حاصل کرنے کی اطلاع ملی ہے ۔ ابتداء میں سات رکنی کمیٹی قیام کی گئی تھی کنوینر کے طور پر تحصیلدار ذمہ داری انجام دیا کرتے ہیں ۔ بعد ازاں دوسری چار رکنی کمیٹی تقریبادو سال سے خدمات انجام دے رہی ہے ۔ پہلی کمیٹی کے دور میں اردو گھر شادی خانہ سے حاصل ہونے والی آمدنی کی فاضل رقم موجود ہے جبکہ دوسری کمیٹی انہی کے نقش قدم پر کام کر رہی ہے ۔ دونوں کمیٹیوں کے پاس لاکھوں روپئے موجود ہونے کی مقامی افراد نے اطلاع دی ۔ اب جبکہ مزید چند افراد اردو گھر شادی خانہ کو اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اردو گھر شادی خانہ سے حاصل ہونے والی آمدنی کے باوجود شادی خانہ میں کئی دشواریاں پائی جارہی ہیں ۔ آہک پاشی ، برقی کا ناقص انتظام ، ہال میں فیان کی کمی کو محسوس کیا جارہا ہے ۔ اردو گھر شادی خانہ میں مسٹر یسین بیگ بابر تلگودیشم قائد نرمل کی جانب سے کراکری کا انتظام کیا گیا تھا اور اس کراکری کے ذریعہ ہونے والی آمدنی مستقر کا مدرسہ ، فاطمہ نسوان کو ۔۔۔۔۔ کا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔ ابتداء میں کراکری کے ذریعہ مدرسہ فاطمہ نسوان کو فائدہ حاصل ہوتا رہا ۔ بعد ازاں کراکری کو ناقابل استعمال بتاتے ہوئے تقریب کے امیدواروں کو باہر سے کراکری حاصل کرنے کا مشورہ دیا گیا جس کے بناء پر اردو گھر شادی خانہ میں اب جو بھی تقریب منعقد ہو رہی ہے اس میں کراکری کسی ٹینٹ ہاوز سے حاصل کی جارہی ہے ۔ باوثوق ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ کمیٹی کے امیدوار چند افراد ٹینٹ ہاوز سے مفاہمت کرتے ہوئے کچھ فائدہ حاصل کر رہے ہیں ۔ مدرسہ فاطمہ نسوان کے ذمہدار نے مدرسہ کو آمدنی کا ذریعہ برقرار رکھنے کی غرض پانچ لاکھ روپئے کے سرمایہ سے جدید کراکری خریدنے کا اظہار خیال کرچکے ہیں۔ جس کو کمیٹی کے ذمہ دار افراد کی جانب سے نظر انداز کیا گیا ۔ اردو گھر شادی خانہ میں ایک کے بعد ایک کمیٹی کی تبدیلی پر کمیٹی کے پاس لاکھوں روپیوں کی موجودگی کیا اردو گھر شادی خانہ نہ صرف کمیٹی کے فائدہ کیلئے ہی رہیگا ۔ یہ سوالات مقامی افراد کی جانب سے گشت کر رہے ہیں۔ سالانہ 200 تا 250 شادیاں و دیگر تقاریب انجام دئے جاتے ہیں ۔ بتایا گیا ہے کہ شادیوں اور تقاریب منعقد کرنے والے افراد کو پابندی کے ساتھ رسید بھی نہیں دی جاتی بلکہ اس میں ۔۔۔۔۔ کیا جاتا ہے ۔ معاشی اعتبار سے کمزور افراد کو فائدہ پہونچانے کی غرض سے اردو گھر شادی خانہ کی تعمیر عمل میں لائی گئی ۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا صاف اور شفاف حساب رکھتے ہوئے اس رقم کو غریب و نادار لڑکیوں کی شادیوں پر صرف کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ مقامی افراد نے ضلع کلکٹر مسٹر احمد بابو سے خواہش کی ہے کہ وہ اردو گھر شادی خانہ پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے دونوں کمیٹیوں کے پاس موجودہ فاضل رقم کو حاصل کرتے ہوئے اپنی سرپرستی میں غریب و نادار لڑکیوں کی شادیاں انجام دیں ۔