ڈاکٹر مجید خاں
مجھے معمولی سی باتوں پر غور کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ اکثر و بیشتر ان کا تعلق کسی نفسیاتی مسئلہ سے ہی جڑا ہوا رہتا ہے۔ میں جب ان مسائل پر گہرائی سے سوچنے لگتا ہوں تو پھربڑی دلچسپ کیفیات سمجھ میں آتی ہیں۔ میں انہی مسائل کو ایک عام آدمی کی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ شخص کس طرح سے اس مسئلے پر غور کررہا ہوگا۔ ان کا تعلق اردو زبان سے بھی ہے، کیونکہ عام لوگ تو انگریزی زبان میں غور و فکر کرنے سے مجبور ہیں۔ آج جو لفظ مجھے پریشان کررہا ہے وہ ہے انگریزی لفظ "SAME” کیا اردو میں سوچ انگریزی میں سوچ سے کمزور ہورہی ہے۔Sameکے معنی ہیں ایک سا، جوں کا توں، ایسا ہی ویسا ہی، وغیرہ وغیرہ۔
اب ذرا میں اس کو کسی قدر پیچیدہ کردیتا ہوں۔ انگریزی زبان میں اسی سے جڑا ہوا ایک اور لفظ ہےSameness مگر Samenessکا مفہوم وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی شخص ایک ہی بات کو دہراتا رہے تو ہم کہتے ہیں کہ آپ مسلسل ایک ہی بات کو دہرارہے ہیں اور ان باتوں میں یکسانیت ہے ندرت نہیں۔ یعنی اب اس میں ایک منفی پہلو آچکا ہے۔ ماہرین نفسیات دیکھتے ہیں کہ یہ جب عادت سی بن جاتی ہے تو اس شخص کے ساتھ رہنا محال ہوجاتا ہے اور تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ مزاجوں میں اختلافات کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو یہ عادت جس کے خلاف کوئی قابل مسموع شکایت نہیں کی جاسکتی وبالِ جان بن جاتی ہے۔ باتوں کی لن ترانی تعلقات میں غیر ضروری اُلجھن اور ان چھوٹی چھوٹی عادتوں سے پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اس تمہید کے بعد میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا جو میری بات کو اور واضح کردے گی۔
حیدرآباد کے ایک مشہور اسکول کی صدر معلمہ نے اسکول کی ایک لڑکی کی ذہنیت کے تعلق سے کچھ شبہات محسوس کئے۔ یہ لڑکی اپنے نوجوان والدین کے ساتھ امریکہ میں رہا کرتی تھی۔ وہاں پر بھی اسکول کے ماہر نفسیات نے اس کی ذہنی کیفیت کو قابل توجہ سمجھا اور اس کی نفسیاتی تربیت بھی شروع کردی گئی یعنی باضابطہ علاج شروع کردیا گیا جو امریکہ میں عام رواج بن گیا ہے۔ اس بیماری کوADHD کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو یہ ایک مشکل اصطلاح نظر آتی ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ جن بچوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے ان میں ان کی توجہ کم ہوجاتی ہے اور شرارت ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ صحیح معنوں میں بچے چلبلے ہوجاتے ہیں۔اس سے پہلے میں اس مرض کے تعلق سے کافی لکھ چکا ہوں۔ یہ سمجھئے کہ یہ ایک کھلونے کی گڑیا یا پتلا ہے جنہیں چابی دے کر چھوڑ دیں تو مسلسل چلتے رہتے ہیں، ان بچوں میں یہ چابی ختم ہی نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے جب یہ مسلسل جسمانی طور پر متحرک رہیں گے تو بغیر توجہ دیئے عام اسکول کے ماحول میں سکون سے تعلیم حاصل نہیں کرپائیں گے۔یہ جانی مانی شرارت نہیں بلکہ ان کی مجبوری ہے۔ اپنے بازو بیٹھے ہوئے لڑکے یا لڑکی کو ان کی حرکت سے ٹکر لگ جائے تو وہ ناراض ہوں گے اور کوئی بھی معلم اس حرکت کو برداشت نہیں کرے گا
اور تنبیہہ کرے گا یا پھر سزا دے گا۔اس کے علاوہ ایسے بچے Sameness کے عادی ہوجاتے ہیں۔ وہ نئے طور طریقے جلدی سے نہیں سیکھ سکتے۔ کوئی بھی روز مرہ کے معمول میں تبدیلی ہو تو وہ برداشت نہیں کرسکتے اور اسکول والوں کیلئے یہ ایک نیا مسئلہ بن جاتا ہے۔ان کے روز مرہ کے معمول میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں ہونا چاہیئے۔اب اس گیارہ سالہ لڑکی کی مزید کیفیت سنیئے، اپنی عادات کی لکیر کی فقیر بنی ہوئی رہتی ہے۔ کلاس میں اگرکوئی نئی ٹیچر آجائے تو یہ برداشت نہیں کرسکتی اور کھڑے ہوکر اعتراض کر بیٹھتی ہے۔ اس کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ وہ کلاس کے نظم و ضبط کو درہم برہم کررہی ہے۔ اگر وہ جانتی بھی ہے کہ ایسا کرنے سے سزا پاسکتی ہے مگر اپنی عادت سے مجبور ہے۔
امریکہ سے یہ لوگ واپس حیدرآباد آگئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ کا ماحول اس لڑکی کیلئے موزوں نہیں ہے اور ممکن ہے ہندوستان کے ماحول میں اس کی ذہنی حالت سدھر جائے گی۔ بہرحال اس اسکول میں اس کا داخلہ ہوگیا۔ شروع میں اس کا رویہ بڑا باغیانہ رہا اور اساتذہ ، والدین اور دوسرے بچوں کیلئے یہ بڑا صبر آزما وقت تھا۔ مگر تعریف تو انتظامیہ کے صبر کی کرنی چاہیئے کہ وہ لوگ عام مدارس کی طرح اس لڑکی کوکبھی بھی نکالنے کیلئے نہیں کہے۔ کاش ایسے اور مدارس یہاں پر ہوتے۔ ابھی بھی اس لڑکی کو سنبھالنا ایک صبرآزما مسئلہ ہے مگر صدر معلمہ نے خود یہ محسوس کیا کہ مجھ سے مشورہ کیا جائے۔ چونکہ اس لڑکی کو اگلی کلاس میں جانا ہے جیسا کہ نئے اساتذہ اور تیز تر تعلیم ہوگی تو وہ کچھ رہنمائی چاہتی ہے نہ صرف صدر معلمہ آئیں بلکہ اپنے ساتھ اس لڑکی کی موجودہ ٹیچر اور آئندہ سال کی ٹیچر کو بھی لے آئیں۔ شاید ہی کوئی اسکول اتنی شخصی دلچسپی لیا کرتا ہو۔ ان حالات کو سمجھتے ہوئے انتظامیہ نے یہ طئے کیا تھا کہ اس لڑکی کے ساتھ ہمیشہ ایک SHADOW TEACHER بھی رہے۔ یعنی ایک زاید ٹیچر جو سائے کی طرح اس لڑکی کے ساتھ رہے تاکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے، یعنی باڈی گارڈ۔ یہ لڑکی تعلیم میں اچھی تھی مگر وہ زاید چوکیدار نما ٹیچر کی موجودگی کو پسند نہیں کرتی تھی مگر اسکول کی یہ لازمی شرط تھی کہ بغیر زاید ٹیچر کے وہ اس اسکول میں رہ نہیں سکتی۔اب صدر معلمہ مجھ سے یہ جاننا چاہتی تھیںکہ کیا اس شرط میں کچھ ڈھیل دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے جب گفتگو شروع کی تو افتتاحی کلمات ہی میں یہ کہا کہ ڈاکٹر صاحب! ہمارا اسکول ان طلباء کیلئے نہیں ہے جن کو Special Needs یعنی خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ میڈم اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ہر بچے اور بچی کی غور و فکر اور شخصیت جداگانہ ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام طلباء کو ایک ہی آواز سے ہانکیں گی تو اب یہ ممکن نہیں ہے۔ اب تو انفرادیت کی شناخت اور اس کا احترام ضروری ہے۔
میں صدر معلمہ کی تشویش کو سمجھ رہا تھا۔ یہ نہ صرف لڑکی اور اس کے والدین اور اسکول کا مسئلہ ہے بلکہ حالات حاضر کے تقاضوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ اساتذہ اور مدارس اپنی قانونی ذمہ داریوں سے بھی ڈررہے ہیں۔ میڈیا کا یہ حال ہے کہ وہ آناً فاناًکوئی معمولی واقعہ کو بھی توڑ مروڑ کر سنسنی خیز انداز میں پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی ادارے کی بدنامی ہوسکتی ہے۔اس ماحول میں انتظامیہ اور اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیئے۔
جہاں تک اس لڑکی کا تعلق ہے میرا مشورہ تو یہ ہے کہ ایک اور ٹیچر جو سائے کے ساتھ اس کی نگرانی کررہی ہے اس کی اب چنداں ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔پھرمیں نے پوچھا کہ آخر آپ کو اس لڑکی سے کس بات کا خوف ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ غصے میں آکر بے قابو ہوجائے گی اور ہنگامہ مچادے گی۔ اس کی انتہائی کیفیت کے تعلق سے سوچا جاسکتا ہے مگر اس لڑکی نے کبھی بھی اپنی خطرناک حالت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ اگر ایسا موقع آبھی جائے تو کیا زاید نگرانکار ٹیچر اس کو سنبھال سکتی ہے۔
بہرحال انہوں نے بات کو سمجھ لیا اور یہ کہا کہ اساتذہ کی سوچ میں تبدیلی آنا ضروری ہے۔ انہوں نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں ہر طالب علم کو انفرادی توجہ درکار ہوگی۔ اگر اس میں انفرادیت نہ ہو تو وہ پھر خاص خوبیوں کا حامل نہیں ہوگا۔ عصری تعلیم وہ ہے جہاں پر ان جواہر کی شناخت کی جائے اور ان کی صحیح پرورش ہو۔
خیر بات نکلی تھی SAME اور SAMENESS کی۔ اردو زبانSAME سے SAMENESS تک نہیں بڑھی ہے۔SAMENESS یعنی کسی بھی تبدیلی کو پسند نہیں کرنا۔ ایسے لوگ اپنے ماحول میں کسی قسم کی تبدیلی کو برداشت نہیں کرسکتے۔ مثلاً ان کی روز مرہ کی مصروفیات میں یکسانیت ہوا کرتی ہے، کرسی ہمیشہ اسی مقام پر رہنی چاہیئے، بچوں کواس کی چیزوں کو لاپروائی سے اِدھر اُدھر نہیں رکھنا چاہیئے ورنہ گھر میں قہر برپا ہوگا۔ یعنی مزاج میں تبدیلی برداشت کرنے کا مادہ ختم ہوجاتا ہے اور ایسے سخت مزاج بچے اگر ان کے مطالبات نہ پورے کئے جائیں تو مشتعل ہوجاتے ہیں اور گھروں میں توڑ پھوڑ کر بیٹھتے ہیں۔ ان انتہائی حالات میں تودوائیوں کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اساتذہ اور والدین کو ان عصری تقاضوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔اگر کسی ٹیچر کو خود غصہ زیادہ ہو تو انتظامیہ کیلئے یہ ایک سردرد بن جاتا ہے۔ ایسے اساتذہ کی خصوصی تربیت ہونی چاہیئے۔ آجکل بچوں کو جسمانی سزا دینا جرم ہے۔ ٹیچربیزار ہوکر بچوںکو ڈھکیل دیتے ہیں اور اگر طالب علم گر جائے اور خدانخواستہ ہڈی ٹوٹ جائے تو یہ سنگین جرم مانا جائے گا۔
اب رہا مسئلہ اس لڑکی کا، لڑکی کو اس کی عادات کے تعلق سے سمجھایا گیا کہ ان میں طلب ہونی چاہیئے ۔ اس کی خصوصی تربیت کا بھی انتظام کیا گیا۔ وہ یہ سن کر بڑی خوش ہوئی کہ زاید ٹیچر جو اس کی حفاظت نہیں بلکہ دوسروں کے محافظ کا کام انجام دے رہی تھی اس کو آئندہ سال ہٹا دیا جائے گا۔
یہ سب نئے نئے مسائل ہیں جو ہم سب کو پریشان کررہے ہیں، اس لئے غور و فکر کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ نئی اصطلاحات کو سمجھا جائے۔ اساتذہ کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ ہر طالب علم ایک فرد ہے اور اس کی انفرادیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ میری اور دوسروں کی غو و فکر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ SAMEاور SAMENESS میں ہے۔