عابد علی خاں

یاد رفتگان
دوسری اور آخری قسط

میرا کالم                       مجتبیٰ حسین
گویا 1956 ء میں نہر سوئز پر برطانیہ کا حملہ روزنامہ ’’سیاست ‘‘ کی زندگی میں ایک ا ہم موڑ ثابت ہوا۔ ’’سیاست‘‘ نے تازہ ترین خبروں کی اشاعت اور متن کو مؤثر انداز میں پیش کر کے اپنی اہمیت منوالی ۔ اس کے بعد ’’سیاست‘‘ نے کبھی پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا ۔ ان دنوں عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب سائیکل پر دفتر آ یا کرتے تھے ، بعد میں جب حالات ذرا بہتر ہوئے تو سائیکل رکشا میں گھومنے لگے ۔ پھر آٹو رکشا میں نکلنے لگے ۔ ’’سیاست ‘‘ کی اشاعت کے آٹھ نو برس بعد ہی انہوں نے موٹر خریدی ۔ جب اخبار کے قدم جم گئے تو نہایت منصوبہ بند طریقہ سے انہوں نے ’’سیاست ‘‘ کو ایک مکمل اور عصری اخبار بنانے کا بیڑہ اٹھایا ۔ لیتھو کی پرانی مشینوں کی جگہ آفسیٹ کی نئی مشینیں آگئیں۔ اخبار کی اپنی عمارت بن گئی ۔ تازہ ترین خبروں کیلئے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے علاوہ یونائٹیڈ نیوز آف انڈیا کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جنوبی ہند میں ’’سیاست‘‘ ہی نے سب سے پہلے کمپیوٹر کے ذریعہ اردو کمپوزنگ کا آغاز کیا ۔ ’’سیاست‘‘ میں نئے نئے فیچر شروع کئے گئے ۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے حیدرآبادیوں کے مسائل کو ’’سیاست‘‘ میں نہایت موثر انداز میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ اس طرح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے حیدرآبادی ’’سیاست‘‘ کی ڈور سے بندھ گئے ۔ یوروپ ، امریکہ اور مشرق وسطی کے ممالک میں لوگ جس بے چینی سے ’’سیاست‘‘ کا انتظار کرتے ہیں اس کا میں عینی شاہد ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’سیاست‘‘ آج ہندوستان کا دوسرا کثیرالاشاعت اخبار بن گیا ہے ۔ عابد علی خاں نے اپنے لئے اور اپنے اخبار کیلئے یہ مقام انتھک محنت اور لگن کے ذریعے حاصل کیا ۔ ان میں بے پناہ عزم اور حوصلہ تھا ۔ کام کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود تھی ، جو بھی کام کرتے اس کے سارے گوشوں کا بغور جائزہ پہلے سے لے لیتے تھے ۔

اردو اور حیدرآباد ان کی دو بڑی کمزوریاں تھیں۔ حیدرآباد کو اردو کا سب سے بڑا مرکز بنانے میں ان کی کوششوںکو دخل تھا ۔ میں سمجھتا ہوں برصغیر میں ادبی ٹرسٹ سے بڑا مشاعرہ کہیں اور نہیں ہوتا ۔ اردو کے بیسیوں اداروں کی انہوں نے سرپرستی کی۔ سب کچھ کرنے کے باوجود انہوں نے کبھی بلند بانگ دعوے نہیں کئے ۔ نمود و نمائش سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھا ۔ حکومت ہند کی گجرال کمیٹی کے وہ سب سے سرگرم رکن تھے۔ مجھے بھی اس کمیٹی کے شعبہ ریسرچ میں کام کرنے کا موقع ملا تھا ۔ عابد علی خاں صاحب کمیٹی کے ہر اجلاس میں شرکت سے پہلے کافی تیاری کر کے آتے تھے ۔ ان کی بے شمار ٹھوس تجاویز کو کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں شامل کیا جن میں سے اکثر پر عمل بھی کیا گیا ۔ کمیٹی کے صدر نشین جناب اندر کمار گجرال ان کی بے حد عزت کرتے تھے اور ہر معاملے  میں ان سے مشورہ کرنے کو ضروری سمجھتے تھے ۔
ترقی اردو بورڈ کے وہ برسوں رکن رہے ۔ مجھے ترقی اردو بورڈ کی ایک میٹنگ اب تک یاد ہے جس کی صدارت اس وقت کے وزیر تعلیم بی شنکر آنند کر رہے تھے ۔ عابد علی خاں کو شکایت تھی کہ بورڈ کے اجلاسوں کی روداد کو صحیح ڈھنگ سے تیار نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے اگلی میٹنگ میں وہ اپنے ساتھ ٹیپ ریکارڈر لیتے آئے اور اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے مرکزی وزیر تعلیم سے نہایت سخت لہجے میں کہا ’’مجھے وزارت تعلیم پر اعتراض ہے کہ وہ بورڈ کے اجلاس کی روداد کو صحیح طور پر مرتب نہیں کرتی ۔ اسی لئے میں اپنا ٹیپ ریکارڈر اپنے ساتھ لیتا آیا ہوں تاکہ آپ جو وعدہ کریں بعد میں اس سے مکر نہ جائیں۔ ‘‘ عابد علی خاں صاحب کے اعتراض پر اجلاس میں سناٹا چھاگیا ۔ بعد میں وزیر تعلیم نے وزارت تعلیم کے عہدیداروں سے خاصی باز پرس کی اور روداد کے غلط مرتب ہونے پر عابد علی خاں سے معافی مانگی ۔ اردو کے معاملے میں وہ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے تھے ۔ وہ اپنی بات کو پوری بیباکی کے ساتھ کہنے کے عادی تھے ۔ مخاطب چاہے کتنا ہی ذی اقتدار اور صاحب اثر آدمی کیوں نہ ہو ۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا ، سماچار بھارتی ، قومی یکجہتی کونسل ، پریس کونسل ، ترقی اردو بورڈ اور دیگر اداروں کے اجلاسوں میں شرکت کیلئے وہ اکثر دہلی آتے تھے ۔ آنے سے پہلے وہ فون پر اپنی آمد کے بارے میں مجھے اطلاع ضرور دیتے تھے ۔ جو ضروری ملاقاتیں پہلے سے طئے ہوتی تھیں وہیں جاتے تھے ۔ غیر ضروری طور پر وزراء، عہدیداران اور قائدین سے ملنے سے گریز کرتے تھے ۔ اپنی خودداری اور انا کا انہیں بے حد احساس تھا ۔ میں نے اردو کے ہی نہیں دیگر زبانوں کے اخباروں کے ایڈیٹروں کو بھی دیکھا ہے جو دہلی آتے ہی اپنے تعلقات کو وسیع کرنے اور قائدین سے ملنے ملانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ عابد علی خاں نے خود سے جاکر کسی وز یر یا عہدیدار سے ملاقات نہیں کی بلکہ اکثر اوقات یہی لوگ خود عابد علی خاں سے ملنے کیلئے آجاتے تھے ۔ بارہ برس پہلے تک ان کا معمول تھا کہ دہلی آتے تو رات کا کھانا پرانی دہلی کے کریم ہوٹل میں کھاتے تھے ۔ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ میں اپنے دوستوں کو بھی رات کے کھانے پر مدعو کروں ۔ بعض دفعہ میرے دس بارہ دوست ان کے ساتھ رات کے کھانے میں شریک رہتے تھے ۔ حکومت آندھراپردیش کے کئی وزیر اور ارکان پارلیمنٹ بھی ان کی وجہ سے کریم ہوٹل کا رُخ کرتے تھے ۔ قلب پر پہلے حملے کے بعد وہ پرانی دہلی کی بجائے نظام الدین والے کریم ہوٹل میں جانے لگے تھے ۔ بارہ سال پہلے دہلی سے حیدرآباد واپس جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں ہی ان کے قلب پر پہلا حملہ ہوا تھا ۔ اس کے بعد وہ کئی دنوں تک دہلی نہیں آسکے۔ طبیعت ذرا سنبھلی تو پھر دہلی آنے جانے لگے ۔ یہی نہیں صدر جمہوریہ ہند اور وزیراعظم کے ساتھ کئی بیرونی ملکوں کا دورہ بھی کیا ۔ حیدرآباد کے چار سو سالہ جشن کے سلسلے میں منعقدہ تقاریب میں شرکت کیلئے لندن اور مشرق وسطی کے ممالک بھی گئے ۔ ان میں ایک عجیب و غریب حوصلہ تھا ۔ پچھلے دس بارہ برسوں میں ان کے قلب پر کئی حملے ہوئے لیکن وہ زندگی سے کبھی مایوس نہیں ہوئے ۔ ہسپتال میں آرام بھی کرتے تو کئی منصوبوں اور تقاریب کے بارے میں سوچتے رہتے تھے ۔ آخری دنوں میں وہ گھر پر ہی رہنے لگے تھے ۔ ہر دوسرے دن وہ حیدرآباد سے مجھے فون کیا کرتے تھے ۔ پچھلے سال ’’سیاست‘ کے توسیعی لکچر کے لئے انہوں نے ٹیلی ویژن کی مشہور آرٹسٹ اور میری دوست نلنی سنگھ کو مدعو کیا تھا ۔ اس جلسے کا سارا کام انہوں نے گھر پر بیٹھے بیٹھے ہی کیا تھا ۔ حیدرآباد اور اردو کیلئے ان کے ذہن میں کئی منصوبے تھے جن پر وہ عمل پیرا ہونا چاہتے تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ  ضرورت مندوں ، بیکسوں اور مسکینوں کی بے دریغ مددکی لیکن کبھی ان کی زبان پر اس مدد کا ذ کر نہیں آتا تھا ۔ میرے بے شمار دوستوں کے کام انہیں کی معرفت پورے ہوئے ۔ وہ نہایت منظم طریقے سے کام کرنے کے عادی تھے ۔ کسی کی سفارش کرنی ہوتی تو اس کے بارے میں ایک کا غذ پر تفصیلات لکھ کر اپنی میز پر رکھ لیتے تھے ۔ جب تک یہ کام نہیں ہوجاتا تھا تب تک وہ کاغذ ان کی میز پر ہی موجود رہتا تھا۔ جیسے ہی کام ہوجاتا کاغذ کے اس پرزے کو پھاڑ کر پھینک دیتے تھے۔ خدا نے انہیں ایک ایسا رتبہ اور اعتبار بخشا تھا کہ ان کے منہ سے نکلا ہوا کوئی لفظ خالی نہیں جاتا تھا ۔ بڑے بڑے صاحبان اقتدار جو کام نہیں کراسکتے وہ ان کے ایک لفظ سے پورا ہوجاتا تھا ۔ لفظ جب ان کے منہ سے نکلتا تھا تو اس کی توقیر میں خود بخود اضافہ ہوجاتا تھا ۔

ان کے انتقال سے پہلے دو تین دنوں تک جب ان کا فون نہیں آیا تو مجھے تشویش سی ہوئی۔ میں نے حیدرآباد فون کر کے ان کی خیریت پوچھی تو پتہ چلا کہ بالکل خیریت سے ہیں اور گھر پر آرام کر رہے ہیں۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ اس کے چند ہی گھنٹوں بعد وہ اس دنیا  سے رخصت ہوجائیں گے ۔ دوسرے دن علی الصبح ان کے انتقال کی خبر ملی تو سکتہ سا طاری ہوگیا ۔ پہلی بار پتہ چلا کہ بے سہارا ہونا کس کو کہتے ہیں۔ وہ جب تک زندہ رہے میں نے کبھی اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچا تھا ۔ دہلی میں رہتے ہوئے بھی ہمیشہ ایک بھروسہ یہ تھا کہ عابد علی خاں اس دنیا میں موجود ہیں۔ میری تعلیم سے لے کر میری بیٹیوں کی شادیوں تک ہر نجی معاملے میں عابد علی خاں صاحب کی سرپرستی مجھے حاصل رہی ۔ کوئی معاملہ ہوتا میں اس معاملے کو ا پنے بڑے بھائی محبوب حسین جگرؔ صاحب سے رجوع نہیں کرتا تھا بلکہ راست طور پر عابد علی خاں صاحب سے کہہ دیتا تھا ۔ وہ مجھے بے حد عزیز رکھتے تھے ۔ انہوں نے آخر وقت تک میری کوئی بات نہیں ٹالی،انہیں میری زندگی کی روش اور لاپرواہیوں کا پوری طرح اندازہ تھا ۔ اسی لئے مخدومؔ محی الدین جب ہاؤزِنگ بورڈ کے ممبر بنے تو انہوں نے مخدوم صاحب سے کہہ کر  میرے لئے ایک مکان الاٹ کروایا تھا ۔ لوگوں کے بارے میں کچھ اظہار خیال کئے بغیر پوری خاموشی کے ساتھ انہیں محسوس کرنے کا یہ انداز ان کا اپنا تھا ۔ 1972 ء میں جب میں نے دہلی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو عابد علی خاں صاحب نے اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی ۔ اخبار کے ملازمین کو جب بھی کہیں سے ملازمت کی اچھی پیشکش آتی تو وہ اس کی ستائش کرتے تھے ۔ دوسروںکی ترقی سے وہ ہمیشہ خوش ہوتے تھے۔ ان کے کچھ بدخواہ بھی تھے لیکن کبھی انہوں نے ان کے خلاف نہیں کہا ۔ انہیں اپنی محنت اور اپنے بل بوتے پر پورا بھروسہ تھا ۔

وہ جب سے بیمار رہنے لگے تھے، میں تقریباً ہر مہینہ حیدرآباد کا ایک چکر لگالیتا تھا ۔ اگرچہ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ عمر کی نقدی جلد ہی ختم ہونے والی ہے لیکن کبھی انہوں نے اپنی موت کے بارے میں اظہار خیال نہیں کیا ۔ جب بھی ملتے یوں باتیں کرتے جیسے اور کئی برسوں تک زندہ رہیں گے۔ اصل میں وہ ایسی باتیں عیادت کرنے والوں کا دل رکھنے کیلئے کرتے تھے ۔ انہیں اپنے سے کہیں ز یادہ عیادت کرنے والوں کے جذبات کا خیال رہتا تھا ۔ ان کے دوست اور سابق مرکزی وزیر شیوشنکر صاحب نے یہ تجویز رکھی تھی کہ انہیں علاج کیلئے امریکہ روانہ کیا جائے لیکن عابد علی خاں نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کردیا تھا ۔ 11 اکتوبر کو ان سے میری آخری ملاقات اسپتال میں ہوئی تھی ۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے مجھے وداع کیا تھا ۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ چہرہ پھر کبھی دکھائی نہیں دے گا ۔ 12 نومبر کو شام کے وقت جب میں حیدرآباد پہنچا تو لوگ ان کی تدفین کے بعد واپس ہورہے تھے ۔ اردو صحافت اپنے محسن سے اور حیدر آباد اپنے ایک عظیم سپوت سے محروم ہوگیا ۔ عابد علی خاں کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پرُ نہ ہوسکے گا کیونکہ عابد علی خاں جیسی شخصیتیں جن سانچوں میں بن کر نکلتی تھیں وہ سانچے اب ٹوٹ چکے ہیں۔     (نومبر 1992 ء)