اولوالعزم اور فہیم و دانا حکمران جنہوں نے برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کی بنیادڈالی
دوسری اور آخری قسط
سعید حسین
چوتھی بار، بابر 930ھ (1524ء) میں لاہور پر حملہ آور ہوئے اور کھکروں کے خلاف کارروائی کی۔ بابر نے سرزمین ہند پر پانچویں اور فصیلہ کن حملہ 912ھ (1526ء) میں کیا۔ جاسوسوں نے اطلاع دے دی تھی کہ ہند کے حکمراں، ابراہیم لودھی ایک لاکھ سواروں کے ساتھ پانی پت کے میدان میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ جنگی ہاتھی بھی ہیں۔ بابر کے ساتھ صرف دس ہزار سوار تھے۔ فریق مخالف کے پاس دس گنا زیادہ طاقت تھی اس لئے بابر کی فوج میں تشویش کا پھیل جانا فطری تھا لیکن بابر نے اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دلایا، انہیں منظم کیا اور سرہند پہنچ کر وہاں بھروسے کے قابل حکام مقرر کرکے پانی پت کی سمت کوچ کردیا۔ پانی پت کا میدان دہلی سے 40 کوس کے فاصلے پر دہلی اور سرہند کے درمیان واقع ہے۔ 9؍رجب 932ھ (21؍اپریل 1526ء) کو پانی پت کے میدان میں تاریخی جنگ لڑی گئی جس کے نتیجے میں برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا باب کھل گیا۔ بابر نے حکم دیا کہ توپوں کی گاڑیاں بیلوں کی مروڑدار کھالوں کے ساتھ زنجیر کی طرح جوڑ دی جائیں۔ ہر دو توپ گاڑیوں کے درمیان چھ یا سات لوہے کے توے تھے۔ گولہ پھینکنے والے ان تودوں کے عقب میں کھڑے ہو کر گولہ پھینکتے تھے۔ بابر نے ان تیاریوں پر پانچ یا چھ دن صرف کئے تھے۔ اس کے بعد ہی وہ پانی پت کی طرف بڑھے تھے۔ صبح میں لڑائی کا آغاز ہوا، گھوڑوں کی ٹاپوں، ہاتھیوں کی چنگھاڑوں اور رزمیہ نعروں سے میدان گونج اٹھا، خون کے فوارے اچھلنے لگے اور گرد و غبار کے بادلوں نے میدان کو ڈھانپ لیا، توپوں کی گرج نے دلوں پر ایک دہشت طاری کردی۔ بابر کی مختصر مگر جنگ آزما فوج کے آگے ابراہیم لودھی کا دس گنا بڑا لشکر نہ ٹھہر سکا اور دوپہر ہونے تک اس کے قدم اکھڑ گئے۔ ابراہیم لودھی لڑتے ہوئے مارے گئے اور بابر کا لشکر فتح یاب ہوا۔
بابر نے کئی دن سے تھکی ہوئی فوج کو آرام کرنے کا موقع نہ دیا اور اسی دن اپنے بیٹے ہمایوں کی قیادت میں فوج کے ایک حصے کو آگرہ فتح کرنے کے لئے روانہ کردیا۔ خود بابر نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی۔ 12رجب 932ھ (24اپریل 1526ء ) کو بابر دہلی میں فاتحانہ داخل ہوئے۔ شیخ زین الدین کو جو بابر کے معتمد تھے۔ حکم دیا کہ ظہیر الدین بابر کے نام کا خطبہ پڑھیں۔ اگلے دن بابر نے دہلی میں بزرگان دین ؒکے مزاروں کی زیارت کی۔ دہلی کے قلعہ اور شاہی محلوں کی سیر کی اور دس دن دہلی میں قیام کے بعد آگرہ روانہ ہوئے۔بابر کی آگرہ آمد سے پہلے ہی ہمایوں قلعہ آگرہ پر قبضہ کرچکے تھے جو پہلے راجا بکرماجیت کے پاس تھے۔ راجا بکرماجیت نے پانی پت کی لڑائی میں ابراہیم لودھی کا ساتھ دیا تھا۔ آگرہ کے قلعہ سے ہمایوں کو بہت بڑا خزانہ ملا تھا۔ اس میں آٹھ مشقال وزن کا وہ نہایت بیش قیمت الماس بھی شامل تھا جسے علاؤالدین خلجی دکن سے لے کر آئے تھے۔ بابر آگرہ پہنچے تو ان کا شاندار استقبال ہوا۔ بابر کو آگرہ کا خزانہ پیش کیا گیا تو انہوں نے حکم دیا کہ اس میں سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دیگر مقامات مقدسہ کے علماء کرام اور بزرگان کو حصہ روانہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ کابل اور دیگر تمام ملکوں کے مستحقین کے لئے بھی رقوم روانہ کرنے کی ہدایت کی۔
اس موقع پر بابر کی فوج گرمی کی شدت سے پریشان تھی۔ سرسام کی بیماری سے بھی فوج کے جوانوں کو شکایت تھی لیکن بابر کی جوشیلی اور مدلل تقریریں سن کر جوانوں نے پھر سے کمر ہمت باندھ لی۔ بابر کی فوج اب دریائے گنگا کی سمت بڑھتی ہوئی جونپور اور غازی پور تک پہنچ چکی تھی۔ادھر دہلی اور آگرہ پر بابر کے قبضے کے باعث ہند کے دیگر راجاؤں کو شدید تشویش ہوگئی چنانچہ اطراف کے راجاؤں نے مشرقی، پنجاب میں حکمراں لودھی سرداروں سے رابطہ قائم کیا۔ سرکش میواتیوں کو اپنے ساتھ ملایا اور سب مل کر چتوڑ کے حکمراں رانا سانگا کے پاس فریاد لے کر پہنچ گئے۔ رانا سانگا نے تمام راجاؤں اور ریاستوں کے حکمرانوں کو پیغامات بھجوائے اور جلد ہی تقریباً دو لاکھ راجپوت اور پٹھان سواروں کی فوج جمع کرلی۔ اس فوج میں دو ہزار جنگی ہاتھ اور توپ خانہ بھی شامل تھا۔ رانا سانگا کی فوج نے پیش قدمی شروع کردی تو اس کی خبریں بابر تک پہنچنے لگیں۔ بابر کی فوج کے تجربہ کار افسران تک اس زبردست فوج کی آمد کی خبر سن کر پریشان ہوئے بغیر نہ رہ سکے، لیکن بابر نے کسی تردد کا اظہار نہیں کیا۔ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ انہوں نے بیانہ کے مقام پر اپنی خصوصی چوکی قائم کردی اور جاسوسوں کو ہدایت کردی کہ دشمن کی نقل و حرکت سے مستقلاً آگاہ کرتے رہیں۔بابر نے تمام اعلیٰ فوجی افسران اور امراء کا اجلاس طلب کیا۔ بیشتر افسران اور امراء کا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں فی الحال پنجاب اور کابل کی طرف کوچ کردینا چاہئے۔ بابر نے ان تمام مشوروں کو مسترد کردیا اور نہایت ولولہ انگیز تقریر کی۔ انہوں نے کہا : ’’کیا تمہادے دلوں سے جذبہ ٔ شہادت ختم ہوگیا ہے؟ یاد رکھو! اگر ہم کفار پر غالب آگئے تو ہم غازی ہوں گے ورنہ رتبہ ٔ شہادت ہمیں مل کر رہے گا۔ کیا یہ بات اس سے بہتر نہیں کہ ہمارا نام صرف بادشاہوں کی تاریخوں میں آئے اور وہ بھی ’’بھگوڑوں‘‘ کے لقب کے ساتھ۔ ہر فرد جو بھی اس دنیا میں آتا ہے فنا ہوجاتا ہے۔ بدنامی کی زندگی سے ناموری کی موت کتنی بہتر ہے‘‘۔
اس جوشیلی تقریر نے تمام افسران کی غیرت کو بیدار کردیا۔ سب نے عہد کیا کہ وہ کفار کے مقابلے میں جان دینے کے لئے تیار ہیں۔ 11جمادی الاول 933ھ (13فروری 1527ء ) کو آگرہ کے قریب خانواؒ کے مقام پر دونوں فوجوں کے مابین خونریز جنگ کا آغاز ہوا۔ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن بابر کی فوج کے جوان سر سے کفن باندھ کر لڑرہے تھے۔ رانا سانگا کی فوج کا ہرال دستہ حسن خان میواتی کی قیادت میں دس ہزار سواروں پر مشتمل تھا، اس کے ساتھ راجپوتوں کا ایک بہادر گروہ بھی تھا۔ اس ہراول دستے کی یلغار سے بابر کی فوج کا ایک حصہ متاثر ہونے لگا او ر قریب تھا کہ اس کے قدم اکھڑجاتے لیکن بابر نے اپنی فوج کے مرکزی حصے کو پیش قدمی کا حکم دیا۔ حسن خان میواتی کے سواروں نے تیروں کی بارش کردی لیکن بابر کے جری سپاہی تیروں کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے۔ رانا سانگا نے دیکھا کہ بچنے کی کوئی امید نہیں تو وہ کسی نہ کسی طرح اکیلا گھوڑا پر سوار ہوتا ہوا میدان سے فرار ہوگیا۔ جلد ہی مسلمانوں کی فوج سے فتح کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ اس جنگ کے بعد بابر نے راجپوتوں کو مزید سزاء دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ آگے بڑھے اور انہوں نے چندیری کے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ چند دن کے محاصرے کے بعد قلعے پر قبضہ ہوگیا لیکن راجپوتوں نے پھر حملہ کرنے کی کوشش کی اور کئی ہزار راجپوت مارے گئے۔ چندیری کی فتح کے بعد اس علاقے کے تمام راجاؤں نے بابر کی اطاعت اختیار کرلی۔اس کے بعد بابر کو قدرے سکون کے لمحات میسر آئے اور انہوں نے آگرہ میں عمارتیں تعمیر کروائیں اور باغات لگوائے۔
کچھ عرصے بعد بہار میں بہلول لودھی کے پوتے سلطان محمود نے بغاوت کردی ادھر ملتان سے بھی سرکشی کی اطلاعات ملنے لگیں۔ بابر نے پہلے بہار کی طرف کوچ کا حکم دیا۔ شعبان 935ھ (مئی 1529ء) میں بابر نے اس مقام پر لودھیوں پر فتح پائی جہاں گوگرہ اور گنگا آپس میں ملتے ہیں لیکن اس کے بعد بابر کو بنگالیوں کے ساتھ چپقلش مول لینی پڑی۔ بابر نے گنگا عبور کرکے بنگالیوں کو شکست دی۔ اس طرح بابر کی حکومت کابل سے لے کر بنگال تک وسیع ہوگئی۔علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ’’سیر افغانستان‘‘ میں لکھا ہے کہ قندھار کے باہر ایک پہاڑی پر ایک مسجد کے طاق میں بابر کے حکم سے ان تمام شہروں کے نام لکھے گئے ہیں جنہیں بابر نے فتح کیا تھا۔ یہ تمام نام جلی قلم سے لکھے گئے ہیں۔ ان میں پٹنہ، حاجی پور، سسرام سے لے کر لکھنؤ اور لاہور وغیرہ شامل ہیں۔
بابر نے اپنے سب سے بڑے بیٹے ہمایوں کو کابل میں حکمراں مقرر کیا تھا۔ ہمایوں اپنے والد سے ملنے کی خاطر واپس آئے تو بیمار ہوگئے۔ انہیں زبردست بخار چڑھ گیا۔ معالجوں نے ہر طرح کا علاج آزمالیا لیکن افاقہ نہ ہوا، حتی کہ معالجوں نے بالکل ناامیدی ظاہر کردی۔ بابر کو ہمایوں بیحد عزیز تھے۔ ان سے کسی نے کہا ہمایوں کی جان بچانے کے لئے صدقہ دے دیا جائے اور تجویز دی کہ اس قیمتی الماس کو صدقہ کردیا جائے جو علاء الدین خلجی کے خزانے میں سے حاصل ہوا تھا لیکن بابر نے کہا کہ پتھر کا یہ ٹکڑا میرے بیٹے کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ ہمایوں کے بعد مجھے میری اپنی جان عزیز ہے چنانچہ بابر تنہائی میں چلے گئے جہاں انہوں نے گڑگڑا کر اپنے بیٹے کی صحت کی، اللہ تبارک و تعالی سے دعائیں مانگیں پھر وہ اپنے بیمار بیٹے ہمایوں کے پاس گئے اور بیٹے کی چارپائی کے گرد چکر لگا کر کہا :
’’برداشتم، برداشتم، برداشتم۔‘‘
(یعنی میں نے اس کی بیماری اپنے سر لے لی۔)
اسی دن سے ہمایوں صحت یاب ہونے لگے اور بابر بیمار پڑگئے۔ یہی بیماری ان کے لئے پیام اجل لے کر آئی۔ 6جمادی الاول 937ھ (26دسمبر 1530ء) کو اس عظیم اور اولوالعزم حکمراں نے اس عالم فانی کو آگرہ میں خیرباد کہا۔ انتقال سے قبل بابر نے ہمایوں کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔