ظلم کے خلاف ’’حلف الفضول‘‘ کا تاریخی معاہدہ

نبی اکرام صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے مکہ مکرمہ میں اپنا بچپن اور جوانی کے مبارک ایام بسر کی ، یہ زمانہ مکہ میں کئی ایک یادگار واقعات سے پُر رہا ، آپ ؐ کی عمر مبارک سترہ یا بیس برس تھی جب ’’حرب فجار‘‘ چھڑی ۔ اس جنگ کو فجار اس لئے کہتے ہیں کہ یہ لڑائی حرمت والے مہینے میں ہوئی اور بہت فسق و فجور ہوا اور بہت سی حرمتیں پامال ہوئیں۔ یہ جنگ قیس اور کنانہ کے قبیلوں کے مابین حج کے محترم زمانے میں ہوئی۔ قریش مکہ نے بھی اپنے دستے الگ قائم کرکے شمولیت اختیار کی۔ چونکہ قریش اس جنگ میں برحق تھے اس لئے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے بھی اس جنگ میں اپنے چچاؤں کی مدافعت اور معاونت کی۔ تاہم علامہ سھیلی( الروض الانف، ۱:۱۔۲) کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے تو اس میں عملی حصہ نہیں لیا ، اپنے چچاؤں کی معاونت کی اور ان کو تیر پکڑاتے رہے ۔ اس زمانے کی بات ہے جب قریش حرب فجار سے لوٹے اور کچھ عرصہ نہ گزرا کہ ’’ذوالقعدہ‘‘ کا مہینہ تھا زبیر شہر کا رہنے والا یمن کا باشندہ مکہ مکرمہ کو کچھ تجارتی ساز و سامان لیکر آیا ، عاص بن وائل نے اس سے وہ سامان تجارت کو خریدلیا لیکن اس کاحق دینے سے مکرگیا ۔ وہ شخص فریاد و دادرسی کے لئے سرداران قریش کے پاس گیا اور اپنا مدعا پیش کیا لیکن کسی نے اس کی دادرسی نہیں کی چونکہ عاص بن وائل کی قریش کی نظر میں بڑی وقعت تھی اس لئے اس کے رعب و دبدبہ کی بناء کوئی اس مظلوم کی نصرت و حمایت کے لئے آمادہ نہ ہوا ۔ چنانچہ اس نے جبل ابی قیس پر چڑھ کر چند اشعار میں اپنی مظلومیت کا نقشہ کھینچا اور انسانیت نواز افراد کو نصرت و حمایت کے لئے پکارا ۔ زبیر بن عبدالمطلب کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ اس مظلوم کو اس طرح نہیں چھوڑسکتے ، اس کی حمایت کرنا ہمارا فریضہ ہے۔

پھر آپ نے دیگر قبائل کے سرداران سے تبادلۂ خیال کیا اور ذوالقعدہ کے مہینہ میں پانچ قریشی قبائل (۱)بنوہاشم (۲)بنومطلب (۳) بنو اسد (۴) بنو زہرۃ (۵) بنوتیم کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طئے پایا ۔ مذکورہ قبائل کے سردار بنوتیم کے سردار عبداللہ بن جدعان کے گھر میں کھانے پر جمع ہوئے ۔ اس عہد و پیماں میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ شریک تھے ۔ معاہدہ یہ تھا کہ اگر مکہ میں کسی پر ظلم ہوا تو ہم اس کی مدد کو دوڑیں گے اور ظالم کو مکہ میں رہنے نہیں دیا جائیگا۔ السیرۃ النبویۃ ، ابن کثیر ، ۱:۲۵۷ کے مطابق ’’بنوہاشم ، بنوزہرہ اور بنوتیم بن مرہ ، عبداللہ بن جدعان کے گھر میں اکٹھے ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کے نام پر باہمی معاہدہ کیا کہ جب تک سمندروں میں پانی موجود ہے اور جب تک حرا اور شبیر پہاڑ اپنی جگہ موجود ہیں ، وہ ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت میں یکجاں ہونگے حتی کہ اسے اس کا حق مل جائے نیز آپس میں ہمدردی اور غمخواری کا سلوک کریں گے‘‘۔
آپﷺ اعلان نبوت کے بعد انسانیت پر مبنی تاریخی معاہدہ کا ذکر فرماتے اور فرمایا کرتے : میں عبداﷲ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر مجھے اس کے لئے دور اسلام میں بلایا جاتا تو میں اسے یقینا قبول کرلیتا۔ (الرحیق المختوم ص: ۷۷)
اس معاہدہ کو ’’الفضول‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں جو عمائدین شریک تھے ان میں سے بیشتر کے نام میں لفظ ’’الفضل ‘‘ تھا۔ جیسے

فضل بن حارث ، فضل بن وداعۃ ، فضل بن فضالۃ ( الاام البخاری : الادب المفرد) مظلوم کی حمایت میں چنانچہ جب یہ معاہدہ طئے پایا تمام معاہدہ میں شریک افراد مظلوم کی حمایت میں ایک طاقت و قوت بنکر عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے یمن کے باشندہ کا ساز و سامان چھین لیا اور اس کے مالک کو لوٹادیا۔
یہ معاہدہ عرب کی تاریخ کا ایک سنہرا حصہ ہے جو ہمیشہ عرب کے مفاخر و امتیازات میں شمار ہوتا رہیگا ۔ زبیر بن عبدالمطلب نے اس پر ایک قصیدہ نظم کیا جس کا ایک شعر یہ ہے ۔
إن الفضول تحالفوا ، وتعاقدوا
ألا یقیم ببطن مکۃ ظالم
أمر علیہ تعاھدوا و تواثقوا
فالجار والمعتر فیھم سالم
فضول ( فضل بن حارث ، فضل بن وداعۃ ، فضل بن فضالہ) نے باہمی معاہدہ کیا کہ مکہ کی وادی میں کوئی ظالم نہیں رہ پائیگا ۔ یہ ایسا معاہدہ ہے جس پر سب نے عہد و پیمان کیا تھا جس کی رو سے پڑوسی اور پردیسی سب یکساں محفوظ و مامومن تھے ۔
پس ظلم ایک مذموم صفت ہے ، کبیرہ گناہ ہے ، ارشاد الٰہی ہے : جس نے ظلم کیا وہ یقینا نامراد ہوا (سورہ طہٰ:۱۱۱) اور ظالم اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے شدید عذاب کے مستحق ہوں گے ۔ مظلوم کی حمایت ہرمسلمان کا اخلاقی فریضہ ہے ۔ حسب استطاعت مظلوم کی حمایت کرنے کا حکم ہے ۔

مسلمان عدل و انصاف کا پابند ہے ، ظلم و زیادتی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے،ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کو اس کے حق کے حصول تک جدوجہد کرنے کا پابند ہے ۔ جس طرح عدل و انصاف کے معاملہ میں کسی چھوٹے ، بڑے ، شریف ، غیرشریف ، ہم مذہب اور غیرمذہب میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی اس طرح ظلم کی مدافعت میں قطعاً یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ ظالم کون ہے ، ظلم کا دفاع بہرقیمت لازم ہے ۔ خواہ ظلم کرنے والا اس کا رشتہ دار ، دوست اور ہم مذہب کیوں نہ ہو ۔
مسلمان قوم ایک بہادر اور حق پسند قوم ہے ۔ اس قوم میں بھی ایسے جراثیم داخل ہوگئے جس نے مسلمان کے قلب و دماغ سے ظلم کے خلاف نبرد آزما ہونے کے جذبات کو ٹھنڈا کردیا اور مسلمان کو کمزور بنادیا ۔ اب مسلمان طاقت و قوت والے سے مظلوم کو انصاف دلانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اسلامی ممالک میں رعایا پر ظلم و ستم عام ہے ۔ ایک مسلمان میں کسی حکمران تو کجا معمولی سی طاقت و قوت رکھنے والے یا دولت و ثروت رکھنے والے سے حق بات کہنے کی جرأت نہیں ہے ۔ ظالم اگر طاقتور ہے تو دنیا اس کی مؤید ہے اور مظلوم اگر کمزور ہے تو اس کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ واضح رہے کہ ظلم ہوتا دیکھنے کے بعد مظلوم کی حمایت نہ کرنا اور ظالم کی تائید برقرار رکھنا یہ بھی ایک قسم کا ظلم ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : اﷲ سبحانہ و تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور اور ظالمین کے لئے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے ۔
( سورۃ الانسان: ۳۱)