ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

حق مانگنے پر کسانوں کے خلاف پولیس ایکشن
مودی حکومت راہول گاندھی سے خوفزدہ کیوں ؟

رشیدالدین
امبانی ، اڈانی ، بابا رام دیو اور وجئے مالیا پر حکومت کی مہربانی لیکن اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے کسانوں کیلئے پولیس کی گولی۔ یہ تو آج کے ہندوستان کی تصویر ہے جہاں غیر معلنہ طور پر مارشل لاء اور ایمرجنسی نافذ ہے۔ عوام ہو کہ سیاسی جماعتیں انہیں کمزور کرنے اور آواز کچلنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ۔ ہندوستان کی معیشت کو چند صنعت کاروں کے پاس نریندر مودی حکومت نے گروی رکھ دیا ہے۔ چند صنعتی گھرانے ہندوستانی معیشت پر راج کررہے ہیں جبکہ ملک کے پریشان حال غریب عوام اور کسان صنعتی گھرانوں کی لوٹ مار کو حسرت سے تک رہے ہیں۔ مودی کے پسندیدہ صنعتی گھرانے امبانی کیلئے خود وزیراعظم نے برانڈ ایمبسیڈر کا کام کیا جبکہ اڈانی کے ہزاروں کروڑ کے قرضہ کو معاف کردیا گیا۔ بینکوں کو 9 ہزار کروڑ کا چونا لگاکر وجئے مالیا بیرون ملک آرام سے ہے لیکن نریندر مودی کو انہیں واپس لانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انتخابات سے قبل بی جے پی کی تائید کے صلہ میں بابا رام دیو اور ان کے پراڈکٹس کی مکمل سرپرستی کی جارہی ہے ۔ جمہوریت اقدار اور اصولوں کی دہائی دینے والی نریندر مودی حکومت نے اپوزیشن کو ابھرنے سے روکنے کیلئے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ۔ اپوزیشن سے حکومت کا خوف کہیں تین سال کی تکمیل کے بعد حکومت کی الٹی گنتی کا آغاز تو نہیں؟ اقتدار میں آنے کیلئے اچھے دن اور سب کا وکاس جیسے نعرے لگائے گئے لیکن تین برسوں میں ان نعروں کی قلعی کھل چکی ہے۔ اسی لئے کہا جاتاہے کہ عوام کو بار بار دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ ملک کے تمام غریب اور متوسط طبقات نے حکومت سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں ان پر پانی پھر گیا۔ اقتدار کیلئے مودی نے بار بار اپنے چائے والے کے ماضی کو عوام کے درمیان پیش کرتے ہوئے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ عوام نے بھی اس امید کے ساتھ بھروسہ کیا کہ پلیٹ فارم پر چائے فروخت کرنے والا شخص یقیناً زندگیوں میں خوشحالی لائے گا۔ اقتدار پر فائز ہوتے ہی غریبوں کی زندگی میں خوشحالی تو نہیں آئی لیکن لاکھوں روپئے کے سوٹ پہن کر دنیا بھر کی تفریح شروع ہوگئی اور سوٹ بوٹ کی سرکار بن گئی ۔ تین سال میں مایوسی کے بعد آخر کار صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور مختلف ریاستوں میں کسانوں نے بغاوت کردی ہے۔ زرعی شعبہ کو مسلسل تین برسوں سے نظرانداز کئے جانے سے عاجز آکر قرض کے بوجھ کا شکار اور زرعی پیداوار کی قیمت سے محروم کسانوں نے جب بی جے پی زیر اقتدار مدھیہ پردیش میں احتجاج کیا تو پولیس کی گولیوں سے ان کے سینے چھلنی کردیئے گئے ۔ آخر ان غریب کسانوںکا قصور کیا تھا ۔ کیا اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا جرم ہے۔

یہ کسان تھے یا ملک دشمن عناصر ؟ پتہ نہیں مودی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والا ہر شخص سیکوریٹی فورسس اور پولیس کو دہشت گرد اور ملک دشمن کیوں دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستانی معیشت کے استحکام میں کلیدی رول ادا کرنے والے کسانوں کے ساتھ بربریت کا سلوک کیوں ؟ جو کسان لہلہاتی فصلوں کیلئے اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے، مدھیہ پردیش پولیس نے ان کا خون بہایا ہے ۔ کسانوں کی فائرنگ کے واقعہ پر شرمسار ہوکر استعفیٰ دینے کے بجائے شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے الٹا کسانوں پر غیر سماجی عناصر سے ملی بھگت کا الزام عائد کردیا۔ کسانوں کے لواحقین سے ملاقات کیلئے جانے والے راہول گاندھی کو مدھیہ پردیش کی سرحد پر امتناعی احکام کے نام پر گرفتار کرلیا گیا۔ کیا یہی جمہوریت ہے کہ ملک کی اہم اپوزیشن کے قائد کو دورہ کی اجازت نہیں دی جائے۔ راہول گاندھی کوئی غیر ملکی تو نہیں جو ویزا کے بغیر مدھیہ پردیش میں داخل ہورہے تھے۔ کیا بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں اپوزیشن کو داخلہ کیلئے ویزا لینا پڑے گا۔ گزشتہ دنوں اترپردیش کے سہارنپور میں دلتوں کی ہلاکت کے بعد بھی راہول گاندھی کو یوگی حکومت نے سہارنپور میں داخلہ کی اجازت نہیں دی تھی ۔ راہول گاندھی کا تعلق اس خاندان سے ہے جسے ملک پر سب سے زیادہ حکمرانی کا تجربہ ہے، جن کے والد ، دادی اور پردادا ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک بی جے پی اور بالخصوص سنگھ پریوار کے خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں ملک کے سیاسی افق پر راہول گاندھی جس تیزی سے ابھرے ہیں اور اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا ، اس سے سنگھ پریوار کے اوسان خطا ہیں۔ اگر کسی کانگریس زیر اقتدار ریاست یا پھر کیرالا یا مغربی بنگال میں یہ واقعہ پیش آتا تو بی جے پی سیاسی مقصد براری کیلئے آسمان سر پر اٹھالیتی ۔ کسانوں پر ’’پولیس ایکشن‘‘ بی جے پی اور مودی حکومت کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق ابھی تو ناراضگی کی شروعات ہے۔ 6 کسان پولیس فائرنگ میں ہلاک ہوئے لیکن وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو دورہ کی توفیق نہیں ہوئی ۔ انہوں نے خود اپنی ریاست یو پی میں دلتوں سے ملاقات کیلئے سہارنپور کا دورہ نہیں کیا تھا ۔ یہ وہی راج ناتھ سنگھ ہیں جو جموں میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کیلئے بار بارکشمیر کے دورہ کا سرکاری پروگرام بناتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی بھی اس مسئلہ پر خاموش ہیں۔ ہر چھوٹے مسئلہ پر اور بیرونی ممالک میں دہشت گرد حملوں کی مذمت میں ٹوئیٹ کرنے والے مودی کسانوں کی موت پر خاموش ہیں۔ نریندر مودی کو سربراہان مملکت کی سالگرہ کا دن اچھی طرح یاد ہے اور وہ بلا تاخیر مختلف ممالک کے سربراہوں کو مبارکباد کا ٹوئیٹ کرتے ہیں لیکن ٹوئیٹر پر سرگرم مودی نے آج تک کسانوں پر فائرنگ کیلئے دکھ کا اظہار نہیں کیا۔ کیا مدھیہ پردیش کے کسان ہندوستان کے شہری نہیں ہیں؟ کیا ان کے جان کی کوئی قیمت نہیں ہے ؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی اپنا بیرونی دورہ منسوخ کرتے ہوئے کسی اور وزیر کو روانہ کردیتے لیکن انہیں تو قازقستان میں اپنے جگری دوست نواز شریف کو ہائے ہلو کرنا تھا، جہاں نواز شریف ہوں ، مودی کیسے خود کو جانے سے روک سکتے ہیں۔ ہوا بھی کچھ اسی طرح کہ دونوں ممالک میں کشیدگی کے باوجود مودی نے نواز شریف سے ان کی والدہ کی خیر خیریت دریافت کی ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مودی دلتوں اور کسانوں کی خیریت بھی کسی طرح دریافت کرلیتے۔

گزشتہ تین برسوں میں زرعی شعبہ اور کسانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چند صنعتی گھرانوں کے مفادات کی تکمیل کرنے والی مودی حکومت کو یہ حماقت مہنگی پڑے گی۔ اس طرح کی حماقتیں حکومت کو روبہ زوال کر دیتی ہے۔ کسانوں سے جو حکومت بھی الجھ گئی وہ اقتدار میں باقی نہیں رہی۔ آندھراپردیش میں چندرا بابو نائیڈو دور حکومت میں کسانوں پر فائرنگ کی گئی تھی، جس کے بعد حکومت کو زوال آگیا۔ تلنگانہ میں بھی گزشتہ دنوں کسانوں کو ہتھکڑی لگائی گئی۔ مدھیہ پردیش حکومت حالات قابو میں ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کرفیو میں صرف دو گھنٹوں کی نرمی دی گئی اور خواتین و بچوں کو باہر نکلنے کی اجازت دی ۔ یہ کرفیو کسی مارشل لاء نافذ مملکت کا دکھائی دے رہا تھا۔ نریندر مودی نے ملک پر گجرات ماڈل کو عملاً مسلط کردیا ہے۔ وزیراعظم ، بی جے پی صدر اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کے عہدوں پر گجرات سے تعلق رکھنے والے افراد فائز ہیں۔ اس طرح حکومت ، برسر اقتدار پارٹی اور ملک کی معیشت تینوں پر گجرات کا کنٹرول ہے اور سارا ملک ان کی پیروی میں مصروف ہے۔ وہ گجرات جہاں ہزاروں بے قصوروں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا اور آج تک ظالموں کو کوئی سزا نہیں ملی تھی۔ مرکز میں اہم عہدوں پر فائز افراد پر بھی گجرات فسادات کے الزامات ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کے دامن پر گجرات کے مظلوموں کے خون کے دھبے کبھی مٹ نہیں پائیں گے۔ اب جبکہ ملک کے نئے صدر جمہوریہ کا انتخاب قریب ہے کیا بی جے پی ملک کا آئندہ صدر جمہوریہ بھی گجرات سے ہی منتخب کرے گی ؟ کسانوں پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد حکومت نے بعض عہدیداروں کا تبادلہ عمل میں لایا ہے۔ کچھ دن قبل دلتوں کی ہلاکتوں کے سلسلہ میں بھی اترپردیش حکومت نے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی تھی۔ عہدیداروں کی تبدیلی یا ان کی معطلی محض ایک دکھاوا ہے ، اس سے کسانوں اور دلتوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔ عہدیداروں کے تبادلہ کے معاملہ میں حکومتوں کا ریکارڈ جانبدارانہ ہے کیونکہ گجرات اور کشمیر میں کئی واقعات پیش آئے لیکن وہاں عہدیداروں کے تبادلے نہیں کئے گئے۔ چونکہ کسان اور دلت ملک میں سیاسی طور پر توازن قوت رکھتے ہیں، لہذا ہر پارٹی ان کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اترپردیش میں امن و ضبط کی صورتحال ابتر ہوچکی ہے اور خواتین محفوظ نہیں۔ اس کے باوجود یوگی ، بابا رام دیو کے ساتھ یوگا کرنے میں مصروف ہیں۔ اترپردیش میں ایس پی اور بی ایس پی نے اتحاد کا اشارہ دیتے ہوئے بی جے پی کیلئے مسائل پیدا کردی ہے ۔ یوگی نے اپنی سرکاری قیامگاہ پر دعوت افطار نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اچھا ہے کہ یوگی نے خود اپنے سے یہ اعلان کردیا ۔ ویسے بھی حکومتوں کے ایوانوں میں اہل ایمان کی افطار نہیں ہوتی۔ اپوزیشن اور غیر جانبدار صحافت سے بوکھلاہٹ کے نتیجہ میں سی پی ایم قائد سیتارام یچوری پر حملہ اور این ڈی ٹی وی سربراہ پرونئے رائے کی قیامگاہ پر سی بی آئی نے دھاوے کئے۔ این ڈی ٹی وی نے بی جے پی ترجمان کو غلط بیانی پر مباحثہ سے نکال دیا تھا جس کے دو دن بعد سی بی آئی نے دھاوے کئے۔ یہ انتقامی کارروائی نہیں تو اور کیا ہے ۔ حکومت کو دراصل جی حضور میڈیا چاہئے جو صرف اور صرف کارنامے ہی بیان کرے۔ اپوزیشن اور میڈیا پر مودی حکومت کا یہ حملہ دراصل جمہوریت پر حملہ کے مترادف ہے، جس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ منظر بھوپالی نے کہا ہے ؎
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزازِ سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے