طوفانوں سے آنکھ ملاؤ سیلابوں پر وار کرو

 

رشیدالدین
اپنے ہر کام کو ایونٹ کی شکل دینے کے ماہر نریندر مودی نے دیوالی تہوار کو بھی نہیں چھوڑا۔ وزیراعظم نے جموں و کشمیر کے سرحدی علاقہ پہنچ کر فوجی سپاہیوں کے ساتھ دیوالی منائی ۔ مودی گزشتہ چار برسوں سے دیوالی تہوار کسی نہ کسی سرحدی علاقہ میں فوج کے درمیان منا رہے ہیں ۔ ملک کے وزیراعظم کو اختیار ہے کہ وہ جہاں چاہے تہوار منائیں۔ فوج کے ساتھ تہوار منانے پر کسی کو اعتراض نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے لیکن تہوار منانے کے پروگرام کو راز میں رکھ کر اچانک جموں و کشمیر پہنچنے کے فیصلے سے مبصرین حیرت زدہ ہیں ۔ آخر مودی نے خوشی کے اظہار کیلئے جموں و کشمیر کا انتخاب کیوں کیا ؟ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں کس طرح خوشی اور آتشبازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسی ریاست جہاں روزانہ کسی نہ کسی ماں کی گود اجڑ رہی ہے۔ کسی نہ کسی گھر کا چراغ گل ہورہا ہے ، وہاں خوشیوں کے دیپ روشن کرنے کا کیا جواز ہے ؟ اگر کسی پڑوسی کے گھر سانحہ ہوجائے تو ان کے جذبات کے احترام میں دوسرے پڑوسی کھل کر خوشی کا اظہار نہیں کرتے ۔ اس اندیشہ کے ساتھ کہ کہیں متاثرہ اور غم زدہ خاندان کو تکلیف نہ ہو اور انسانیت بھی یہی درس دیتی ہے لیکن ملک کے وزیراعظم کو انسانیت کی پرواہ کہاں۔ مودی آخر کشمیر میں کس کارنامہ کا جشن منانے آئے تھے۔ آخر ایسی کس بات کی خوشی تھی کہ انہوں نے گڑبڑ زدہ ریاست کا دیوالی کے لئے انتخاب کیا۔ کیا ملک کا کوئی اور سرحدی علاقہ نہیں تھا جہاں دیوالی خوشی منائی جاسکتی تھی ۔ مٹھائیاں تقسیم اور خوشی کے دیے روشن کئے جاسکتے تھے ۔ بعض افراد کی نیت خوشی کے ذریعہ دوسروں کو تکلیف دینا اور زخموں پر نمک چھڑکنا ہوتی ہے۔ پتہ نہیں نریندر مودی کس نیت کے ساتھ کشمیر پہنچے لیکن یہ طئے ہے کہ مودی بغیر مقصد کے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ مودی عید کی خوشی منانے کشمیر تو گئے لیکن وہاں کے عوام کیلئے ہمدردی کے دو بول ادا نہیں کئے۔ بولیوں کی ادائیگی میں جن کا شہرہ ہے اور جن کا کوئی ثانی نہیں، ان کی زبان کشمیر کے حالات پر خاموش رہی۔ کیا کشمیر میں امن بحال ہوگیا؟ دہشت گردی اور دراندازی کے واقعات ختم ہوگئے ؟ کیا غیر معلنہ کرفیو اور دن کے اوقات میں پابندیاں ختم ہوچکی ہیں؟ کیا عام زندگی معمول پر آچکی ہے ؟ یہ تمام حالات اپنی جگہ برقرار ہیں ، ساتھ میں گزشتہ 40 دن سے خواتین کی چوٹی کاٹنے کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان واقعات کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین پر بھی فائرنگ کی گئی۔ کیا وزیراعظم ان حالات سے واقف نہیں۔ اگر واقف بھی ہوں تو ہمدردی کیوں کریں گے ۔ ایسا کرنے سے گجرات اور ہماچل پردیش میں بی جے پی کے ووٹ متاثر ہوسکتے ہیں۔

مودی کو کرنا وہی ہوتا ہے جس کی ہدایت ناگپور ہیڈکوارٹر سے ہو۔ کہنا وہی پڑتا ہے جس کا اسکرپٹ ناگپور میں تیار کیا جائے۔ راجناتھ سنگھ کشمیر میں روزانہ 5 تا 8 دراندازوں کی ہلاکت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ پھر صورتحال قابو میں آنے کا نام نہیں لیتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے صرف پاکستان سے متصل سرحد پر اس قدر دراندازی کس طرح ہورہی ہے۔ سیکوریٹی فورسس کے جوانوں کی چوکسی چین اور بنگلہ دیش سرحدوں کی طرح کشمیر میں کیوں نہیں ہے؟ اگر اس قدر دراندازی ہے تو یہ حکومت اور ملٹری انٹلیجنٹس کی ناکامی ہے۔ جو حکومت سرحد کی حفاظت نہ کرسکے ، وہ عوام کا تحفظ کس طرح کرپائے گی ۔ کشمیر میں روزانہ انکاؤنٹر میں کسی نہ کسی کو ہلاک کرتے ہوئے ’’خطرناک دہشت گرد‘‘ کا لیبل لگادیا جاتا ہے اور کسی تنظیم سے تعلق جوڑ کر میڈیا کے ذریعہ تشہیر کی جاتی ہے۔ اگر وہ خطرناک دہشت گرد ہے تو پھر اس کے جرائم کی تفصیلات ابھی تک پوشیدہ کیوں رکھی گئی۔ مرنے کے ساتھ ہی کٹر دہشت گرد قرار دے کر معاملہ کو ختم کردیا جاتا ہے ۔ اس کے جرائم کی تفصیل عوام میں پیش کی جائے کہ وہ کتنے بم دھماکوں اور ہلاکتوں میں ملوث ہے ۔ کب تک میڈیا کے ذریعہ عوام کو بے وقوف بنایا جائے گا ۔ کشمیر کے صحافیوں کے مطابق حکومت حقیقی صورتحال کو ملک کے سامنے آنے سے روک رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن دراندازی اسی علاقہ سے ہورہی ہے۔ اس طرح ہندوستان کہیں اپنے ہی علاقہ کے عوام کو ہلاک تو نہیں کر رہا ہے ؟ کشمیر کے مقامی قائدین کو محروس رکھ کر وادی میں امن کی امید کیسے جاسکتی ہے۔ حکومت بحالیٔ امن کے سلسلہ میں پاکستان سے بات چیت کیلئے تیار ہے لیکن اپنے ہی ملک کے کشمیری قائدین کو اعتماد میں لینے تیار نہیں ۔ وادی کی صورتحال کا اندازہ گورنر اور چیف منسٹر کے بار بار دورہ دہلی اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے ملاقات سے ہوتا ہے ۔ اگر پی ڈی پی کو بی جے پی کی تائید حاصل نہ ہوتی اور بی جے پی اقتدار میں شامل نہ ہوتی تو بہت پہلے ہی صدر راج نافذ کردیا جاتا۔ اس قدر بڑی تعداد میں دہشت گرد ہلاک ہورہے ہیں تو پھر حالات سدھرتے کیوں نہیں ؟ قومی انسانی حقوق کمیشن کا دائرہ کار کشمیر تک ہے یا نہیں ، یہ بحث کا موضوع ہے ، تاہم اگر حقیقی صورتحال کا پتہ چلانا ہو تو کسی غیر جانبدار ٹیم کو کشمیر روانہ کیا جائے۔ اگر انسانی حقوق کمیشن متحرک ہوتا تو اسے کسی معاملہ کی جانچ کیلئے شکایت یا ہدایت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

عام طور پر عید و تہوار کوئی بھی شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ منانے کو ترجیح دیتا ہے۔ نریندر مودی کو دیوالی کی خوشیوں میں شریک حیات تو چھوڑیئے اپنی ضعیف ماں کی یاد تک نہیں آئی جو ہمیشہ اپنے بیٹے کیلئے دعائیں دیتی ہیں۔ مودی تو ماں اور بیوی کو بھول کر فوج کو اپنا پریوار کہہ رہے ہیں۔ اس سے ماں اور بیوی کے دل پر کیا بیتی ہوگی ، اس کا احساس تک انہیں نہیں رہا۔ خوشی کے موقع پر تو دشمنوں کو گلے لگایا جاتا ہے لیکن مودی اپنی در در بھٹکتی انصاف کی منتظر شریک حیات کے بارے میں تک نہیں سوچا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مودی اپنی اہلیہ کو قبول کرتے اور ماں کے ساتھ دیوالی مناتے۔ یوں بھی کہاوت مشہور ہے کہ پہلے دیا گھر میں جلائیں لیکن یہاں گھر میں تاریکی رکھ کر مودی شمع لئے دنیا روشن کرنے چل پڑے۔ ماں بہنوں کو حق دلانے اور بیٹی بچاؤ جیسے نعرے لگاتے وقت مودی کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ خود ملک کی کسی بیٹی کو انصاف سے محروم کئے ہوئے ہیں۔ اگر دیوالی کی خوشیاں بانٹنی ہی تھی تو مودی سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے جان کی قربانی دینے والi جوانوں کے بچوں کو اپنی سرکاری قیامگاہ طلب کرتے اور خوشی میں شامل کرتے ۔ انہیں کشمیر کی ان ماؤں کے درمیان تہوار کی خوشیاں منانی چاہئے تھی ، جن کی گود سیکوریٹی فورسس کی کارروائیوں میں اُجڑ گئی ۔ اُن بچوں کے ساتھ خوشیاں بانٹنی چاہئے تھی جن کی بینائی پیلیٹ گنس کی فائرنگ سے چلی گئی۔ کشمیر میں بیٹھ کر مودی کو اپنی ریاست گجرات اور حلقہ انتخاب واراناسی کے عوام کی یاد آئی لیکن اپنی ناک کے نیچے پریشان حال کشمیریوں کا خیال نہیں آیا۔ الیکشن کمیشن نے گجرات میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان شائد اسی لئے نہیں کیا تاکہ مودی کو کشمیر سے گجراتی عوام کیلئے چند بولیوں کا موقع فراہم ہو۔ دیوالی منانے کیلئے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کا انتخاب آر ایس ایس ذہنیت کو اجاگر کرتا ہے۔ کشمیر کے بارے میں حکومت زخموں پر مرہم رکھنے کی پالیسی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن وزیراعظم کا دورہ زخموں کو کُریدنے اور نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

سپریم کورٹ میں جاری ایودھیا تنازعہ اور ایودھیا میں رام کے مجسمہ کی تعمیر پر سنگھ پریوار مسلمانوں میں پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ آزادی کے بعد جب بابری مسجد میں مورتیاں بٹھائی گئیں ، اس وقت سے سنی وقف بورڈ قانونی لڑائی لڑ رہا ہے۔ اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کے چیف منسٹر بنتے ہی مسلمانوں میں پھوٹ پیدا کرنے کیلئے بعض نام نہاد افراد کو میدان میں اتارا گیا۔ شیعہ وقف بورڈ کے وسیم رضوی نے سپریم کورٹ میں حلفنامہ داخل کرتے ہوئے مندر کیلئے اراضی حوالے کرنے کا پیشکش کیا ۔ انہوں نے مجسمہ کی تعمیرکو مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت قرار دیا اور چاندی کے 10 تیر بطور تحفہ دینے کا اعلان کیا ۔ وسیم رضوی ان اعلانات کے ذریعہ آخر اپنی کمیونٹی کو کیا پیام دے رہے ہیں۔ مسلمان ہندوستان میں اپنی حفاظت اور تحفظ کیلئے کسی کے محتاج نہیں لیکن اس طرح کے سرکاری مسلمان ادتیہ ناتھ کی پاپوش برداری میں مصروف ہیں۔ دراصل ادتیہ ناتھ نے شیعہ وقف بورڈ کی دھاندلیوں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا اور وسیم رضوی تحقیقات سے بچنا چاہتے ہیں۔ خود کو شیعہ برادری سے جوڑنے والے وسیم رضوی اپنی اسلاف کی تعلیمات کو فراموش کرچکے ہیں۔ حضرت علیؓ اور شہید کربلا امام حسینؓ کے ماننے والے ہرگز اس طرح کی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوسکتے۔ کیا وہ حضرت علیؓ کے اس قول کو بھلاچکے ہیں کہ ’’حق و باطل میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا‘‘۔ معرکہ کربلا کو کیا فراموش کردیا گیا جو حق اور باطل کے درمیان برپا ہوا تھا۔ نواسہ رسول نے باطل کے آگے سر نہیں جھکایا اور حق سر بلند رکھنے کیلئے اپنے خانوادہ کے ساتھ قربانی پیش کردی۔ مجسمہ کیلئے چاندی کے تیر حوالے کرنے والے شاید یہ بھول گئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت علیؓ نے کعبتہ اللہ سے 360 بتوں کو باہر پھینک دیا تھا لیکن ان کی محبت کا دعویٰ کرنے والے ان گمراہ عناصر کو سبق سکھانا اور راہِ راست پر لانا شیعہ قوم کی ذمہ داری ہے۔ انہیں بے لگام چھوڑنے سے کمیونٹی کی بدنامی ہورہی ہے۔ ایسے افراد کی شیعہ قوم اور اہل بیت سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی اور ان کے یہ دعوے کھوکھلے ہیں۔ اہل بیت سے محبت کا دعویٰ کرنے والا کوئی بھی شخص باطل طاقتوں کا ہرگز ساتھ نہیں دے سکتا۔ وسیم رضوی اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان طاقتوں کا جواب دیں۔ موجودہ حالات پر راحت اندوری نے کچھ یوں مشورہ دیا ہے ؎
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو