طوطے کی آزادی…

کہتے ہیں ایک سوداگر کے پاس ایک باتیں کرنے والا طوطا تھا۔ سب گھر والے اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ سوداگر کسی دوسرے ملک جانے لگا اس نے گھر والوں سے پوچھا کہ وہ ان کیلئے کیا تحفہ لائے ہر ایک نے اپنی اپنی پسند بیان کی۔ سوداگر نے یہ بات طوطے سے بھی پوچھی تو وہ بولا کہ جب جنگل سے گزروگے تو وہاں طوطوں کو میری طرف سے کہنا کہ تم سب آزاد ہو اور میں یہاں قید میں ہوں۔ سوداگر نے طوطے سے وعدہ کیا کہ وہ یہ پیغام ان تک پہنچا دے گا۔ سوداگر سفر پر روانہ ہوگیا۔ سوداگر جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک طوطوں کے غول پر پڑی۔

اس نے گھوڑا روک کر طوطے کا پیغام ان کو بتایا۔ پیغام سنتے ہی ایک طوطا تھرتھر کانپنے لگا اور بے جان ہوکر زمین پر گر کے مر گیا۔ سوداگر کو طوطے کی موت کا بہت افسوس ہوا اس نے سوچا کہ یہ طوطا شاید میرے طوطے کا رشتے دار ہوگا جو اس کا حال سن کر برداشت نہ کرسکا۔ جب سوداگر وطن واپس پہنچا اور تمام گھر والوں کو ان کے تحفے دیئے تو طوطے نے پوچھا آپ نے میری فرمائش پوری کی ہے۔ سوداگر نے سانس بھرا اور سارا واقعہ طوطے کو سنایا۔ طوطے نے بات سنی اور کانپنے لگا اور گر کر بے جان ہوکر پنجرے میں ایک طرف گر گیا۔ سوداگر نے پنجرہ کھولا اور طوطے کو اٹھا کر باہر پھینکا تو طوطا پھڑ پھڑا کر درخت پر جا بیٹھا ۔ پھر سوداگر سے کہنے لگا میرے ساتھی نے مجھے آزاد ہونے کا طریقہ بتایا تھا یہ کہہ کر طوطا خوش خوش اپنے وطن کی طرف اڑ گیا۔