محمد ریاض احمد
مجھے قرآن پر فخر ہے
پارلیمنٹ میں رنجیتا رنجن کی گھن گرج
پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے رنجیتا رنجن نے جو پپو یادو کی اہلیہ ہیں، بی جے پی قائدین کو آڑے ہاتھوں لیا اور انھیں شرم دلائی کہ ہندو خواتین پر ظلم ہوتا ہے، ان کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں، اس پر حکومت خاموش رہتی ہے لیکن خراب ارادہ و نیت کے ذریعہ حکومت مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پر سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اُنھوں نے قرآن مجید کے بارے میں کیا کہا اس بارے میں ان کا بیان من و عن شائع کیا جارہا ہے۔
ہم لوگ چرچا کررہے ہیں خواتین کو شادی میں تحفظ فراہم کرنے کے بل پر، میناکشی لیکھی جی نے بولا، سمرتی ایرانی جی نے بولا، سپریہ جی نے بولا، سشمیتا نے بولا میں خواتین کے نام اس لئے لے رہی ہوں کیونکہ یہ ہمارے سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ شادی سے جڑا ہوا معاملہ ہے اور اس میں شوہر بھی INVOLVE ہے۔ صرف بیویوں کا معاملہ نہیں ہے یہ پورے خاندان کا معاملہ ہے۔ میں نے فریقین کی تقاریر سنی۔ ابھی سپریہ جی نے بتایا کہ انہوں نے کچھ خواتین سے بات کی۔ میری بھی بچپن کی دوست 22 سال بعد ملی وہ مسلمان ہے، پڑھی لکھی ہے، ان کا سارا خاندان بھی مسلمان ہے (جس پر بی جے پی ارکان ہنسنے لگے) ان کی ہنسی پر رنجیتا رنجن نے کہا ’’بولنا پڑتا ہے بولنا پڑتا ہے بولنا پڑتا ہے جب آپ جیسے لوگ حکومت کررہے ہوں۔ پہلی بار میں اس کا شکریہ ادا کروں گی۔ آپ کا شکریہ ادا کروں گی کہ اس بل کو لانے کی وجہ سے ہم نے بھی ’’دل سے قرآن کو پڑھا‘‘۔ اس میں جو سورہ نساء ہے جس میں طلاق سے پہلے 5 مرحلہ ہے اسے پڑھا، سورہ بقرہ ہے جس میں 228 سے 240 صفحہ تک طلاق کس طریقہ سے، کیوں دیا جائے، وجہ کیا ہو، بیوی کی بھی وجہ کیا ہو، شوہر کی بھی وجہ کیا ہو اسے پورا تفصیل سے دیا گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ آج بل پر جو بحث ہوئی۔اس قانون کو لانے کی جو ضرورت پڑی نقوی صاحب کہہ رہے تھے میں کہوں گی افسوس ہے کہ آپ کی کمیونٹی کے اندر قرآن میں طلاق کیلئے اتنے اڈوانسڈ رول بنائے گئے ہیں مجھے فخر ہے قرآن پر، لیکن آپ نے اپنی ہی کمیونٹی میں شعور بیدار نہیں کیا۔ خواتین کو بھی اتنا ہی حق ہے طلاق دینے کا اور کس طرح سے دونوں کے تعلقات کو بنائے رکھنا ہے۔ کس طرح دونوں خاندانوں کو Involve کرنا ہے کس طرح سے پہلے 5 مرحلوں میں انھیں روکنے کی کوشش کرنی ہے۔ تین طلاق میں بھی 90 دن کا وقت دونوں کو ساتھ گزارنا ہے اس کے درمیان میں ماہواری اگر رُکتی ہے تعلقات بنتا ہے تو وہ سارا Process دوبارہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے مضبوط طلاق کا کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا۔ ایک بات تو یہ ہے کہ کمیونٹی میں شعور بیدار نہیں کیا گیا اور جس طرح طلاق کی چرچا کرکے سیاست ہورہی ہے میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ 477 ، 477 ، اس دیش میں جہیز کی وجہ ، عصمت ریزی سے کتنی ہندو خواتین بھی مرتی ہیں، طلاق ہوتا ہے، طلاق کے بغیر شوہر دوسری بھی رکھ لیتا ہے اس پر بھی آپ ایوان میں بحث کیوں نہیں کرتے۔ صرف مسلمان، مسلمان کیوں کرتے ہو یہ خواتین سے جڑا معاملہ ہے ان کے خاندان سے جڑا معاملہ ہے۔ آپ میاں بیوی کے معاملہ کو عدالت میں کیوں لے جاتے ہوئے آپ صرف مسلمان کے لئے قانون بنائیں گے۔ ہندوؤں کیلئے قانون نہیں بنائیں گے۔ ہجومی تشدد کے بعد کتنے لوگوں کی موت ہوئی دھرم کے نام پر کتنی اموات ہوئیں اسے بھی اس ایوان میں لایئے بحث کیجئے۔ بہرحال رنجیتا رنجن اور سپریہ سولے جیسی خواتین سے بدرالدین اجمل جیسے سیاستدانوں کو سیکھنا چاہئے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس اور بحث میں حصہ لینے کیلئے اچھی طرح تیاری کرکے جائیں۔
پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ کو تعزیری قرار دینے والا بل بالآخر منظور کرلیا گیا۔ اگرچہ مودی حکومت کے اس اقدام کے بارے میں عوامی اور سیاسی سطح پر یہی کہا جارہا ہیکہ دراصل یہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ مودی حکومت ہندوؤں کو مسلمانوں سے ڈرا کر یا پھر مسلمانوں کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے اقتدار پر برقرار رہنے کی خواہاں ہے۔ ایوان میں جب بل پیش کیاگیا تب کئی اپوزیشن ارکان نے بلا لحاظ سیاسی وابستگی غیر معمولی خیالات کا اظہار کیا جس سے ہندوستان کے سیکولر مزاج کا اظہار ہورہا تھا۔ بہار کے حلقہ لوک سبھا سوپال کی نمائندگی کرنے والی رکن پارلیمنٹ رنجیتا رنجن نے اپنے مدلل خطاب کے ذریعہ حکمراں جماعت کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو دم بخود کردیا۔ اسی طرح انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے دل بھی جیت لئے۔ لوک سبھا میں چار ارکان مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی، کانگریس کی رنجیتا رنجن، سی پی ایم کے محمد سلیم اور کانگریس کے ہی ملکارجن کھرگے نے اپنی دھواں دار تقاریر کے ذریعہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو شرمندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بی جے پی کی میناکشی لیکھی نے جو ایک قانون داں بھی ہیں خود کو دانشور اور اسکالر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے قرآن مجید کی سورتوں کا حوالہ دیا لیکن جس انداز میں رنجیتا رنجن نے خیالات کا اظہار کیا ان کے سامنے سب پھیکے پڑ گئے۔ ایک مرحلہ پر رنجیتا رنجن نے یہ کہہ کر عظمت قرآن کا دل سے اعتراف کیا کہ قرآن مجید کی سورتوں سورہ نساء اور سورہ بقرہ میں طلاق اور اس کے مراحل سے متعلق غیر معمولی انداز میں معلومات فراہم کی گئی ہیں اور رہنمائی کی گئی ہیں۔ انہوں نے سورتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’مجھے قرآن مجید پر فخر ہے‘‘ ایک ہندو رکن پارلیمنٹ کی زبان سے اس طرح کے الفاظ کی ادائیگی پر جہاں بی جے پی ارکان ناراض ہوئے وہیں اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریسی ارکان نے میزیں تھپ تھپاکر انہیں شاباشی دی۔ رنجیتا رنجن نے مختار عباس نقوی کو بطور خاص مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ کے مذہب میں اور قرآن میں طلاق کے مسائل اڈوانسڈ انداز میں موجود ہیں لیکن افسوس کے آپ لوگوں نے اپنی کمیونٹی میں قرآن کے تعلق سے کوئی شعور بیدار نہیں کیا۔ حکومت کی اس دلیل پر جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے طلاق ثلاثہ کو کالعدم کردیا گیا تھا اس کے باوجود طلاق ثلاثہ کے 477 واقعات منظر عام پر آئے۔ رنجیتا رنجن کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ سپریم کورٹ احکام کے بعد بھی طلاق ثلاثہ کے واقعات پیش آتے ہیں تو پھر جہیز کے خلاف قانون کے بعد بھی جہیز ہراسانی کے نتیجہ میں ہزاروں خواتین کو زندہ جلایا جارہا ہے۔ انہیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سخت قوانین مدون کرنے کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ہندو مرد اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیئے بناء دوسری عورتوں کے ساتھ اپنی زندگی گذاررہے ہیں کیا یہ قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا ہمیں ان تمام مسائل پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ طلاق ثلاثہ پر بحث کی جارہی ہے؟ رنجیتا رنجن نے اپنے پراثر خطاب کے ذریعہ سارے ہندوستان کو یہ پیام دیا ہے کہ مودی حکومت جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف تعصب و جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں مختلف بہانوں سے نشانہ بنا رہی ہے۔ اگر کوئی مسلمان طلاق غلط انداز میں دیتا ہے تو پھر ساری مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا کیا مطلب ہے؟ جبکہ ہمارے ملک میں ہجومی تشدد میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اس کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔ ایوان میں بحث و مباحث نہیں ہوئے۔ مظفر پور بہار میں 37 لڑکیوں کے ساتھ منہ کالا کیا گیا اور سب کچھ آپ کی حکومت میں ہوا۔ پھر آپ نے ان سنگین قسم کے مسائل پر بحث کیوںنہیں کی؟ کیا اس لئے کہ متاثرہ ہندو لڑکیاں تھیں؟ رنجیتا رنجن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طلاق ثلاثہ بل کے ذریعہ حکومت مسلم خواتین کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن آپ کو اس واہمہ میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے کہ مسلم خواتین بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔ مسلمان ہرگز بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ واضح رہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بھی غیر معمولی خطاب میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہندوستان کے دستور کا مطالعہ کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے پہلے ہی حصے میں یہ واضح طور پر کہہ دیا گیا کہ تمام ہندوستانیوں کو چاہے ان کا کسی مذہب یا ذات پات سے تعلق کیوں نہ ہو اظہار خیال کی آزادی، مذہبی آزادی، اپنے مذہب کی تبلیغ کی آزادی، عقیدہ کی آزادی حاصل رہے گی لیکن حکومت مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے دستور میں دی گئی ان آزادیوں کو دبانا چاہتی ہے۔ اسد الدین اویسی نے طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دینے والے بل کو دستور کی دفعات 14، 15، 26 اور 29 کی سراسر خلاف ورزی قرار دیا۔ سی پی ایم کے محمد سلیم نے مودی حکومت کو احساس دلایا کہ وہ جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دینے والا بل تو متعارف کراتی ہے لیکن فرقہ وارانہ فسادات پر خاموشی اختیار کرلیتی ہے حالانکہ فرقہ وارانہ فسادات سے سب سے زیادہ مسلم خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ فسادات میں ان خواتین کے باپ، بھائی، شوہر بیٹے شہید ہوتے ہیں اور جھوٹے الزامات میں ان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آتی ہیں۔ اگر نریندر مودی حکومت کو مسلم خواتین سے اتنی ہی ہمدردی ہے اور وہ مسلم خواتین کی اتنی ہی فکر کرتی ہے تو اسے چاہئے کہ مسلم خواتین کو بااختیار بنائیں، فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث مجرمین کو کڑی سے کڑی سزا دیں۔ ملازمتوں میں مسلم خواتین کی شرح میں اضافہ کرے اور مسلم خواتین کو معاشی طور پر مستحکم بنائیں۔ بہرحال حکومت کے نمائندوں بالخصوص وزیر قانون روی شنکر پرساد، میناکشی لیکھی وغیرہ کے بیانات سے عدم مطمئن اپوزیشن نے پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کردیا جس کے بعد ندائی ووٹ کے ذریعہ یہ بل منظور کرلیا گیا۔ بل کے حق میں 245 اور مخالفت میں 11 ووٹ آئے۔ آپ کو بتادیں کہ اس بل کی منظوری کے بعد ایک ہی نشست میں تین طلاق دینے والے شوہر کو 3 سال کی جیل ہوسکتی ہے۔ آسام سے تعلق رکھنے والے بدرالدین اجمل بھی جو اپنے نام کے ساتھ مولانا ضرور رلکھتے ہیں خطاب تو کیا لیکن ایک مرحلہ پر میناکشی لیکھی نے انہیں یہ سوال کرتے ہوئے شرمندہ کردیا کہ آپ قرآن مجید میں طلاق بدعت سے متعلق کوئی آیات پیش کردیں جس پر بدرالدین اجمل نے کہا کہ وہ تیاری کرکے نہیں آئے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com