طب ِجدید کے مستند عالم ڈاکٹر محمد اعظم

ڈاکٹر محمد عبدالقدیر
شہر حیدرآباد کے بہت معروب طبیب طبی خدمات کیلئے اپنے آپ کو وصف کرنے والی ہستی تادم حیات خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار رہنے والے ہر دلعزیز بزرگ اور ہر طبقہ انسانی کیلئے قابل قبول جناب محمد اعظم مرحوم اس دنیائے فانی سے 11 ڈسمبر 2015ء کو رات 10:30 بجے رحلت فرماچکے ۔ وہ محتاج تعارف نہیں ۔ شہر حیدرآباد کا ہر خاص و عام آپ کے نام سے واقف اور خدمات کا معترف ہے ۔ اپنی پوری زندگی انہوں نے خدمت خلق کے جذبہ کے ساتھ مریضوں کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کردی تھی ۔ دنیا آج اس عظیم شخصیت سے اپنے آپ کو محروم محسوس کرتی ہے بالخصوص شہر حیدرآباد آپ کی کمی ہمیشہ محسوس کرے گا ۔
ڈاکٹر محمد اعظم نے اپنی زندگی بہت ہی سادگی سے گذاری اور تادم آخر آپ کا معمول سادگی پسندی ، قناعت پسندی ، وقت کی پابندی ، اصول پسندی ، ایمانداری ، احسان مندی اور اپنے رب کے فیصلے سے ہمیشہ راضی رہنا رہا ہے ۔ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کے متعلق وہ فرماتے تھے کہ وہ ایک اوسط گھرانے کے فرد تھے جن پر پڑھائی کے علاوہ گھر کی ذمہ داری بھی تھی اور کم خرچ پر گذارا آپ کا معمول تھا ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم میدک کے چھوٹے سے قصبے میں ہوئی جہاں آپ پیدا ہوئے تھے اور آپ کے والد ایک تاجر تھے ۔ پھر آپ اعلی تعلیم کیلئے شہر حیدرآباد منتقل ہوئے اور دارالعلوم میں تعلیم کو مکمل کرنے والے آپ میں مولانا عاقل حسامی جیسے اکابر تھے ۔ آپ اکثر کہتے تھے کہ نے اپنی تعلیم مسجد کے صحن میں کی تاکہ ذہن خدا کی طرف رہے اور تعلیم پر توجہ رہے اس کے علاوہ گھر میں جگہ بھی ناکافی تھی ۔
آپ گاندھی میڈیکل کالج ، عثمانیہ میڈیکل کالج و ہاسپٹل ، کاکتیہ میڈیکل کالج و ہاسپٹل، اویسی ہاسپٹل میں بحیثیت پروفیسر ماہر جنرل فیزیشین کی حیثیت سے اپنی خدمات بحسن و خوبی انجام دیں ۔ آپ شروع سے ہی ہونہار ، ذہین اور اچھے اخلاق و کردار کے حامل مثبت سوچ رکھنے والے شخص تھے ۔ طب کے علاوہ دیگر امور سے بھی آپ کی دلچسپی خاصی تھی ۔ ملک کی سیاست ہو یا معیشت ، دینی درسگاہیں ہوں یا جامعہ بدلتے ہوئے حالات ہو یا خطرات سبھی سے آپ دلچسپی رکھتے اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے تھے ۔
انھوں نے اپنے پیچھے اہل خانہ کے علاوہ بہت سے طب کے ماہروں کو تیار کیا جو آج اپنی خدمات شہر و بیرون ملک انجام دے رہے ہیں ۔ شہر آپ کے شاگردوں سے بھرا ہوا ہے ، ہر کارپوریٹ اور خانگی دواخانہ میں ماہر اطبا آپ کے شاگرد رہ چکے ہیں ۔ آپ کے اساتذہ میں اپنے وقت کے مشہور اطبا ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی ، ڈاکٹر حیدر خان اور دیگر شامل ہیں ۔ آپ کے ساتھیوں میں ڈاکٹر منان ، ڈاکٹر مجید خان ، ڈاکٹر قدوس ، ڈاکٹر سابو ، ڈاکٹر رام پرساد ، ڈاکٹر واگھرے وغیرہ ہیں ۔ شاگردوں کی کوئی گنتی نہیں ۔ ڈاکٹر وی این کمار چیف کنسلٹنٹ کیر ہاسپٹل نامپلی، ڈاکٹر ناگیشور راڈی چیف کنسلٹنٹ سائی کرشنا نیواوسٹر ، ڈاکٹر پدما کمار چیف کارڈیالوجسٹ میڈیسٹی ہاسپٹل ، ڈاکٹر کے جی مورتی وغیرہ ۔ ڈاکٹر مکیش راج ، ڈاکٹر عطااللہ آپ کے خاص شاگرد ہوا کرتے تھے ۔

ڈاکٹر محمد اعظم کا گھرانا بھی محتاج تعارف نہیں ۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر انورالنساء مرحومہ اپنے زمانے کی مشہور گائناکولوجسٹ گذری ہیں ۔ آپ کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں جن میں تقریباً سبھی ڈاکٹر ہیں اور انکی دوسری نسل میں بھی بہت ڈاکٹرس ہیں ۔ آپ کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر محمد یوسف اعظم  تجربہ کار سرجن ہیں جو اعظم ہاسپٹل کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں اور تعلیمی خدمات کیلئے اذان انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد 10 سال قبل شہر حیدرآباد میں قائم کرچکے ہیں ۔ آپ کے چھوٹے صاحبزادے واصف اعظم شہر کے مشہور کارڈیالوجسٹ ہیں جو اپنی خدمات گھر کے علاوہ اولیو ہاسپٹل میں بحیثیت چیف کے انجام دے رہے ہیں ۔ آپ کی بڑی صاحبزادی بھی کارڈیالوجسٹ ہیں جو عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہیں اور طبی خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ ان کے خاوند بھی کارڈیالوجسٹ ہیں ۔ دیگر تین دختران اور ان کے داماد بھی ڈاکٹرس ہیں ۔
ڈاکٹر اعظم صاحب نے پرانے شہر کے قلب حسینی علم میں کلینک کی ابتداء آج سے 55 سال قبل کی تھی ۔ جو بتدریج بڑھ کر 35 سال قبل ایک ہمہ وقتی ہاسپٹل بن چکا ہے ۔ جسے لوگ اعظم ہاسپٹل حسینی علم کے نام سے جانتے ہیں اور سینکڑوں مریض روزانہ اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔ آپ نے زندگی کے آخری ایام تک دواخانہ میں مریضوں کی خدمات انجام دیں ، جس میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے ۔ آپ کا انداز بالکل منفرد تھا ، مریض کیلئے وقت دیتے ان کی بات بغور سنتے مکمل معائنے کرتے اور ضرورت کے مطابق ایک جامع نسخہ انکے لئے تجویز کرتے ، حسن سلوک سے پیش آتے اور اس کے ساتھ لوگوں کی معاشی مجبوریوں کا خیال رکھتے۔

طبی مصروفیات کے علاوہ آپ کو حصول علم دین کا بھی بہت شوق تھا ۔ حضرت عبداللہ شاہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کرچکے تھے ۔ دینی علوم کے علاوہ ادب ، کھیل کود ، سماجی کام ، تعلیمی اور فلاحی اداروں کے پروگراموں میں شریک ہوتے ۔  ڈاکٹر محمد اعظم صاحب معلومات کا خزانہ تھے ۔ ہر فیلڈ کی بنیادی معلومات آپ کے پاس تھی ۔ وہ روزانہ اردو اور انگریزی اخباروں کا مطالعہ کرتے ۔ آپ کے یہاں اکثر آنے والوں میں جلیل احمد ، آصف پاشا ، چنا پٹیل ، درگا چلم ، جیلانی صاحب ، حامد محمد خان وغیرہ ہوتے ۔ آپ کے ساتھ جو کام کرتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا اور ہمیشہ ان کے ساتھ رہنے کو پسند کرتا ۔ اندرراج بچپن ہی سے ڈاکٹر صاحب سے وابستہ ہوگئے تو آج تک ان سے وابستہ ہے ، ہاجرہ سسٹر ، غفار خان اور دیگر دواخانہ کا اسٹاف آپ سے بہت عرصہ سے محبت کے ساتھ وابستہ تھے ۔ میں بھی زائد از بارہ سال سے ڈاکٹر صاحب کے اسسٹنٹ فزیشن کی حیثیت سے رہا ہوں اور بہت کچھ آپ سے سیکھنے کا موقع ملا ۔ ڈاکٹر اعظم صاحب سابق میں میسکو نامی تعلیمی اور سماجی ادارے میں بحیثیت صدر فرائض انجام دئے اسکے علاوہ مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے نائب صدر رہے اور قلی قطب شاہ اسٹیڈیم سوسائٹی کے عرصہ دراز سے ممبر رہے ۔
آپ نے اپنی زندگی کا بہت قیمتی اعظم ہاسپٹل میں گزارا یہاں کا ہر فرد آپ کو قریب سے پہچانتا ہے ۔ کم درجہ ملازم سے لیکر کنسلٹنٹ ڈاکٹر حضرات سبھی سے ملاقات کرتے۔ مریضوں کے علاوہ میڈیکل ریپریزنٹیو (ایم آر)سے ڈاکٹر صاحب مکمل توجہ کے ساتھ ملتے اور ان سے ادویات سے متعلق تبادلہ خیال کرتے ۔ بہت لوگوں کی ترقی میں ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ رہا ۔ بزرگوں اور غریبوں کا خصوصی خیال رکھتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب انتقال سے دو ہفتہ قبل دواخانہ تشریف لارہے تھے ، اپنی بیماری کے ایام میں بھی اپنے مریضوں کی خیر خیریت ہم سے لیاکرتے تھے ۔ آپ کا وصال مختصر مدتی علالت کے نتیجہ میں ہوا ۔ تادم آخر آپ اہل و عیال کو نصیحت کرتے رہے ، اور اللہ سے مغفرت کی دعا کرتے رہے ۔ جب انتقال کی خبر ملی تو دل بہت مغموم ہوگیا اور اشک رواں ہوئے ۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کی خبر سے گھر والوں پر پہاڑ سا ٹوٹ پڑا ۔ جس نے بھی انتقال کی خبر سنی اشکبار ہوگیا ۔حضرت کاظم پاشاہ قبلہ بزرگ و مرشد اعلی احاطہ موسی قادری نے ڈاکٹر اعظم صاحب کے انتقال پر کہا کہ طب کے امام کا انتقال ہوگیا ۔ کسی نے کہا شہر قابل ترین سینئر ڈاکٹر سے محروم ہوگیا اور کسی نے کہا ڈاکٹر اعظم صاحب کا انتقال ناقابل تلافی واقعہ ہے ۔ دوسرے دن صبح 9 بجے ڈاکٹر صاحب کی نماز جنازہ مسجد ٹین پوش ریڈ ہلز میں انجام دی گئی اور تدفین احاطہ قبرستان عبداللہ شاہ صاحب اپنی اہلیہ کے پہلو میں کی گئی ۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد بھی بہت سے مریض جنہیں معلوم نہ تھا ڈاکٹر صاحب کے منتظر تھے ، جب انہیں انتقال کی اطلاع ملی تو بہت روئے اور اپنے آپ کو ڈاکٹر صاحب کی بہترین خدمت سے محروم سمجھنے لگے ۔ اب بھی انکے چاہنے والے اور دیر سے موصول اطلاع پر لوگ فون یا براہ راست گھر اور دواخانہ پہنچ کر پرسہ دے رہے ہیں۔
مختصر ڈاکٹر اعظم صاحب مرحوم اصول پسند ، سادگی پسند  ،مددگار ، ہمدرد ، دیانتدار ، حسن سلوک سے پیش آنے والے بزرگ ڈاکٹر تھے ۔ ان کی غیر موجودگی ہم سب کے لئے بڑی محرومی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر محمد اعظم صاحب کو جنت کے اعلی درجات نصیب فرمائیں ۔ انکے لواحقین اور چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین