طبی سہولت کی فراہمی اور حکومت کی ذمہ داری

کے این واصف
ایک طویل جدوجہد کے بعد علاقہ تلنگانہ کے رہنے والوں کو علحدہ ریاست حاصل ہوئی ۔ اور تلنگانہ راشٹریہ سمیتی ( ٹی آر ایس ) کے صدر کے چندر شیکھرراؤ نے 2 جون کو ہندوستان کی 29 ویں ریاست کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھال لیا ۔ جملہ دس اضلاع پر مشتمل یہ ریاست کا بیشتر حصہ اور خصوصاً گریٹر حیدرآباد تو نئی حکومت کو بنا بنایا ملا ۔ جسے انہیں بہتر طریقہ سے سنبھالے رکھنا اور حسب ضرورت ترقی دینا ہے ۔ ویسے ریاست تلنگانہ کے پہلے وزیراعلی کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد پریڈ گراؤنڈ سکندرآباد پر اپنے خطاب میں چندرشیکھرراؤ نے اونچے عزائم کا اظہار تو کیا ہے۔ انہوں نے بحیثیت چیف منسٹر اپنے پہلے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا وہ سرکاری ملازمین اور وظیفہ یابوں کو مرکزی حکومت کے اسٹاف کے مماثل تنخواہیں اور وظائف دیئے جائیں گے ۔ یوم تاسیس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چندرشیکھر راؤ نے مزید کہا کہ ٹی آر ایس حکومت ریاست تلنگانہ سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی ۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ ہم نے اپنے انتخابی منشور میں جو وعدے کئے ہیں وہ بعجلت ممکنہ پورا کریں گے ۔

تلنگانہ ملازمین سرکاری ملازمین کو خوش خبری سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملازمین کو ایک اضافی انکریمنٹ دیا جائے گا ۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ تمام سرکاری ملازمین کو ہیلتھ کارڈز جاری کئے جائیں گے ۔ آئندہ 5 برسوں میں اقلیتوں ، دلتوں ، قبائیلوں اور پسماندہ طبقات کی بہبود کیلئے ایک لاکھ کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر غریب خاندان کو 125 گز پر مشتمل 2 کمروں والا مکان تعمیر کر کے دیا جائے گا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس کسان پر حکومت کا ایک لاکھ روپئیہ کا قرض باقی ہے اس کا قرض معاف کردیا جائے گا ۔ بجلی کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئندہ 3 برسوں میں ریاست کو فاضل بجلی پیداوار والی ریاست بنایا جائے گا ۔ وہیں حیدرآباد کو گوبل سٹی کی طرز پر برقی دی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ ایڈوائزری کونسل ترتیب دی جائے گی جس میں مختلف شعبہ جات سے وابستہ اہم شخصیات کو شامل کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی عظیم الشان ترقی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت بہت جلد نئی صنعتی پالیسی قائم کرے گی تاکہ سرمایہ کاروں کو تلنگانہ میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کیا جاسکے اور ملازمتوں کے بھی بڑے پیمانے پر مواقع حاصل ہوسکیں وغیرہ ۔

ہندوستان کی مجموعی آبادی کی طرح ریاست تلنگانہ کی آبادی میں بھی غریب اور متوسط طبقہ کے افراد کی ہی اکثریت ہے ۔ جنکے پاس ہمیشہ وسائل سے زیادہ مسائل ہوتے ہیں ۔ جس میں بیماری اور علاج ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ شہر حیدرآباد ، ضلع مستقر سے لیکر بڑے تعلقوں میں خانگی دواخانوں کی بھرمار ملے ۔ لگتا ہے آج کے دور کا سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار دواخانہ قائم کرنا ہے ۔ پیشہ طب کبھی ایک مقدس پیشہ ہوا کرتا تھا ۔ پچھلا زمانہ ہو یا آج کا دور مریض اللہ کے بعد ڈاکٹر ہی سے شفاء کی امید باندھے رہتا ہے ۔ مگر خدا بھلا کر کے ان خانگی دواخانوں اور خصوصاً کارپوریٹ اسپتالس کا جہاں ڈاکٹر سے دواخانے کے انتظامیہ کے ہر فرد کی نگاہ صرف مریض کی جیب پر رہتی ہے ۔ یہ شکایت لوگوں کو ملک کے ہر کونے کے خانگی اسپتال سے ہے ۔ پچھلے دنوں ہم حیدرآباد میں تھے ۔ ان دنوں ہمارے ایک قریبی دوست ایک سڑک حادثے کا شکار ہوئے ۔ جس میں ان کے بائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی اور جسم پر کچھ معمولی قسم کے زخم آئے ۔ حادثہ کے بعد 45 سالہ اس شخص کی مجموعی حالت خراب یا تشوک نہیں تھی ۔ وہ پہلے قریب کے ایک خانگی اسپتال گئے جہاں پتہ چلا کہ شعاع (X-RAY) نکانے کی سہولت دستیاب نہیں ہے ۔ دوسرے دواخانے پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں آرتھوپیڈک سرجن حاضر نہیں ہے ۔ آخر کار وہ شہر کے ایک معروف کارپوریٹ استعمال پہنچے جہاں انہیں فوراً ICU ( شید طبی نگہداشت ) وارڈ میں داخل کردیا گیا ۔ اس وارڈ کے چارجس عام وارڈ سے کئی نگاہ زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس وارڈ میں تشوناک حالت کے مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے ۔ ہمارے دوست کے حادثہ کا شکار ہونے اور انہیں ICU میں رکھے جانے کی اطلاع پر ان کے متعلقین شدید پریشان ہوگئے ۔ دوسرے دن انہیں عام وارڈ میں منتقل کردیا گیا ۔ کیفیت یہ بتائی گئی کہ موٹر سیکل سے گرنے کی وجہ سے صرف ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی ہے ۔ اور دیگر سب کچھ ٹھیک ہے ۔

اور صرف آپریشن کر کے ہڈی جوڑنا ہے جو کوئی بڑا طبی مسئلہ نہیں ہے ۔ حادثہ بڑا نہیں تھا مگر اس کا جو بل آیا وہ کافی بڑا تھا کیونکہ انہیں پہلے ICU میں رکھا گیا پھر آپریشن کیا گیا ۔ انسان زندگی کے دیگر شعبہ میں کوئی معاملہ کرے یا خریدی کر کے تو قیمت کی ادائیگی سے قبل اپنے طور پر یہ اندازہ قائم کرسکتا ہے کہ جو قیمت اس سے طلب کی جارہی ہے وہ واجبی ہے یا نہیں اور وہ اس پر بحث یا بھاؤ تاؤ بھی کرسکتا ہے ۔ لیکن اسپتال کا بل جب ہاتھ میں آتا ہے تو ادا کرنے والے کو اس بات کا بالکل علم نہیں رہتا کہ اس سے جو رقم وصول کی جارہی ہے وہ مناسب اور واجبی ہے یا نہیں ۔ یعنی مریض یا اس کے متعلقین کو معلوم نہیں کہ مریض کی حالت اُسے ICU وارڈ میں داخل کرانے کی تھی یا نہیں ، مریض کے جو طبی معائنے اور امتحانات کروائے گئے آیا وہ ضروری تھے یا نہیں بلکہ جن طبی خدمات کی فراہمی کے پیسے بل میں وصول کئے گئے ہیں وہ طبی خدمات مریض کو فراہم کی بھی گئیں یا نہیں ۔ ایک اور شکایت جو عام ہے وہ CESAREAN DELIVERY کی ہے ۔ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ اکثر اسپتال والے آپریشن کے ذریعہ زچگی انجام دینے کا فیصلہ جلد کردیتے ہیں جبکہ اس گریز بھی کیا جاسکتا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نارمل زچگی سے آپریشن کے ذریعہ کی جانے والی زچگی کے اخراجات کئی گناہ زیادہ ہوتے ہیں اور دواخانے کو ایک بڑا بل وصول کرنے کا موقع ہاتھ آتا ہے ۔

ترقی یافتہ ممالک میں ہر شخص کے پاس میڈیکل انشورنس ہوتا ہے ۔ دواخانہ جو بھی علاج کرے ، جتنی بھی بڑی بل پیش کرے ادائیگی کی ذمہ داری میڈیکل انشورنس کمپنی کی ہوتی ہے ۔ اور کمپنی کے پاس ماہرین موجود ہوتے ہیں 3 بل کی ادئیگی سے قبل اس بات کی جانچ کرتے ہیں کہ مریض جو علاج کیا گیا ہے اس کیلئے ان تمام طبی سہولتوں ، طبی امتحانات وغیرہ جو بل میں وصول کئے گئے ہیں کی ضرور تھی یا نہیں ۔ ہندوستان میں بھی اب میڈیکل انشورنس عام ہونے لگا ہے ۔ مگر اب ہماری آبادی کا بڑے حصے کے پاس میڈیکل انشورنس نہیں ہوتا ۔ ایسے افراد کیلئے اسپتال کا بل ادا کرنے سے قبل ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ جو اس بات کی جانچ کرے کہ اسپتال مریض سے جو رقم وصول کررہا ہے وہ درست اور واجبی ہے یا نہیں ۔ کارپوریٹ یا چھوٹے خانگی اسپتال کی تعداد میں اضافہ ہمارے شہروں میں اس وقت سے ہوا جب سے ہمارے سرکاری اسپتال غیرکارگرد ہوگئے ۔ لیکن ان خانگی اسپتالوں نے طب جیسے پیشے کے تقدس کی دھجیاں اُڑا دیں۔ ان اسپتالوں میں خدمت کے جذبہ کا فقدان ہے ۔ ان کی سوچ ان کا طریقہ کار صرف اور صرف بزنس چمکانہ اور پیسہ کمانا ہوگیاہے ۔ پیشے کا تقدس ، صحیح غلط ، جائز ناجائز ، اقدار ، اصول وغیرہ جیسی کوئی شئے ان کے پیش نظر نہیں رہتی ۔ مریض کے اسپتال پہنچتے ہی اس کی کیفیت دریافت کرنے سے قبل ایک بڑی رقم جمع کرانے کی ہدایت کی جاتی ہے کیونکہ یہ ایک کاروباری ادارہ ہے خدمت کا مرکز نہیں ۔

کچھ عرصہ قبل ایک ہندی فلم ( نام یاد نہیں ) میں ان کارپوریٹ اسپتالوں کی پیسہ بنانے کے طریقہ کار کا بھانڈا پھوڑا گیا تھا ۔ فلم میں ایک صحافی ایمبولنس کے ذریعہ ایک شخص کو اسپتال لاتی ہے ۔ اس حالت نازک بتاتے ہوئے فوری علاج شروع کرنے کیلے شورمچاتی ہے ۔ اسپتال والے اُسے فوری ICU وارڈ میں داخل کردیتے ہیں ۔ درحقیقت یہ شخص کچھ گھنٹے قبل انتقال کر گیا ہے اور صحافی اس کی لاش دواخانہ لیکر آتی ہے ۔ اسپتال والے ایک دن ICU میں رکھنے کے بعد مریض کے انتقال کر جانے کا اعلان کرتے ہیں اور ایک بڑا بل تیار کر کے ادائیگی کیلئے پیش کرتے ہیں ۔ تب یہ صحافی سب کے سامنے حقیقت پیش کر کے دواخانے کی بدنیتی اور پیسے کیلئے طب کے مقدس پیشے کو رسواء کرنے کا زار افشاں کرتی ہے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھرراؤ نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں دیگر کئی اعلانات کے ساتھ سرکاری ملازمین کو ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ۔

ہماری آبادی میں سرکاری ملازمین کی تعداد برائے نام ہوتی ہے ۔ جبکہ علاج کی سہولت ہر کس و ناکس کو چاہئے ۔ خصوصاً غریب اور متوسط طبقہ کے افراد جو ہیلتھ انشورنس لینے کے متحمل نہیں ہوتے ۔ لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ یا تو سرکاری دواخانوں کو عصری طبی سہولتوں سے آراستہ کریں ، ان کی کارکردگی کو بہتر بنائیں ، آبادی کے لحاظ سے ان کی تعداد میں اضافہ کریں تاکہ لوگ ان خانگی اسپتالوں کے استحصال سے نجات حاصل کرسکیں ۔ اس مسئلہ پر سیاست کے کالم نگار اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر مجید خاں نے بھی کچھ عرصہ قبل علاقہ کی متوقع حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی ۔ لہذا ہماری نئی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدہ اقدام کرے۔
knwasif@yahoo.com