طالبان کی ناقابل بیان بربریت

ظفر آغا
اللہ توبہ ! اب یہ دن آگئے ہیں کہ نعرۂ تکبیر کے ساتھ معصوم بچوں کو گولیوں سے بھونا جائے ۔ وہ بچے جن کے والدین نے ان کی ولادت کے فوراً بعد ان کے کان میں جو آواز ڈالی تھی ، وہ نعرۂ تکبیر کی آواز تھی ۔ یہ ہے جہاد ان ظالموں کا جو خود کو اسلام کا ٹھیکیدار کہہ کر اسلام کے نام پر بدترین گناہ کے مرتکب تو ہو ہی رہے ہیں ، ساتھ ہی اسلام کو بھی بدنام کررہے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے ہفتے جو کچھ ہوا اس نے نہ صرف مسلمانوں کو شرمندہ کردیا بلکہ یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا کہ اسلام کے نام پر آخر یہ کیا ہورہا ہے ؟ ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر جہاد کے نام پر مسلمان خود مسلمانوں کو مار رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اب مسلمان بچے اپنے اسکولوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ آخر یہ دیوانگی کیوں اور اسکا ذمہ دار کون ہے ؟

یوں تو جہادی کہنے والے تمام دہشت گرد ، خود کو امریکہ اور مغرب کا دشمن کہتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید جہاد کا بنیادی مقصد امریکی مفاد کا تحفظ کرنا ہے اور اس کا مرکز پاکستان رہا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو جو جہاد ان دنوں جاری ہے ، اس کی شروعات اسّی کی دہائی میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد ہوا ۔ افغانیوں نے فوج کے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کیا اور افغانستان میں فوراً مجاہدین پیدا ہوگئے ۔ اس وقت افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان نے ان مجاہدین کو پناہ دی تھی ۔ افغانستان کی سرحد سے لیکر پشاور تک مجاہدین کے کیمپ کھل گئے اور پاکستان میں نظام مصطفی کے موجد اور وہاں کے بدترین فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے فوراً سی آئی اے سے مجاہدین کے لئے مدد مانگی ۔ سوویت یونین اس وقت تک امریکہ کا بدترین دشمن تھا ۔ چنانچہ امریکہ نے فوراً ضیاالحق کے پیغام پر لبیک کہا اور سی آئی اے نے نہ صرف ان مجاہدین اور پاکستان فوج بالخصوص آئی ایس آئی کی ہر طرح سے مدد کی ، بلکہ مجاہدین کو فوجی ٹریننگ بھی دی ۔ بس اسی وقت سے پاکستان اور افغانستان سے جو جہاد کے نام پر دہشت گرد سیاست کا نعرہ بلند ہوا ہے وہ نہ صرف تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ، بلکہ اس نے سارے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ تب سے آج تک مسلمان ، مسلمان کو جہاد کے نام پر مار رہا ہے ، سوائے القاعدہ کے امریکہ پر حملے کے اور مغربی ممالک میں چند بم دھماکوں کے ۔ مسلم دہشت گرد گروہوں کے جہاد کا نشانہ خود مسلمان ہیں ۔ وہ افغانستان ہو یا پاکستان ، عراق ہو یا شام یا دیگر ممالک ، خود کو جہادی کہنے والے گروہ کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں اور مغربی دنیا نہ صرف تماشہ دیکھ رہی ہے بلکہ مغربی اور یہودی لابی بے حد چالاکی سے جہادیوں کی جہالت اور دہشت کا فائدہ اٹھا کر ساری دنیا کے مسلمانوں کو نہ صرف دہشت گردی کی امیج دے رہے ہیں بلکہ اسلام کو بھی بدنام کرنے میں کامیاب ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں جب خود مسلمان ، معصوم مسلمان بچوں کو گولی مارے تو دنیا یہی کہے گی کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا ؟ سب سے پہلے پاکستانی فوج پر عالمی دباؤ اس قدر ہونا چاہئے کہ اس نے دنیا کو اسلام کی آڑ میں جو دہشت کی لعنت دی ہے ، اس سے پاکستانی فوج کی حمایت فوراً بند ہو ۔ پاکستان جس طرح حافظ سعید جیسے دہشت گردی میں یقین رکھنے والے افراد کی پشت پناہی کررہا ہے وہ فوراً بند ہونی چاہئے ۔ پھر دہشت گرد گروہوں کو جہاں سے بھی مالی امداد مل رہی ہے وہ بند ہونی چاہئے۔ اکثر دولت مند مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ خود کو جہادی کہنے والے دہشت گرد گروہ مغرب کے خلاف لڑرہے ہیں ۔ اس لئے وہ ان کی مدد کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ جہادی خود مسلمانوں کو ماررہے ہیں ۔ اس لئے ان کی مدد کرنا اسلام دشمنی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔ الغرض عالم اسلام سے دہشت گرد گروہوں کی کوئی مدد نہیں ہونی چاہئے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام دینی مراکز اور مدارس کے ذریعہ نہ صرف اس جہاد کی مذمت ہونی چاہئے بلکہ ان کو غیر اسلامی فعل کہہ کر حرام قرار دیا جانا چاہئے ۔ قرآن خود کہتا ہے کہ ایک معصوم کا خون پوری انسانیت کا خون ہے ۔ پاکستانی اسکول میں مارے جانے والے بچے معصوم نہیں تو کیا تھے ۔ اس لئے یہ جہاد قطعاً حرام ہے ۔ چنانچہ کعبہ سے لے کر ہر مسجد اور ہر مدرسہ سے یہ صدا اٹھنی چاہئے کہ ان دنوں جہاد کے نام پر جو دہشت کی سیاست ہورہی ہے وہ مسلم دشمن سیاست ہے اور شرعی طور پر حرام بھی ہے ۔ اگر اب جلد از جلد مسلم ممالک ایسے قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو پاکستان کی طرح یہ ممالک خود جہادیوں کی دہشت گرد سیاست میں جھلس جائیں گے اور بے گناہ و معصوم مسلمان لاکھوں کی تعداد میں ان جہادیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جائیں گے ۔ یہ تو رہا دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ، لیکن ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ جہادی جتنا بڑا خطرہ بنتے جارہے ہیں اس کا ابھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ اس ہندوتوا کے دور میں اگر چند سر پھرے ہندوستانی مسلمان کہیں ایک چھوٹا موٹا دہشت گردانہ حملہ کردیتے ہیں تو ساری ہندو قوم کو یہ سمجھنے میں کتنا وقت لگے گا کہ ہندوستانی مسلمان بھی جہادی ہوگیا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے پاکستان میں ضیاء الحق نے نظام مصطفی کا نعرہ بلند کیا تب سے ہی ہندوستان میں جے سیارام کے نعرے تیز ہوگئے اور اس کے بعد یہاں جس طرح خالص ہندو سیاست کو تقویت ملی ویسا ہندوستان میں پہلے کبھی نہیں ہوا ۔

اس لئے ہندوستانی مسلمانوں کو نہ صرف جہادی سیاست کی مذمت کرنی چاہئے بلکہ اس کی ہر سطح پر مخالفت بھی کرنی ہوگی ۔اس کے لئے سب سے پہلے ہر کثیر مسلم آبادی والے شہر میں جلد از جلد دہشت گرد اور جہادی سیاست کے خلاف بڑی بڑی ریلیاں ہونی چاہئیں ۔ پھر ہر مسجد میں خطبہ جمعہ میں ہر خطیب ، جہادی اور دہشت گرد سیاست کے خلاف خطبہ دیں اور اس قسم کی حرکت کو غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دیں ۔ ہر درگاہ اور ہر مدرسہ میں دہشت گرد سیاست کے خلاف آواز بلند ہونی چاہئے۔ لیکن اب محض ان نعروں ، قرار دادوں اور خطبوں سے کام نہیں چلنے والا ہے ۔ اس طوفان کو روکنے کے لئے اب مسلم سماج میں ایک فکری انقلاب کی ضرورت ہے ۔ اور اس فکری انقلاب کی داغ بیل سرسید احمد خان رکھ گئے تھے ۔ سرسید تحریک کا ماحصل مسلمانوں کو محض جدید تعلیم کی طرف رجوع کرنا نہیں تھا ، بلکہ سرسید تحریک کا مقصد مسلم معاشرہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں جدید قدروں کی داغ بیل رکھنا بھی تھا ۔ وہ جدید قدریں مسلم معاشرے میں سائنسی فکر ، جدید جمہوری سیاست اور جدید معیشت تھیں ۔ یعنی مسلمانوں کو زمیندارانہ قدریں ترک کرکے سائنسی انقلاب اور جدید فکر کو اپنانا ہوگا ۔ موجودہ جہاد کچھ اور نہیں بلکہ زمیندارانہ دور کی طاقت پر مبنی سیاست کا ایک وحشیانہ نمونہ اور وحشی سیاست ہے ۔ اس سے بقا کا راستہ فکری انقلاب میں پیوست ہے جو جدید قدروں کو اپنانے سے آسکتا ہے ۔ اگر ہم مسلمانوں نے اس تبدیلی کو نہیں اپنایا تو ہم اور ہمارے بچے جہاد کی سیاست میں جھلس جائیں گے ۔