امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات میں طالبان کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی نے کہا ہے کہ طالبان افغانستان پر بزورِ طاقت قبضہ کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔
ماسکو میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پورے ملک پر پر قبضہ کرنا نہیں چاہتے۔ اس سے افغانستان میں امن نہیں آئے گا‘۔
تاہم شیر محمد عباس ستنکزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان جنگ بندی پر اس وقت تک رضامند نہیں ہوں گے جب تک کہ تمام بیرونی افواج افغانستان سے نہیں چلی جاتیں۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت افغانستان میں شہری ہلاکتوں کے لیے طالبان سے زیادہ کوئی دوسرا فریق ذمہ دار نہیں ہے۔
عباس ستانکزئی جو کچھ عرصہ قبل تک قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ تھے، گروپ کے نمایاں رہنما ہیں۔ انھوں نے افغان حزب اختلاف کے متعدد سینیئر رہنماؤں کے ساتھ ماسکو میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کے دوران بی بی سی سے بات کی۔
انھوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں جب طالبان اقتدار میں تھے اور انھیں مخالف افغان گروہوں کی جانب سے مسلح مخالفت کا سامنا ہوا تو ان کے گروپ کو یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ مسائل کے حل کا بہتر طریقہ ‘بات چیت ہے۔’
عباس ستانکزئی نے کسی معاہدے تک پہنچنے میں آنے والی پریشانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘جنگ سے زیادہ مشکل چیز امن ہے۔’ تاہم انھوں نے امید ظاہر کی افغان تنازعہ ختم کیا جا سکتا ہے۔
عباس ستانکزئی نے افغانستان میں مفاہمتی عمل کے لیے امریکی حکومت کے نمائندے زلمے خلیل زاد سے حالیہ مہینوں کے دوران سلسلہ وار ملاقاتوں کی قیادت کی ہے۔
زلمے خلیل زاد کے مطابق جنوری میں وہ معاہدے کے ایک ‘ ابتدائی ڈھانچے’ پر رضامند ہو گئے تھے جو کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے عہد پر مبنی تھا۔
اس کے ساتھ ہی یہ طالبان کی جانب سے اس بات کی ضمانت بھی دی گئی تھی کہ مستقبل میں وہ اس ملک کو بین الاقوامی جہادی گروہوں کو ٹھکانہ بنانے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
طرفین نے اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ ابھی بھی بہت سے امور حل طلب ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی خواہش کو واضح کردیا ہے کہ وہ اس 17 سالہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور کم از کم زیادہ تر امریکی فورسز کو وہاں سے واپس بلانا چاہتے ہیں۔
سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ ’عظیم اقوام نہ ختم ہونے والی جنگیں نہیں لڑتیں‘۔
افغان طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کا حوالے دیتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا ‘ہم نہیں جانتے کہ ہم کسی معاہدے تک پہنچیں گے یا نہیں تاہم دو دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کم از کم امن کی کوشش کریں۔’
عباس ستانکزئی کا بھی کہنا تھا کہ ان کا یہ خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ‘افغانستان میں امن لانا چاہتی ہے‘۔
خیال رہے کہ ماسکو میں ہونے والے مذاکرات امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرت سے علیحدہ ہیں۔ ان میں طالبان کے مندوبین کے علاوہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور حزب اختلاف کے دوسرے سرکردہ رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
ان مذاکرات میں اگر طالبان مرکزی دھارے کی سیاسی طاقت بن جاتے ہیں تو ملک کو مستقبل میں کیسے چلایا جائے، جیسے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔
عباس ستانکزئی نے ماسکو کے ایک ہوٹل میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اقتدار پر اپنی اجارہ داری نہیں چاہتے لیکن ‘افغانستان کا آئین جو کہ مغرب سے درآمدہ ہے وہی امن کی راہ میں رخنہ ہے‘۔
طالبان نے سنہ 1996 سے 2001 کے درمیان افغانستان پر اسلامی قانون کی انتہائی قدامت پسند اور بعض اوقات بےرحم تشریح کے تحت حکومت کی۔
یہ گروپ خواتین کے ساتھ اپنے سلوک کے بارے میں بدنام رہا ہے اور اس نے زیادہ تر خواتین کے کام اور سکول جانے پر پابندی لگا دی تھی۔
تاہم عباس ستانکزئی نے کہا کہ طالبان کے بڑھتے اثرات سے ‘خواتین کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے’ کیونکہ وہ خواتین کو شریعت اور افغان ثقافت کے تحت ان کے سارے حقوق دینے کی کوشش کریں گے۔
انھوں نے مزید کہا: ‘وہ سکول جا سکتی ہیں، وہ یونیورسٹی جا سکتی ہیں، وہ ملازمت کر سکتی ہیں۔’
ماسکو کے مذاکرات میں موجود دو خواتین میں سے ایک فوزیہ کوفی جو کہ افغانستان میں رکن پارلیمان بھی ہیں نے بی بی سی کو بتایا: ‘یہ ایک مثبت قدم ہے کہ وہ طالبان جو اب تک افغانستان کے عوام اور بطور خاص خواتین کے خلاف گولیوں کا استعمال کر رہے تھے وہ اب مائیکروفون کا استعمال کر رہے ہیں اور خواتین کی آواز سن رہے ہیں۔’