طالبان مذاکرات سے پہلے دھماکے کیوں…؟

محمود شام، کراچی (پاکستان)

لاہور سے کراچی تو پی آ ئی اے مقررہ وقت پر لے آئی تھی۔ مگر ایرپورٹ سے گھر پہنچنے میںزمانے لگ گئے ۔شہر کے مرکزی چوراہے دھرنوں میں گھرے تھے ۔کوئٹے میں ہزارہ برادری ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنی تھی۔ بڑی تعداد میں برادری کے لیڈر اپنے پیاروں کی میتیں کپکپاتی سردی میں کھلی سڑکوں پر لئے احتجاج کررہے تھے۔ ان سے ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار کے لئے اہل تشیع سب بڑے شہروں میں دھرنے دے رہے ہیں ٹریفک رک رہا ہے۔ بلکہ شہر قریب قریب بند ہو جاتے ہیں۔ ابھی جہاز میں تھے تو مسافریہی باتیں کر رہے تھے۔ یہ سڑک بند ہے۔اس چورنگی پر دھرنا لگا ہے ایرپورٹ آنے والی میں سڑک شارع فیصل پر گوٹھ ناتھاخان پر دھرنے نے ایرپورٹ اور شہر کا رابطہ کاٹ دیا تھا ۔راستے بدل بدل کر ہمارا بیس منٹ کا فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا ہم نے پھر بھی رب کا شکر ادا کیا کہ دیر سے سہی گھر پہنچ تو گئے۔

پی آئی اے ان دنوں ترکی کے جہاز لیز پر لے کر چلا رہی ہے پاکستان کے پرائیویٹ ٹی وی چینل قوم کو ترکی کے ڈرامے دکھارہے ہیں۔ ترک حسینائوں کو سکرین پر دیکھنے کی عادت تو پڑی ہوئی ہے۔ اب یہ قوم اپنی خوش قسمتی پر کیوں نہ نازاں ہو کہ اب ائیر ہوسٹسوں کی صورت میں ترک حسینائیں جیتی جاگتی ان کے درمیان موجود ہیں۔ چائے پانی پلا رہی ہیں۔ مسکرا ہٹیں بانٹ رہی ہیں۔ ہواباز بھی خاتون تھی۔ ترکی ہمارا دوست ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے 2020 عالمی میلے یا ایکسپو کے مقابلے میں دبئی کی حمایت نہیں کی، لیکن یہ عالمی میلہ مل گیا دبئی کو۔کچھ کچھ ناراضگی ہو گئی ہے دبئی والوں کوہم سے۔کوشش کر رہے ہیں دبئی کو منانے کی لیکن ہماری جان کو تو اور بڑے روگ لگے ہوئے ہیں، کس کس کو منائیں ۔

مولانا سمیع الحق اکوڑہ خٹک والے بھی روٹھ گئے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے ان کو وزیر اعظم ہاؤس میں دعوت دی۔ ان سے درخواست کی کہ طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں حکومت کی مدد کریں،خیال یہی تھاکہ مولانا اس ذمہ داری کو خوشی خوشی نباہیں گے۔

طالبان بھی انکار نہیں کریں گے۔ کیوں کہ طالبان کے بزرگوں نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن ایگ طرف تو ڈرون حملوں میں طالبان کے اہم عہدیداران مارے گئے۔ طالبان نے کھلم کھلا کہ دیا کہہ وہ اب مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا نہیں چاہتے کہ ان کے لوگ مارے جارہے ہیں۔ انہوں نے بھی دھماکوں اور حملوں میں اضافہ کر دیا۔ پچھلے کچھ روز میں تو کوئی دن ہی شاید ایسا گیا ہوگا جب کہیں نہ کہیں ہلاکتیںنہ ہوئی ہوں۔ بہت المناک بہت تکلیف دہ سانحے برپا ہو رہے ہیں۔ بچے، بزرگ، نمازی شہید کئے جارہے ہیں۔ مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ بچے، مائیں، بہنیں روز ٹی وی اسکرینوں پر یہ ہولناک مناظر دیکھتے ہیں اور دل تھام کر رہ جاتے ہیں۔

میں نے کئی سمیناروں میں کہا کہ میں ہندوستان میں مسلمانوں کو بڑے آرام، سکون اور چین سے مسجدوں میں نمازیں ادا کرتے دیکھ کر آیا ہوں۔ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنا وہاں عام نمازیں اور خاص طور پر عید کی نماز رینجرز اور پولیس کے پہرے کے بغیر نہیں ہو سکتی، پچھلے ہفتے کے دوران مسجدوں، فوجی علاقوں، امام بارگاہوں اور تبلیغی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ اب عام لوگوں کی رائے طالبان سے بات چیت کے حق میںبالکل نہیں رہی اور جب ہماری ائیر فورس نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کر کے کئی خطرناک جہادیوں کو ہلاک کیا تو عام لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا ۔بعض حلقے اس بمباری کو فوجی آپریشن کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔

یہ بمباری شمالی وزیرستان میں کی گئی ہے۔ لیکن اب جب طالبان کی طرف سے حملوں میں شدت آئی اور فوجی قافلوں کو بھی ہدف بنایا گیا تو فوج نے جوابی کارروائی کر ڈالی اب یہ بحث ہو رہی ہے کہ حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھا کہ نہیں مرکزی حکومت کے وزیر دفاعی پیداوار نے تو ایسا بیان دیا جس سے یہ ظاہر ہوا کہ حکومت کو اس کی اطلاع تھی۔ البتہ عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جس صوبے میں یہ فوجی کاروائی ہوئی وہاں عمران کی تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن عوام کے تیور دیکھ کر عمران بھی فوجی آپریشن کے حق میں مائل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ طالبان بھی عوام کے رجحانات کا خیال رکھتے ہیں میڈیا سے رابطے کر رہے ہیں۔ لیکن میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی طالبان کے سخت مخالف ہو رہا ہے کہ پچھلے ہفتے کی تشویشناک وارداتوں میں ایکسپریس نیوز کے تین کارکن بھی شہید ہوئے ہیںاور میڈیا کی طرف سے پورے ملک میں احتجاج کیا گیا ۔

اخبارات نے اداریوں میں اسے فیصلے کی گھڑی قرار دیا ہے۔ چینلوں پر ٹاک شوز میں بھی آپریشن پر زور دیا جارہا ہے۔سرد موسم کے خاتمے کا بھی انتظار ہے۔ کئی علاقوں میں برف پڑی ہوئی ہے۔ راستے بند ہیں یہ کہا جارہا ہے کہ فروری کے آخر میں طاقت کے استعمال کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ یہی سبب بھی ہوسکتا ہے طالبان کی طرف سے دھماکوں میں شدت کا کہ آپریشن سے پہلے وہ اپنی حساس حیثیت بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ ایک مسئلہ مشرف صاحب کے مقدمے کا ہے حکومت تو چاہتی ہے کہ وہ باہر چلے جائیں اور یہ فیصلہ عدالت کی طرف سے ہو کیونکہ سننے میں آرہا ہے کہ طالبان نے حکومت کو دھمکی دے رکھی ہے اگر حکومت نے انہیں خود باہر جانے کی اجازت دی تو حکومت کو بھی جانا ہوگا۔ ان کے حملوں کا نشانہ پھر حکومت کے بڑے لوگ ہونگے اسی لئے حکومت کوئی واضح فیصلہ نہیں کر پارہی ہے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ جس حکومت سے لوگ بڑی بڑی امیدیں باندھے بیٹھے تھے مہنگائی کم کرنے کی بجلی سستی اور زیادہ فراہم کرنے کی وہ مشرف اور طالبان کے معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ آخر میں آپ سے یہ بھی شیئر کر لوں کہ جس پرواز سے میں لاہور سے کراچی آیا۔ اس سے ہمارے حافظ سعید بھی تشریف لائے۔ میں نے عام مسافروں کی آنکھوں میں ان کے لئے عقیدت اور احترام کے جذبات دیکھے بہت ہی سادہ لباس کوئی گارڈ نہ پروٹوکول۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800