طالبات پر لاٹھی چارج ’’مدد مانگتی ہے یہ حوّا کی بیٹی‘‘

 

غضنفر علی خاں
اترپردیش میں پچھلے چھ ماہ سے جب سے کہ یوگی ادتیہ نے چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالا ہے مسلسل دلخراش واقعات ہورہے ہیں۔ اسپتال میں 70 بچوں کی موت، عصمت دری کی وارداتیں، کیا کچھ نہیں ہورہا ہے۔ تازہ واقعات میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات پر پولیس کی لاٹھی چارج، کئی طالبات کا زخمی ہونا، یہ سب کچھ وزیراعظم کے لاڈلے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے دورِ حکومت میں ہوا ہے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ مزید کتنے ایسے دلخراش واقعات اور ہوں گے۔ بنارس کو ایک خاص مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بنارس وزیراعظم کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔ نریندر مودی نے اپنے اس حلقہ کے ایک دیہات کو ترقی کے لئے اپنایا بھی ہے۔ خیر یہ تمام ارکان پارلیمان بھی کررہے ہیں۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں لاٹھی چارج کا واقعہ عین اُس وقت ہوا جبکہ وزیراعظم وہاں کا دورہ کررہے تھے۔ اب قارئین اس کو بدشگونی سمجھیں یا بی جے پی کے مطابق نیک شگون سمجھیں لیکن کسی بھی لحاظ سے یہ محض اتفاق نہیں اور نہ اس کو صرف Coincidence کہا جاسکتا ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کا چیف منسٹر ہونا، بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا آر ایس ایس سے تعلق ہونا، وزیراعظم مودی کا ملک کے سربراہ ہونا سب باتیں ایک ہی وقت میں ہوئیں۔

چیف منسٹر ادتیہ ناتھ کیوں محض چھ ماہ کے عرصہ میں اتنے ناکام ہوگئے؟ مودی کے دورہ کے موقع پر یونیورسٹی میں پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ پر کس کے حکم پر لاٹھی چارج کیا گیا؟ آخر طلباء و طالبات کا کیا قصور ، انھیں کس جرم کی پاداش میں پولیس کی لاٹھیاں سہنی پڑیں۔ ایک بات البتہ سمجھ میں ضرور آتی ہے کہ اس وقت ایسی شخصیت وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہے جن کو اولاد کا درد، ان سے محبت اور اچھا برتاؤ کی لذت سے واقفیت ہی نہیں ہے۔ انھیں کیا پتہ کہ بڑے ارمانوں سے اپنے بچوں اور خاص طور پر اپنی لڑکیوں کو علم حاصل کرنے کے لئے انھیں کالج یا یونیورسٹی بھجوانے والے والدین کو کتنا دُکھ ہوتا ہے جب والدین کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اولاد پر یونیورسٹی کے کیمپس میں ظلم ہوتا ہے۔ پولیس کی ہر لاٹھی ماں باپ کی دل پر ان کے احساس پر شدید ضرب لگاتی ہے۔ رہا سوال چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کا تو وہ اولاد کی محبت کے لطیف احساس سے قطعی ناواقف اور نابلد بھی ہیں وہ تو یوگی ہیں۔ انھوں نے تو شادی بھی نہیں کیا۔ گویا لڑکیوں سے پدرانہ شفقت ہونے کا کم از کم چیف منسٹر یوگی سے نہ تو اُمید کی جانی چاہئے اور نہ ایسا کبھی ہوگا۔ ذرا اپنی چشم تصور کو کھولئے کیسے یہ طلبہ و طالبات لاٹھی چارج سے بچنے کے لئے کیمپس کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی جانب بے بسی اور سراسمیگی کے عالم میں جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہوں گے۔ طالبات کا یہ احتجاج بھی جس کے لئے انھیں زدوکوب کیا گیا اس لئے تھا کہ آرٹس فیکلٹی کی ایک طالبہ نے وائس چانسلر سے شکایت کی تھی کہ 3 نوجوانوں نے اس سے دست درازی کی کوشش کی تھی اس نے چانسلر سے ایک وفد کے ساتھ ملاقات کی کوشش بھی کی تھی لیکن آر ایس ایس کا پس منظر رکھنے والے ان صاحب نے ملاقات کا موقع نہیں دیا۔ طلباء و طالبات نے کیمپس کے اندر احتجاج کیا۔ یہ طلبہ کیا لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ کھڑا کرنے والے تھے؟ کیا ان میں کوئی انتہا پسند یا شرپسند تھا۔ وہ تو ایک طالبہ کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کو ختم کرنے کیمپس میں سکیورٹی گارڈس مقرر کرنے کا انتہائی واجبی مطالبہ کررہے تھے، ان کے مطالبہ کو ماننے کے بجائے اپنے حق کے لئے لڑنے والے طلبہ پر کیوں لاٹھیاں برسائی گئیں (ایک اطلاع کے مطابق فائرنگ بھی کی گئی) پھر کس منہ سے وزیراعظم سینہ پھلاکر یہ کہتے ہیں کہ ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ کم از کم بنارس ہندو یونیورسٹی کے اس افسوسناک واقعہ کے بعد یا تو یہ نعرہ ختم کردینا چاہئے یا پھر نعرہ کو بدل کر ’’بیٹی پڑھاؤ ، بیٹی ہٹاؤ‘‘ کا نیا نعرہ بلند کرنا چاہئے۔

کیونکہ ایسی حکومت کو طلبہ برادری سے جھوٹے وعدے کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ بیٹی کے بارے میں دل فریب وعدے کرکے نعرے بلند کرے۔ اگر اب بھی حکومت بیٹی کے بارے میں کوئی دل فریب نعرہ دیتی ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’حکومت کی بغل میں چھرا اور زبان پر رام رام ہے‘‘۔ اب جبکہ سب کچھ ہوچکا اور ملک کی دوسری یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ریالیاں نکالی، یوگیہ ادتیہ ناتھ کے ناقص نظم و نسق کی قلعی کھل گئی۔ تو وزیراعظم کو اترپردیش کی یوگی حکومت کو فوراً برخاست کردینا چاہئے اور مرکزی حکومت کو ان واقعات کی مرکزی جانچ ایجنسی کے ذریعہ تحقیقات کروانی چاہئے۔ اس سے پہلے کہ ملک بھر میں طلبہ برادری ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف کمربستہ ہوکر احتجاج شروع کریں ان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہئے۔ یہ سنجیدہ کام کرنے کے بجائے اپنی عادت سے مجبور بی جے پی حکومت ادتیہ ناتھ اور خاطی وائس چانسلر کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ وائس چانسلر کے مستعفی ہونے یا یونیورسٹی کے چیف پراکٹر کو خدمات سے علیحدہ کرنے چند اور عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ جو آگ بنارس ہندو یونیورسٹی کے کیمپس سے دہکی ہے وہ ملک کی طلبہ برادری کو اپنی لپیٹ میں نہ لے اور سارا نظام درہم برہم ہوجائے۔ جو بھی اقدامات اب تک کئے گئے وہ صرف اشک شوی کے مصداق ہیں۔ جو بھی کیا جاتا ہے اس سے یہ بات مثبت انداز میں منظر عام پر آنی چاہئے کہ ہماری طلبہ برادری اور بالخصوص ہماری طالبات کی عزت و آبرو ان کا احترام کھوکھلے نعروں کے بجائے ٹھوس حقیقت بن سکے۔ جیسے ہی اس یونیورسٹی میں دل سوز واقعات ہوئے سیاسی جماعتوں نے گھٹیا سیاست شروع کردی۔ کانگریس کے زیراثر طلبہ کی تنظیم یہ کہہ رہی ہے کہ کیمپس میں گڑبڑ وہاں موجود بی جے پی کی پرزور حامی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے کی ہے۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیاں بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ کے جسم سے رستے ہوئے لہو سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ طلباء و طالبات ہمارا بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ کم از کم ان کے مستقبل سے اس طرح کا کھلواڑ کرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ تعلیمی اداروں کی یونینوں کا کسی بھی پارٹی سے کوئی تعلق یا affiliation کو یکلخت ختم کرنا چاہئے۔ طلبہ برادری کا بدترین استحصال ہے۔ ہر آزمائش کی گھڑی میں سیاسی پارٹیاں خم ٹھوک کر طلبہ برادری سے اپنی وابستگی ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔