کے این واصف
16 ڈسمبر 2012 ء کو ایک طالبہ کے ساتھ دہلی میں ہوئی اجتماعی زیادتی کے واقعہ نے ملک کے سرکاری ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے بعد پارلیمنٹ میں ایک نئے بل کے ذریعہ عصمت دری کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ایک سخت نیا قانون وضع کیا گیا جس کا نام ’’نربھیا ایکٹ‘‘ رکھا گیا ۔ قانون کی کتاب میں ایک اضافہ تو ہوا لیکن ملک میں عصمت ریزی کے واقعات میں نہ کمی آئی نہ اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں کوئی خوف پیدا ہوا ۔ عورتوں پر ظلم و تشدد کسی ایک معاشرے یا ملک کا مسئلہ نہیں ، یہ واقعات دنیا کے ہرخطے اور ہر معاشرے میں پیش آتے ہیں ۔ میڈیا میں ان واقعات کے خلاف مسلسل جنگ جاری ہے ، عام سماجی اجتماعات میں ان واقعات کی شدید مذمت ہوتی ہے ۔ پچھلے ہفتہ حرم مکی میں جمعہ کا خطبہ بھی اسی موضوع پر تھا ۔ مسجد الحرم کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہا گھریلو تشدد کے 35 فیصد واقعات دین سے دوری کا نتیجہ ہیں ۔ گھریلو تشدد کا مسئلہ سماجی بگاڑ کی ایک شکل ہے ۔ اس کی وجہ سے پاکیزہ سماجی تعلقات تہہ و بالا ہورہے ہیں ۔
السدیس نے کہا کہ خاندان مسلم معاشرے کی بنیاد کے پتھر کا درجہ رکھتا ہے ۔ اسلام نے خاندان کو بنانے ، سنوارنے اور تحفظ فراہم کرنے کے سلسلہ میں غیر معمولی توجہ دی ہے ۔ انھوں نے واضح کیا کہ خاندان کے افراد کے درمیان رحم دلی ،غم و خوشی میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک رہنا بڑی اہمیت کی بات ہے ۔ اسلام نے خاندان کے تمام افراد کو ایک دوسرے کی دلجوئی ، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں حصہ داری ، ایک دوسرے کی مشکلات اور مسائل کو سمجھ کر نرمی سے کام لینے کی تلقین کی ہے ۔ رحمدلی کو خاندان کے تحفظ کا اساس قرار دیا ہے ۔ امام حرم نے یہ بھی کہا کہ ان دنوں بعض مسلم گھرانوں کے حالات دیکھنے والے لوگ حیرت و استعجاب کا شکار ہورہے ہیں ۔ دراصل خاندان کی خرابی کے محرکات اور اسباب بہت سارے ہیں ۔ کئی چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے خاندان کا ڈھانچہ متزلزل ہورہا ہے ، بنیادیں ہل رہی ہیں ، مسلم گھرانوں پر فکری یورش ہورہی ہے ۔
مسلم گھرانے فکری یورش کی وجہ سے مختلف قسم کے ذہنی دلدل میں پھنس گئے ہیں ۔ ثقافتی چیلنج اور اقدار کو تہہ و بالا کرنے والے حالات خاندانوں کو پریشان کئے ہوئے ہیں ۔ سیٹلائیٹ چینلز پر پیش کئے جانے والے بہت سارے پروگرامز ناظرین کو بہت سارے مسلمہ اصولوں سے دستبردار ہونے ،خاندانوں میں رائج افکار کو پس پشت ڈالنے ، دین کی غیر متزلزل تعلیمات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم چلائے ہوئے ہیں ۔ شوہر بیوی کے تعلقات کے حوالے سے ایسی باتیں پیش کی جارہی ہیں جن کی وجہ سے میاں بیوی ایک دوسرے کی بابت نظریاتی اختلافات کا شکار ہورہے ہیں ۔ معاصر مسلم گھرانے اور افراد اپنے فرائض پر کم اور حقوق پر زیادہ توجہ دینے لگے ہیں ۔ مسلم گھرانے انحطاط اور شکست و ریخت کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں ۔ ان سارے معاملات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صحیح دینداری ناپید ہوتی جارہی ہے ۔ اسلامی شریعت سے ناواقفیت بڑھ رہی ہے ۔ مادیت پرستی طوفان کی شکل میں چھاتی چلی جارہی ہے ۔ سماجی ربط و ضبط کے رشتے مکڑی کے جالے کی طرح ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہیں ۔ طرح طرح سے خاندانی تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ سائنٹفک بنیادوں پر کرائے جانے والے سرویز یہی بتارہے ہیں کہ 35 فیصد تشدد دینی شعور و آگہی کی کمی کی وجہ سے ہورہے ہیں ۔
امام حرم نے کہا کہ خاندانی بگاڑ کی وجہ یہ بھی ہے کہ اولاد کی تربیت کے حوالے سے لاپروائی برتی جارہی ہے ۔ بہت سارے مسلم ملکوں میں ابلاغی پروگرام فکری انحراف و خارجی تصورات و افکار و نظریات سے متاثر ہونے کی راہ ہموار کررہے ہیں ۔ امام السدیس نے کہا کہ خواتین خاص طور پر گھریلو تشدد کا شکار ہورہی ہیں۔ دیگر عام ہونے والی سماجی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام کعبہ نے کہا کہ بعض نوجوان اور لڑکیاں گھروں سے فرار ہونے لگی ہیں ۔یہ سب بری صحبت کا نتیجہ ہے ۔ عصر حاضر میں منفی سوچ رکھنے والے اور انتہا پسندانہ خیالات رکھنے والے بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ بعض لوگ نشہ آور اشیاء استعمال کرنے لگے ہیں ۔ کئی ان اشیاء کی اسمگلنگ اور مارکٹنگ میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ بھی ہیں جو دہشت گردی ، انتہا پسندی ، بغاوت ، مسلم معاشروں کی تکفیر ، غلو ، اعتدال و میانہ روی سے دوری ،جماعتی و فرقہ وارانہ جال میں پھنسنے اور نوجوانوں کو شورش زدہ اور پرفتن مقامات کی طرف ڈھکیل رہے ہیں اور خود بھی اس کا حصہ بن رہے ہیں۔
عصمت ریزی اور خواتین پر ظلم و تشدد کے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون اور سیکورٹی اداروں کی چوکسی اور اس سلسلے میں خود خواتین کی تنظیموں کی کوششیں رنگ لاتی نظر نہیں آرہی ہیں ۔ عصمت ریزی کے معاملات میں مجرمین کو عبرت ناک سزائیں اور ان کے فیصلے تیزی سے سنائے جائیں تو شاید ان گھناؤنے جرم کے ارتکاب کرنے والوں میں خوف پیدا ہوگا ۔ خواتین کے ساتھ ظلم و تشدد ، ناانصافی ، بدکلامی ،بدتمیزی وغیرہ کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا ۔ مگر خواتین پر ظلم و تشدد ان کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات ہر مذہب اور فرقے میں مشترک ہیں ۔ جہاں تک اسلامی شریعت کا تعلق ہے اس میں مرد و عورت کے حقوق اور ذمہ داریاں اچھی طرح واضح کردی گئی ہیں ۔ لیکن پھر بھی مسلم معاشرے میں بھی یہ شرمناک واقعات کی کمی نہیں ۔ جیسا کہ امام کعبہ نے فرمایا اس کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ، شعور و آگہی کی کمی اور تربیت کے حوالے سے لاپروائی ہے ۔
کچھ عرصہ قبل ’’ستیہ میو جئتے‘‘ کے نام سے بنائے گئے ریالٹی شو میں ایک مکمل قسط خواتین پر ظلم و تشدد پر پیش کی گئی تھی ۔ عامر خان کے اس شو کی ابتداء میں عامر خان نے بتایا تھا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں 40 فیصد خواتین اپنے شوہروں کے ظلم و تشدد کا شکار ہیں جبکہ ایک خانگی ادارے کے سروے کے مطابق یہ شرح 60 فیصد سے زائد ہے ۔ اس پر عامر خان نے کہا تھا کہ سرکاری اعداد 40 فیصد اور خانگی شرح 60 فیصد کی بجائے اگر ہم اس شرح کو 50 فیصد مان کر چلتے ہیں تو بھی آج کے متمدن اور ترقی یافتہ دور میں یہ شرح بہت زیادہ اور باعث تشویش ہے ۔ عامر خان کی مانی ہوئی اس 50 فیصد شرح کو ہم تسلیم کرتے ہیں تو اب ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ باقی 50فیصد شادی شدہ جوڑے کیا ایک پرامن اور پرمسرت زندگی بسر کررہے ہیں ؟ یہ سچ ہے کہ خواتین میں صبر و تحمل اور برداشت کا مادہ مرد حضرات کی نسبت زیادہ ہوتا ہے ، لیکن ہر عورت کی ایسی فطرت ہونا ضروری بھی نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ عورت ظلم برداشت کرتی ہے یا خود ظلم کرتی ہے ۔ یعنی وہ درمیانی راستے پر نہیں رہ سکتی ۔ مرد اگر امن پسند اور خاموش طبع ہے تو وہ اپنے پر نکالتی ہے ۔ اپنا تسلط قائم کرکے زندگی کے ہر معاملے میں اپنے غیر درست ، غیر واجبی فیصلے کرتے ہوئے شوہر کی خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے اور اپنی من مانی سے شوہر کی زندگی اجیرن کردیتی ہے ۔ ایسی عورتیں ہر سماج میں موجود ہیں اور ان کی شرح کوئی کم بھی نہیں ۔ مردوں کے ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھانے اور مظلوم عورتوں سے ہمدردی اور ان کی مدد کیلئے مہیلا تنظیمیں بڑی تعداد میں بھی قائم ہیں ۔ لیکن مردوں کو ذہنی اذیت دیتے ہوئے ان کی زندگی جہنم کردینے والی عورتیں اس طرح منظر عام پر لائی نہیں جاتیں ۔ یعنی مردوں کے ساتھ ’’ظالم مارے اور رونے بھی نہ دے‘‘ والا معاملہ درپیش ہے ۔ یا پھر صنف نازک مردوں کو ’’صنف قوی‘‘ تصور کرکے ایسا کرتی ہیں۔
عورتوں کے خلاف ظلم و تشدد کے بارے میں عامر خان کے شو کے دوسرے ہی ہفتہ معروف کالم نگار اور ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر مجید خان نے سیاست میں اپنے ہفتہ واری کالم میں ’’اشاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ کے عنوان سے حیدرآباد کے ایک نوبیاہتا جوڑے کے بارے میں لکھا تھا کہ ایک شکی لڑکی نے کس طرح اپنے شوہر کا جینا حرام کردیا ۔ تفصیلات یوں تھیں کہ اس شکی لڑکی نے دو ماہ کی شادی شدہ زندگی میں اپنے خوش مزاج ، ملنسار ، یارباش ، ہر ماحول میں گھل مل جانے والے شوہر کی زندگی اجیرن کردی ۔ صلاح ، سمجھوتہ ، منانے ، سمجھانے ، بڑے بزرگوں سے رجوع کرنے وغیرہ وغیرہ جیسے تمام طریقے اپنا کر ناکام ہوئے لڑکے نے ماہر نفسیات ڈاکٹر مجید خان صاحب سے بھی رجوع کیا ۔ لیکن اس سب کا نتیجہ صفر ہی رہا ۔ یعنی لڑکی کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہوئی۔ لڑکے نے اس ضدی لڑکی کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ۔ ڈاکٹر مجید خان کے مضمون کے مطابق آخرکار بیچارے لڑکے نے ان حالات میں مناسب یہی سمجھا کہ جلد سے جلد امریکہ واپس لوٹ جائے اور وہاں پر اپنے تمام دوست احباب ، عزیز و اقارب سے تعلقات ختم کرکے لڑکی کی مرضی کے مطابق زندگی گذارے ۔ مضمون نگار نے لکھا تھا کہ یہ لڑکا ایک اعلی تعلیم یافتہ اور امریکہ کی کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلی عہدہ پر فائز ہے ۔ ڈاکٹر مجید خان نے ان سطور پر اپنا مضمون ختم کیا تھا کہ ’’مگر اس لڑکی کو کبھی یہ رحم نہیں آیا کہ اس کو لڑکے کے خاندان والوں کی حد تک کم از کم اپنا رویہ بدلنا چاہئے تھا ۔ نہ تو اس نیکی کی اسکو توفیق ہوئی اور نہ یہ سمجھنے کیلئے تیار تھی کہ اس میں اس کی غور وفکر کی خرابی ہے‘‘ ۔
اب آپ ہی بتایئے کیا اس لڑکی نے اپنے شوہر پر ظلم نہیں کیا ؟ ہم نے یہاں مثال کے طورپر ایک واقعہ پیش کیا جو اخبار میں شائع ہوا اور ایک معتبر ترین قلم کار نے اسے لکھا ، جس کی حقیقت پر شک نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے واقعات ہمارے سماج میں بہت عام ہیں ۔ لڑکیوں کا اپنے سسرالی رشتہ داروں سے نفرت کرنا تو ہمارے معاشرے میں ایک روایت ہے ۔ لڑکیوں کو اپنے سسرالی رشتہ داروں سے نفرت کرنے شوہر کو ان سے دوری اختیار کرنے پر اکسانے جیسے عمل پر نہ ان کا ضمیر ملامت کرتا ہے نہ انھیں خوف خدا ہی کا خیال آتا ہے ۔ اور حیرت کی بات یہ ہیکہ اس میں جاہل ،کم تعلیم یافتہ ، اعلی تعلیم یافتہ ، امیر ، غریب ، دیندار ، بے دین وغیرہ وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ ہم ان واقعات کو مسلم گھرانوں کے تناظر میں دیکھیں تب بھی ہمیں سماج کی عام شرح سے کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا ۔ ایسے لوگ پھر بھی مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔ اس مذہب کے پیرو ہونے کا دم بھرتے ہیں ۔ جس مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ کسی مسلمان کیلئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن تک دشمنی ، بغض ، کینہ دل میں رکھے ۔ ارشاد نبیﷺ ہے کہ کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تک بات چیت کا سلسلہ منقطع رکھے (مسلم و بخاری)
ہم یہاں ستیہ میو جئتے کے خالق عامر خان سے نہیں کہیں گے خواتین پر ظلم کے موضوع کی تصویر کے دوسرے رخ پر بھی کوئی شو پیش کریں ۔ مگر یہ ضرور امید کریں گے کہ ماہرین سماجیات ، مذہبی قائدین ، علماء و دانشور حضرات اس پر توجہ فرمائیں ۔ اس کے اسباب و محرکات کا پتہ چلائیں جس سے کم ازکم ہمارا مسلم معاشرہ ایسے حالات و واقعات سے پاک ہو جس سے دنیا پر ہمارے گرے ہوئے اخلاقی معیار کا اظہار نہ ہو اور ہماری دین سے دوری کا اندازنہ ہو ۔ مسلم گھرانوں میں پیش آنے والے ایسے واقعات میں جو خواتین شوہر کی خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے غلط یا غیر درست فیصلوں سے گھر تباہ کردیتی ہیں ، ان کے تعلق سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی بنیادی تربیت میں نہ اسلامی اقدار کو شامل رکھا گیا نہ دینی نہج پر ان کی اخلاقی تربیت ہوئی ۔ قرآن ختم کروادینا ،صوم و صلوۃ کا پابند بنادینے ہی سے ماں باپ کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اولاد کی مکمل اخلاقی تعلیم اور زندگی کے ہر عمل میں احکامات الہی اور ارشاد نبیؐ کو پیش نظر رکھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات