صلوٰۃ و سلام کے وقت دوسری عبادت میں مشغول ہونا

سوال : مسجد میں سلام پڑھتے وقت کوئی دوسرا عمل جیسے نماز ، تلاوت، ذکر کرنا چاہئے یا نہیں، یا مسجد کے باہر چلے جانا چاہئے ۔ مسجد کے معتمد صاحب کہہ رہے کہ سلام پڑھتے وقت کوئی دوسرا دین کا عمل نہیں کرنا۔ مسجد سے باہر چلے جانا۔ جواب جلدی دیجئے تو مہربانی ہوگی۔
حافظ سعید الدین، فلک نما
جواب : مسجد میں فرض نماز باجماعت ادا ہونے کے بعد مصلی حسب منشاء قرآن کی تلاوت ، ذکر و اذکار اور وظائف صلوٰۃ و سلام میں مصروف ہوسکتا ہے۔ مسجد میں صلوٰۃ و سلام ہورہا ہو اور کوئی مصلی نماز ، قرآن کی تلاوت یا کوئی ذکر کرنا چاہتا ہے تو اس کو اختیار ہے۔ مسجد میں جو لوگ صلوۃ و سلام پڑھ رہے ہیں ، ان کو منع نہیں کرنا چاہئے ، اسی طرح جو صلوٰۃ و سلام میں شریک نہیں ہوئے اور کسی دوسری عبادت میں مصروف ہیں تو ان کو بھی دیگر عبادات مثلاً قرآن کی تلاوت وغیرہ سے منع نہ کریں۔ واضح رہے صلوٰۃ و سلام ہو یا قرآن کی تلاوت اتنی بلند آواز سے نہ ہو جس کی وجہ دوسرے مصلیوں کو ان کی عبادات ، ذکر و شغل میں خلل ہوتا ہو۔ بفحوائے آیت قرآنی یایھاالذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔ اے ایمان والو ! تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور کثرت سے سلام ادا کرو۔ صلوٰۃ و سلام کا حکم مطلق ہے ۔ انفرادی و اجتماعی ، بیٹھ کر کھڑے ہوکر ادا کرنا اس آیت پر عمل کرنے میں شامل ہے۔

قضاء نمازیں بیٹھ کر ادا کرنا
سوال : میری عمر ستر سال ہے اور مجھ پر کئی نمازیں قضاء ہیں اور اب میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں، فرض نماز بیٹھ کر ادا کر رہا ہوں۔ ایسی صورت میں صحت و تندرستی کی حالت میں جو نمازیں قضاء ہوئیں ہیں اس کو میں بیٹھ کر ادا کرسکتا ہوں یا پھر کھڑے ہوکر ہی ادا کرنا ہوگا ؟
مستقیم فاروقی ، ملے پلی
جواب : کوئی شخص حالت مرض و بیماری میں صحت و تندرستی کی حالت میں فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنا چاہتا ہے تو اس کو حسب قدرت بیٹھ کر یا اشارہ سے قضاء کرنے کی اجازت ہے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 138 میں ہے : و ان قضی فی المرض فوائت الصحۃ قضا ھا کما قدر قاعدا او مومئا کذا فی ا لسراحبیۃ۔پس آپ حسب سہولت و قدرت صحت کے زمانہ کی فوت شدہ نمازوں کی قضاء بیٹھ کر ادا کرسکتے ہیں۔

صف میں تنہا نماز پڑھنا
سوال : اگر ہم مسجد میں ایسے وقت داخل ہوں جبکہ جماعت شروع ہوچکی ہو اور پہلی صف مکمل ہوچکی ہو اور دوسری صف میں کوئی بھی کھڑے ہوئے نہ ہو، ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ کیا دوسرے شخص کے آنے کا انتظار کرنا چاہئے ؟ بعض کہتے ہیں کہ پہلی صف میں کسی دوسرے شخص کو لیکر شریک کر لینا چاہئے ۔ تنہا صف میں کھڑے ہوں تو نماز نہیں ہوگی ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ اس سلسلہ میں شرعی احکام کیا ہیں ؟
ای میل
جواب : سوال میں ذکر کردہ صراحت کے مطابق اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہو اگلی صف مکمل ہوچکی ہو اور ساتھ میں کوئی اور نہیں ہے تو ایسے وقت میں بہتر ہے کہ سامنے والی صف سے کسی کو لیکر دوسری صف بنائی جائے۔ بشرطیکہ جس کو آپ پیچھے لے رہے ہیں۔ وہ مسائل سے واقف ہو ورنہ فتنہ ہوگا۔ ایسے وقت میں اگر وہ تنہا صف میں پڑھ لے تو نماز تو ہوجائے گی اور عذر ہو تو کراہت نہیں رہے گی اور بلا عذر تنہا صف میں کھڑے ہوں تو مکروہ ہوگا۔

خطبہ ثانیہ
سوال : اس سے پیشتر خطبہ جمعہ میں خلفاء راشدین و دیگر صحابہ کرام کا ذکر کرنے سے متعلق روشنی ڈالی گئی تھی، تب سے مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ خطبہ جمعہ کے آخر میں تمام ائمہ وخطیب ’’ ان اللہ یأمربالعدل والاحسان‘‘ کی آیت شریف پڑھتے ہیں اور اس پر خطبہ ختم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟
کامران احمد، ریڈ ہلز
جواب : ابوالحسنات علامہ محمد عبدالحی لکھنوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے فتاوی میں اس کی وجہ بیان کرتے ہیںکہ بنوامیہ کے فرما نروا خلیفہ رابع، شہنشاہ ولایت، شیر خدا ، حیدر کرار ، فاتح خیبر حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ پر خطبہ ثانیہ کے آخر میں طعن و تشنیع کیا کرتے تھے ، جب بنوامیہ میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز سریرآ رائے سلطنت ہوئے تو آپ چونکہ نہایت خدا ترس ، دیندار عبادت گزار ، زہدو تقوی کے پیکر تھے، آپ نے بنو امیہ کے حکمرانوں کے اس مذموم طریقہ و رواج کو ختم کردیا اور متذکرہ بالا آیت قرآنی خطبہ ثانیہ کے آخرمیں تلاوت کرنا طئے کیا جس پر امت کا عمل نسل در نسل توارث کے ساتھ چلا آرہا ہے ۔
نفع المفتی والسائل ص : 84 میں ہے : کانت ملوک بنی امیۃ یفتحون لسان الطعن علی الخلیفۃ الرابع فی آخر الخطبۃ الثانیہ فلما ولی عمر بن عبدالعزیز و کان و رعا متدینا عابد ازا ھدا نسخ ھذا المروج و قرر قراء ۃ ھذہ الایۃ فی آخرالخطبۃ الثانیۃ۔
سورج سے گرم ہوئے پانی سے وضو؟
سوال : حضرت آدم علیہ السلام پہلے پیغمبر ہیں اور حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کہا جاتا ہے ۔ کیا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان کوئی پیغمبر ہوئے ہیں اور کیا حضرت یونس علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ہیں یا بعد میں ؟
(2 نماز فجر کے فرض کے بعد اور نماز عصر کے فرض کے بعد تسبیح فاطمہ پڑھ کر ہتھیلیوں پر پھونک کر بدن پر ملنا کیا ہے ؟ کیسا ایسا کرسکتے ہیں ؟
(3 سورج کی تمازت سے جو پانی گرم ہوتا ہے اس سے وضو کرنا کیسا ہے ؟
سید اکبر، قاضی پورہ
جواب : حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ ا لسلام کے درمیان متعدد انبیاء جیسے حضرت شیث ، حضرت آنوش ، حضرت اخنون یعنی حضرت ادریس کے علاوہ دیگر انبیاء علیھم السلام کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ حضرت نوح کے زمانے میں طوفانِ نوح کی بناء ساری دنیا غرق ہوکر ختم ہوگئی تھی، پھر حضرت نوح علیہ السلام ، بعد طوفان پہلے نبی تھے۔ پھر ایک نئی دنیا کا وجود ہوا، اس لئے آپ کو آدم ثانی بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کئی انبیاء اور کئی صدیوں بعد حضرت یونس علیہ السلام کا عہد شروع ہوتا ہے۔
(2 احادیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمانے سے قبل ’’ معوذتین‘‘ اور دیگر آیات قرآنی تلاوت فرماکر دم کرلیا کرتے تھے ۔ لہذا اگر کوئی بعد نماز فجر اور بعد نماز عصر تسبیح فاطمی پڑھ کر ہتھیلیوں پر پھونک کر بدن پر مل لے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔
(3 سورج کی تمازت سے گرم ہوئے پانی سے شرعاً وضو کیا جاسکتا ہے۔ طبی نقطہ نظر سے کوئی بات ہو تو وہ الگ بات ہے۔

دینی معاملات میں اعتدال
سوال : شریعت مطھرہ میں عبادات کو کافی اہمیت ہے لیکن کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہم کو ساری مصروفیات ترک کر کے صرف اور صرف عبادت الہی میں مشغول ہونا چاہئے۔ اگر ہم ساری زندگی عبادت الہی میں ‘ سر بسجود رہیں تب بھی ہم اس کی عبادت کا حق ادا نہں کرسکتے۔ شادی بیاہ ‘ کاروبار کیا یہ اعمال دنیوی ہیں۔ سب چیزوں کو چھوڑ کر کیا ہمیں عبادت الہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجانا چاہئے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں شرعی احکام سے رہنمائی فرمائیں ۔
عبدالملک، فرسٹ لانسر
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اور دینی مسائل کے بارے میں اتنے اہتمام کے باوجود آپؐ کو رہبانیت (ترک دنیا) کا اسلوب قطعی ناپسند تھا۔ اگر کسی صحابی نے اپنے طبعی میلان کی وجہ سے آپؐ سے اجازت مانگی بھی تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ۔ خود آپؐ کا جو طرز عمل تھا اسے آپؐ نے یوں بیان فرمایا : ’’ میں اللہ سے تم سب کی نسبت زیادہ ڈرنے والا ہوں ‘ مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا‘ نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور اسی طرح عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ‘‘ پھر فرمایا : ’’ یہی میرا طریقہ (سنت) ہے۔ جس نے میرے طریقے کو چھوڑا وہ میری امت میں سے نہیں‘‘ (البخاری ‘ 411:3 ‘ کتاب النکاح ‘ باب 41 ‘ مطبوعہ لائیڈن) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ و بن العاص نے آپؐ سے ’’ مسلسل اور ہمیشہ روزے ‘‘ رکھنے کی اجازت مانگی تو فرمایا : ’’ زیادہ سے زیادہ تم صوم داؤد ‘ یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتے ہو‘‘ پھر فرمایا : ’’ تیرے بدن کا بھی حق ہے‘ تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ (کتاب مذکور ‘ 1 : 443 ‘ کتاب الصوم ‘ باب 56 ‘ 57 ) ۔ ایک اور موقع پر حضرت ابو ہریرہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ نے عدم استطاعت نکاح کی وجہ سے اپنے آپ کو جسمانی طور پر ازدوای زندگی کے ناقابل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ( کتاب مذکور ‘ 3 : 413 تا 414 ) ۔ ایک صحابیؓ نے دنیا کے تمام بندھنوں سے الگ ہوکر ایک غار میں معتکف ہوکر عبادت الٰہی کرنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا : ’’ میں یہودیت یا عیسائیت کی طرح رہبانیت کی تعلیم نہیں لے کر آیا‘ بلکہ مجھے تو آسان اور سہل دین ‘ دین ابراہیم ملا ہے ‘‘ (احمد بن حنبل : مسند 266:5 )
کتب حدیث و سیرت میں مذکور اس طرح کے بے شمار واقعات سے اس بات کی بخوبی شہادت ملتی ہے کہ آپؐ کو عیسائیت کے راہبوں اور بدھ مت کے بھکشوؤں کی طرح دنیا اور اس کے رشتوں سے قطع تعلق کرنا ہرگز گوارا نہ تھا ۔ آپؐ اسے ایک طرح کا عملی زندگی سے فرار اور قنوطیت سمجھتے تھے اور آپؐ کے نزدیک زندگی کی طرف یہ منفی رویہ کسی عالمگیر اور پائیدار مذہب(اور اس کے بانی) کے شایان شان نہیں تھا۔ اس کے بالمقابل آپؐ کے رویے میں امید و رجا کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔ آپؐ کا مسلک یہ رہا کہ دنیا میں رہکر دنیا کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اگر آپؐ کا کام رہبانیت یعنی خود کو برائی سے بچانے تک محدود ہوتا تو آپؐ کو اپنی عملی زندگی میں اتنی مشکلات اور مصائب و آلام کا ہرگز سامنا نہ کرنا پڑتا۔

نماز میںآیت الکرسی پڑھنا
سوال : آپ سے سؤال کرنا یہ ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد ’’ آیۃ الکرسی‘‘ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ۔ میرے علم میں ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد کم از کم تین آیات تلاوت کرنی چاہئے۔ بعض کا کہنا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی پڑھ سکتے۔ کیا یہ صحیح ہے ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جلد سے جلد آگاہ فرمایئے۔ تاکہ جو کوئی بھی غلطی پر ہے وہ درست کرسکے۔
عافیہ بی بی ، خلوت
جواب : سورہ فاتحہ کے بعد تین مختصر آیتیں یا ایک طویل آیت پڑھنے کا حکم ہے ۔ آیت الکرسی ایک آیت ضرور ہے مگر طویل ہے۔ اس لئے نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی پڑھ سکتے ہیں۔