صلوٰۃ و سلام کے وقت دوسری عبادت میں مشغول ہونا

سوال : مسجد میں سلام پڑھتے وقت کوئی دوسرا عمل جیسے نماز ، تلاوت، ذکر کرنا چاہئے یا نہیں، یا مسجد کے باہر چلے جانا چاہئے ۔ مسجد کے معتمد صاحب کہہ رہے کہ سلام پڑھتے وقت کوئی دوسرا دین کا عمل نہیں کرنا۔ مسجد سے باہر چلے جانا۔ جواب جلدی دیجئے تو مہربانی ہوگی۔
محمد مراد، گچی باؤلی
جواب : مسجد میں فرض نماز باجماعت ادا ہونے کے بعد مصلی حسب منشاء قرآن کی تلاوت ، ذکر و اذکار اور وظائف صلوٰۃ و سلام میں مصروف ہوسکتا ہے۔ مسجد میں صلوٰۃ و سلام ہورہا ہو اور کوئی مصلی نماز ، قرآن کی تلاوت یا کوئی ذکر کرنا چاہتا ہے تو اس کو اختیار ہے۔ مسجد میں جو لوگ صلوۃ و سلام پڑھ رہے ہیں ، ان کو منع نہیں کرنا چاہئے ، اسی طرح جو صلوٰۃ و سلام میں شریک نہیں ہوئے اور کسی دوسری عبادت میں مصروف ہیں تو ان کو بھی دیگر عبادات مثلاً قرآن کی تلاوت وغیرہ سے منع نہ کریں۔ واضح رہے صلوٰۃ و سلام ہو یا قرآن کی تلاوت اتنی بلند آواز سے نہ ہو جس کی وجہ دوسرے مصلیوں کو ان کی عبادات ، ذکر و شغل میں خلل ہوتا ہو۔ بفحوائے آیت قرآنی یایھاالذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔ اے ایمان والو ! تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور کثرت سے سلام ادا کرو۔ صلوٰۃ و سلام کا حکم مطلق ہے ۔ انفرادی و اجتماعی ، بیٹھ کر کھڑے ہوکر ادا کرنا اس آیت پر عمل کرنے میں شامل ہے۔

چھوٹے بچوں کا قرآن پڑھنا
سوال : میرا لڑکا چار سال کا ہے اور لڑکی 6 سال کی ہے۔ لڑکی سمجھدار ہے اور وہ قرآن مجید پڑھتے وقت وضو کا اہتمام کرتی ہے۔ البتہ لڑکا قرآن مجید پڑھتے وقت کبھی وضو کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔کیا ناسمجھ و کم عمر بچے کو قرآن مجید تلاوت کرنے کیلئے قرآن پاک دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اگر وہ بے وضو قرآن مجید پڑھ لے تو کیا اس کا گناہ اس کو اور اس کے ماں باپ کو ہوگا؟
ممتاز بیگم ، مہدی پٹنم
جواب : کمسن بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم کیلئے قرآن مجید دینا شرعاً درست ہے، ان کو طہارت اور وضو کی ترغیب دینا چاہئے اور اگر کبھی وہ بے وضو قرآن مجید چھولیں یا ہاتھ سے چھوکر تلاوت کریں تو ایسی صورت میں ان پر اور نہ ان کے ماں باپ پر کوئی وزر اور گناہ نہیں۔ عالمگیری جلد اول صفحہ 39 میں ہے : ولا باس بدفع المصحف الی الصبیان وان کانوا محدثین وھوا لصحیح ھکذا فی السراج الوہاج۔

مطاف میں نمازی کے آگے سے گزرنا
سوال : گزشتہ سال میں حج کو گیا تھا ، متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ میں طواف کر رہا تھا کہ اس اثنا میں ایک شخص اچانک نماز شروع کردیا اور اس کے پیچھے سے بھی جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ ایسی صورت میں کیا طواف کرنے والے کا نمازی کے آگے سے گزرنا صحیح ہے یا وہ نمازی کے آگے سے گزرنے والے سے متعلق وعید کا مستحق ہوگا۔
محمد مزمل خان، پھسل بنڈہ
جواب : کعبہ شریف کے پاس ایسی صورت ہوجائے کہ دوران طواف کوئی شخص نماز شروع کردے اور اس کے پیچھے سے جانے کا کوئی راستہ نہ ہو تو وہ اس کے آگے سے گزر سکتا ہے ۔ اس کو عام حالات میں نمازی کے آگے سے گزرنے والے کا گناہ نہیں ہوگا۔ ردالمتحار جلد دوم کتاب الحج ص : 552 میں ہے : …عزالدین بن جماعۃ عن مشکلات الاثار للطحاوی ان المرور بین یدی المصلی بحضرۃ الکعبۃ یجوزاھ۔

نماز میں ایک سورہ چھوڑ کر دوسرا سورہ پڑھنا
سوال : چند دن قبل ہماری مسجد کے امام صاحب نماز فجر میں تشریف نہیں لائے، لوگوں نے مجھ سے خواہش کی تو میں امامت کیلئے آگے بڑھا اور پہلی رکعت میں سورۃ المزمل شروع کیا جو میں روزانہ پابندی سے پڑھتا ہوں، دورانِ قرات مجھے خیال ہوا کہ آگے بڑھ کر کہیں میں اٹک نہ جاؤں کیونکہ مجھے ایک دو جگہ شبہ ہورہا تھا تو میں نے سورہ المزمل کی بجائے سورہ یسین کی تلاوت شروع کردی اور تقریباً ایک رکوع پڑھ کر رکوع کیا اور دوسری رکعت میں سورۃ الاعلی پڑھا۔ نماز تو ہوگئی ، سب اپنے گھر واپس ہوگئے ۔ مغرب میں ایک صاحب ملے اور انہوں نے کہا کہ آپ نے سورۃ المزمل کی پانچ چھ آیتیں پڑھنے کے بعد سورہ یسین شروع کردی اور آپ نے سجدہ سہو بھی نہیں کیا ۔ اس کے بعد سے مجھے خلش ہے کہ نماز فجر ادا ہوئی یا نہیں۔
اس بارے میں شرعی احکام سے آگاہ فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
برہان الدین ، بہادر پورہ
جواب : نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد کسی سورہ کی چند آیتیں پڑھ کر اس کو چھوڑ دینا اور دوسری سورت شروع کردینا مکروہ ہے۔ تاہم اس سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا۔ عالمگیری جلد اول صفحہ 79 ء میں ہے: افتتح سورۃ وقصد سورۃ آخری فلما قراء آیۃ او آیتین اراد ان یترک السورۃ و یفتتح التی ارادھا یکرہ ، و کذا لوقراء اقل من آیۃ و ان کان حرفا۔ پس صورت مسئول عنہا میں نماز ادا ہوچکی، ایک سورت کی چند آیتیں پڑھ کر کسی شبہ یا اندیشے کی بناء دوسری سورت شروع کردینے سے سجدہ سہو کا لزوم نہیں ہوتا۔ البتہ اس طرح کا عمل شرعاً پسندیدہ نہیں۔

جمعہ کے خطبہ کے دوران تحیۃ المسجد پڑھنا
سوال : جمعہ کی نماز کے لئے بسا اوقات جب ہم داخل ہوتے ہیں تو خطبہ جمعہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہم تحیۃ المسجد ادا کرسکتے ہیں یا نہیں، میں نے عرب ممالک میں دیکھا ہے کہ عرب حضرات مسجد میں داخل ہوتے ہی دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھتے ہیں۔ اگر خطبہ شروع ہوجائے تو بھی وہ ترک نہیں کرتے لیکن ہندوستان میں ہم عموماً خطبہ شروع ہونے کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ہمارا عمل صحیح ہے ؟ کیا اس کا حد یث میں کوئی ثبوت ہے ۔ نیز بہتر عمل دونوں میں کیا ہے۔ واضح کیجئے۔
حافظ سید امتیاز علی، مصری گنج
جواب : احناف کے نزدیک خطبہ کے دوران گفتگو کرنا ، قرآن کی تلاوت کرنا اسی طرح نماز پڑھنا منع ہے ۔ امام شافعی کے نزدیک اگر کوئی شخص مسجد میں ایسے وقت داخل ہو جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اس کو ہلکی دو رکعتیں پڑھ لینی چاہئے ۔ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ حضرت سلیک غطفانی جمعہ کے دن داخل ہوئے جبکہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے نماز پڑھ لی۔ انہوں نے کہا: نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو رکعت نماز پڑھ لو۔ روی عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ انہ قال ’’دخل سلیک الغطفانی یوم الجمعہ ۔ والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب فقال لہ اصلیت قال لا قال : فصل رکعتیں فقد امرہ بتحیۃ المسجد حالۃ الخطبۃ۔
احناف کی دلیل ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ فاستمعوا لہ وانصتوا (سورۃ الاعراف 204 ) جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو تم اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔ اس آیت کے نزول کے بعد مذکورہ حدیث شریف منسوخ ہوگئی ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیک غطفانی کو دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں امام کے خطبہ کے دوران نماز پڑھنے سے منع کردیا ۔ روی عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امر سلیکا ان یرکع رکعتین ثم نھی الناس ان یصلوا والامام یخطب۔ (بدائع صنائع جلد اول ص : 593 ) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ وہ دونوں جمعہ کے دن امام کے خطبہ کیلئے نکلنے کے بعد نماز اور کلام دونوں کو ناپسند کیا کرتے تھے۔ عن ابن عباس وابن عمر انھماکانا یکرھان الکلام و الصلاۃ بعد الجمعۃ بعد خروج الامام۔ بنایۃ 1012/2 ۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب امام نکلے (خطبہ کیلئے) تو نہ کوئی نماز ہے اور نہ ہی گفتگو ہے۔ (موطا امام مالک) پس جب کوئی جمعہ کے دن مسجد میں ایسے وقت داخل ہو جبکہ امام خطبۂ جمعہ شروع کردیا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ بیٹھ جائے اور توجہ سے خطبہ سنے۔

مہر معاف کرنے کے بعد مطالبہ کرنا
سوال : میری بہن شادی کے ابتدائی ایام میں اپنے شوہر کے ذمہ جو واجب الادا مہر تھا اس کو معاف کردیا اور وہ اپنی مرضی اور خوشی سے بغیر کسی زبردستی کے یہ کام انجام دی ۔ اب جبکہ شادی ہوئے تقریباً 15سال گزرچکے وہ دوبارہ اس کے معاف شدہ مہر کو طلب کر رہی ہے۔ آیا میری بہن کا مطالبہ ازروئے شرع درست ہے ؟
روبینہ کوثر ، ٹولی چوکی
جواب : مہر عورت کا حق ہے جو شوہر کے ذمہ واجب ہے ۔ تاوقتیکہ وہ اس کو ادا کردے یا بیوی اپنی خوشی سے اس کو معاف کردے۔ اگر عورت شوہر کے ذمہ واجب الادا مہر بغیر کسی جبر اپنی رضا و خوشی سے معاف کردے تو یہ شوہر کے ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے اور عورت کو دوبارہ اس کے طلب کرنے کا حق نہیں رہتا جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ جلد 1 صفحہ 171 میں ہے : واذا أبرأت المراۃ زوجھا عن المھر و اسقطت حقھا منہ لایکون لھا الرجوع من ذلک۔
پس صورت مسئول عنھا میں آپ کی بہن نے اپنا حق مہر اپنی خوشی و رضامندی سے معاف کردیا تھا تو اب ان کو شوہر سے مہر طلب کرنے کا شرعاً کوئی حق نہیں۔

ظہر کی سنت
سوال : حال میں میں ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا لیکن دوسری رکعت پر بیٹھا نہیں کھڑا ہوگیا ۔ بعد میں تیسری چوتھی رکعت مکمل کیا اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرلیا ۔ ا یک عالم صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ کی نماز ہی نہیں ہوئی ، دو رکعت کے قعدہ میں بیٹھنا ضروری تھا اور آپ نے اس کو ترک کردیا۔ ایسی صورت میں کیا حکم ہے ؟ کیا میری نماز ہوئی یا نہیں ؟
سید واجد، نامپلی
جواب : کوئی شخص ظہر کی سنت ادا کر رہا ہو اور دو رکعت پر بیٹھنا بھول جائے اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوجائے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے تو شرعاً اس کی نماز مکمل ہوگئی ۔ عالمگیری جلد اول ص : 112 میں ہے : ولو صلی الاربع قبل الظھر ولم یقعد علی رأس الرکعتین جاز استحسانا کذا فی المحیط۔
اور ص : 113 میں ہے : رجل صلی أربع رکعات تطوعا ولم یقعد علی رأس الرکعتین عامدا لاتفسد صلاتہ استحسانا وھو قولھما و فی القیاس تفسد صلاتہ۔
نکاح فاسد میں نفقہ
سوال : زید نے رشیدہ کو نکاح میں رکھتے ہوئے اس کی بہن حمیدہ سے نکاح کرلیا گھر والوں کو اس کی اطلاع نہ ہوئی، بعد ازاں گھر والوں کو اس کا علم ہوا ، دونوں کو علحدہ کردیا گیا ، طلاق نامہ بھی باضابطہ حاصل کرلیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ زید پر حمیدہ کے ایام عدت کا نفقہ دینا لازم ہوگا یا نہیں ؟
نام …
جواب : شرعاً حمیدہ کو نفقہ عدت نہیں ملے گا ۔ اگرچہ اس پر عدت کا لزوم ہے ۔ بدائع صنائع جلد 3 ص : 425 میں ہے : ولو تزوج اخت امرأتہ … ولا نفقۃ لأختھا وان وجبت علیھا العدۃ ، لانھا معتدۃ من نکاح فاسد