مہنگائی سے عوام پریشان…حکومت بے حس
کشمیر میں دراندازی … ملک کی سلامتی سے کھلواڑ
رشیدالدین
اچھے دن کا نعرہ جو انتخابات میں عوامی تائید حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا تھا، آج عوام کے مسائل میں اضافہ کاسبب بن چکاہے ۔ نریندر مودی نے ہر گھر میں اچھے دنوں کا وعدہ کیا تھا لیکن حکومت کے دو سال کی تکمیل پر مہنگائی نے غریب اور متوسط خاندانوںکو معاشی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اشیائے ضروریہ اور ترکاری کی آسمان چھوتی قیمتوں نے عوام کے چہرے سے مسکراہٹ کو چھین لیا ہے۔ یوں تو سابق میں بھی گرانی نے عوام پر بوجھ عائد کیا تھا لیکن نریندر مودی سرکار کے دو سال کی تکمیل پر عوام کو جو تحفہ ملا ہے، اس سے عوام دال اور ٹماٹر سے بھی محروم ہوچکے ہیں جو کہ غریبوں کے گزارے کا اہم سہارا ہیں ۔ اچھے دن کا نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کرنے والوں کو آج اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ عوام کو اس کمرتوڑ مہنگائی سے کس طرح نجات دلائی جائے ۔ نریندر مودی کو اس بات کی تو فکر ہے کہ ہندوستان نیوکلیئر سربراہ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا جائے۔ مودی کو اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کی فکر ہے۔ نیوکلیئر سربراہ کرنے سے زیادہ مودی سرکار کو دال اور سبزی عوام تک پہنچانے کی فکر کرنی ہوگی۔ نیوکلیئر سربراہی سے ہلاکت خیز اور تباہ کن ہتھیار تیارکئے جاسکتے ہیں جبکہ اشیائے ضروریہ کے ذریعہ غریبوں کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔ عوام کو فاقہ کشی اور بھوک مری سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ ایک طرف تباہی کا سامان ہے تو دوسری طرف زندگی بچانے کی حکمت عملی۔ نریندر مودی اپنے سابقہ ریکارڈ کے پس منظر میں اب دیکھنا ہے کہ کس چیز کو ترجیح دیںگے؟ مہنگائی میں اضافہ اور عام آدمی کی پریشانی پر وزیراعظم مہر بہ لب ہیں جبکہ دیگر سیاسی امور پر الہ آباد میں پارٹی عاملہ میں فن خطابت کا مظاہرہ کیا۔ گزشتہ دو برسوں میں مہنگائی میں بتدریج اضافہ کا رجحان برقرار ہے۔ حالات اس قدر ابتر ہوچکے ہیں کہ حکومت دال برآمد کرنے پر مجبور ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھے دن کا وعدہ کرنے والی حکومت نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کیوں نہیں کیا۔
ملک میں پیداوار کے حساب سے کم پیداوار والی اشیاء درآمد کرنے میں تاخیر کیوں ہوئی ؟ اس صورتحال کیلئے آخر کون ذمہ دار ہے ؟ مہنگائی جیسے سنگین مسئلہ پر وزیراعظم کی بے اعتنائی پر فرانس کی ملکہ کا واقعہ یاد آگیا۔ جب ملک میں قحط سالی سے عوام پریشان ہوگئے اور غذا سے محرومی کے بعد مہارانی کے محل کے پاس جمع ہوئے تو وجہ دریافت کی گئی۔ انہیں بتایاگیا کہ عوام کو روٹی میسر نہیں ہے اور وہ اپنی فریاد لیکر آئے ہیں۔ ملکہ نے برجستہ کہا کہ اگر روٹی میسر نہیں ہے تو کیک کھالیں۔ شاید نریندر مودی بھی عوام کو دال اور ترکاری کے بجائے پیزا اور برگر کھانے کا مشورہ دیں۔ کسی بھی حکومت کے بنیادی فرائض میں عوام کو خوشحال رکھنا اور ملک کو ویلفیر اسٹیٹ میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ نریندر مودی نے انتخابات سے قبل جو وعدے کئے تھے ، ان میں ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ اچھے دن کا نعرہ تو عوام کیلئے گالی بن چکا ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر قابو پانے کے بجائے حکومت سرمایہ داروںاور صنعتی گھرانوں کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ اگر قیمتوں میں کمی ہوجائے تو ان صنعتی گھرانوںکا کیا ہوگا جنہوں نے ملک بھر میں بڑے مال قائم کئے ہیں اور ہر الیکشن میں برسر اقتدار پارٹی کو بھاری فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں حکومت کو عوام سے زیادہ ادیوگ پتی گھرانوں کے مفادات کی فکر ہوگی۔ عوام کی جیب خالی کرتے ہوئے صنعتی گھرانوں کا احسان چکانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی یہ قلت بسا اوقات صنعتی گھرانوں کی پیدا کردہ ہوتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ کے بعد وہ اپنے گودام کھول دیتے ہیں۔ گزشتہ 6 ہفتوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 4 مرتبہ اضافہ کیا گیا۔ ان قیمتوں سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا راست تعلق ہوتا ہے۔ عالمی منڈی میں جب فی بیارل پٹرول کی قیمت 80 ڈالر سے گھٹ کر 35 تا 40 ڈالر تک پہنچ گئی، اس وقت ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اسی تناسب سے کمی نہیں کی گئی۔ اگر یہ کام کیا جاتا تو یقینی طور پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی۔ برخلاف اس کے عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت میں معمولی تبدیلی پر مرکز نے گزشتہ دنوں پٹرول پر 5 پیسے فی لیٹر اضافہ سے بھی گریز نہیں کیا۔
واہ رے اچھے دن کہ حکومت 5 پیسے کا بوجھ بھی برداشت کرنے تیار نہیں ہے جبکہ ہرشہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ کہاں ہے کالا دھن ؟ دراصل کالے دھن کے نام سے دھمکاکر صنعتی گھرانوں کو حکومت کی تابعداری پر مجبور کیا گیا جبکہ بھولے بھالے عوام اکاؤنٹ میں رقم کا انتظار کرتے رہے۔ اچھے دن ضرور آئے مگر ان صنعتی گھرانوں کیلئے جنہوں نے بی جے پی کو الیکشن فنڈس فراہم کئے تھے۔ امبانی اور اڈانی کے بھی اچھے دن آئے کیونکہ ان کے سر پر نریندر مودی کا ہاتھ ہے۔ اڈانی ملک کے مختلف بینکوںکو کئی ہزار کروڑ باقی ہیں لیکن انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے جبکہ وجئے ملیا کو اڈانی سے کم رقم کے معاملہ میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جیسے جیسے ریاستوں کے انتخابات ہورہے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ شاید حکومت صنعتی گھرانوں کے فنڈس کا احسان بروقت چکا رہی ہے۔ وزیراعظم نے بظاہر اعتراف کیا کہ اب ملک میں نعروں کی سیاست نہیں چلے گی لیکن ان کا اوران کی حکومت کا سارا انحصار صرف نعروں پرہے۔ دو سال کی تکمیل کے بعد جب جشن کا آغاز کیا گیا تو کئی نئے وعدے اور نعرے شامل کئے گئے۔ مہنگائی جیسے اہم مسئلہ پر حکومتوں کی بے اعتنائی کیلئے عوامی بے حسی بھی ذمہ دار ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کو عوام کسی نہ کسی طرح قبول کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔ ایسے میں ادیوگ پتی گھرانوں کے خزانے بھر رہے ہیں۔ کسی جذباتی مسئلہ پر تو عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں لیکن اپنی زندگی سے جڑے مسئلہ پر بے حسی ۔ سیاسی جماعتیں بھی عوام میں شعور بیداری میں ناکام ہوچکی ہیں۔ ویسے بھی آج ان قائدین کی کمی ہے جنہیں حقیقی معنوں میں غریبوں کا ہمدرد اور نمائندہ کہا جاتا تھا ۔ آج کے قائدین کسی نہ کسی صنعتی گھرانے سے جڑے ہوئے اور ان کے مفادات کی تکمیل میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ مہنگائی کے مسئلہ پر سابق میں حکومتیں زوال سے دوچار ہوچکی ہیں۔ مرکز میں جنتا پارٹی کی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور حال ہی میں پیاز نے دہلی میں بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کیا۔
نریندر مودی حکومت ایک طرف عوامی مسائل کی یکسوئی میں ناکام ہے تو دوسری طرف ملک کی سلامتی اور سرحدوںکی حفاظت میں مجرمانہ غفلت نے دراندازی کے واقعات میں اضافہ کردیا ہے۔ آئے دن دراندازی ، سی آر پی ایف اور فوجی چوکیوں پر حملہ کے واقعات میں جوانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ اندرون ملک اور پھر ملک کی سرحد دونوں محاذوں پر حکومت کی ناکامی نے قومی سلامتی کے بارے میں بی جے پی اور مودی کے دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کردیا ہے۔ مرکز اور کشمیر میں بی جے پی کا اقتدار ہے، پھر بھی سرحدوں کی حفاظت میں کیا چیز مانع ہے۔ کہاں گئے وہ دعوے جو انتخابات سے قبل سرحد پار دراندازی اور پاکستان کو سبق سکھانے کے بارے میں کئے گئے تھے۔ جموں و کشمیر میں وقفہ وقفہ سے دراندازی اور جوانوںکو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان خبروںکو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے سنسر کیا جارہا ہے تاکہ بدنامی سے بچا جاسکے۔ یو پی اے دور حکومت میں اس طرح کا ایک بھی واقعہ ہوتا تو بی جے پی آسمان سر پر اٹھالیتی اور سنگھ پریوار نے تو یہاں تک اعلان کردیا تھا کہ اس کے کارکنوں کو سرحد پر تعینات کیا جائے تو وہ پاکستان کو سبق سکھائیں گے۔ آج جبکہ بی جے پی کی حکومت ہے، سنگھ پریوار اس طرح کا مطالبہ نہیں کر رہی ہے۔ پٹھان کوٹ میں فضائیہ کے اڈہ پر حملہ کے باوجود سرحدوںکی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حد تو یہ ہوگئی کہ سرینگر کے قلب شہر میں حملوں کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ بی جے پی کب تک صرف حب الوطنی کے دعوؤں سے عوام کو مطمئن کرے گی ؟ صرف دعوے نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ جب تک ملک کی سرحدیں محفوظ نہ ہوں ، اس وقت تک داخلی سلامتی کو خطرہ برقرار رہتا ہے ۔ انتخابات سے قبل نریندر مودی نے پاکستان کو لو لیٹر بند کرنے اور اسی کی زبان میں جواب دینے کا مشورہ دیا تھا لیکن وزیراعظم بنتے ہی ان کا رویہ تبدیل ہوگیا اور وہی پاکستان ان کا جذباتی اور جگری دوست بن چکا ہے۔ پٹھان کوٹ حملہ اور دراندازی کے تسلسل کے باوجود نریندر مودی کو نواز شریف کی سالگرہ کی فکر ہے۔ دہشت گرد حملہ میں شہید فوجی جوانوں کے خاندانوں کو بھلے ہی مودی نے پرسہ نہیں دیا لیکن نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد دینے بن بلائے مہمان کی طرح پاکستان پہنچ گئے۔ اپوزیشن میں رہ کرمقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا مشورہ دینے والے آج پاکستان کے قریبی دوست بن چکے ہیں۔ مودی۔نواز شریف دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف نے اپنی بائی پاس سرجری کے لئے آپریشن تھیٹر میں داخلہ سے قبل اپنے کسی استاد ، مرشد یا اپنی والدہ کی دعاء نہیں لی بلکہ مودی کو فون کر کے ان کی دعائیں لیں۔ آخر اس دوستی کے پس پردہ کون ڈور ہلا رہا ہے؟ دونوں ممالک جو کبھی کشیدگی کیلئے مشہور تھے ، انہیں دوستی کے نام پر قریب کردیا گیا اور کوئی تیسری طاقت اپنے مفادات کی تکمیل کر رہی ہے۔ ایسے تعلقات سے کیا فائدہ جس میں ملک کی سرحدیں اور فوجی جوانوں کی زندگیاں محفوظ نہ ہوں۔ منور رانا نے مہنگائی پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
کھیتیاں خون پسینہ بھی طلب کرتی ہیں
صرف نعروں سے غریبی نہیں جانے والی