سدھارتھ ورداراجن
جہاں تک انتخابات میں کامیابی یا شکست کی بات ہے نشستوں کی تعداد مدنی رکھتی ہے ۔ ان ہی نشستوں سے کسی بھی نتیجہ کے سیاسی عواقب کا فوری طور پر پتہ چل سکتا ہے ۔ جہاں تک کرناٹک انتخابات کا سوال ہے وہاں بی جے پی کی جو انتخابی کارکردگی رہی ہے وہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کیلئے حوصلہ افزا نہیں کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان نتائج نے کانگریس اور اس کے نئے صدر راہول گاندھی کیلئے اتنی زیادہ کچھ نقصان پہونچایا ہے ۔ حالانکہ یہ کانگریس کی شکست ضرور ہے ۔ بی جے پی کیلئے یہ کامیابی زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہوسکتی کیونکہ اسے واضح اکثریت حاصل نہیں ہو پائی ہے ۔
جہاں تک کانگریس پارٹی کا سوال ہے کانگریس کو اپنے آپ میں ایک نئی جان پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ جاریہ سال کے اواخر تک اہم ترین ریاستوں راجستھان ‘ چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش اور میزورم میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان ریاستوں میں حالانکہ کانگریس کا موقف اچھا کہا جا رہا ہے لیکن کرناٹک میں کانگریس کی شکست سے اس کے حوصلوں پر اثر ضرور ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ دیکھا جائے کہ کرناٹک میں کانگریس کے حق میں کیا بات رہی اور کیا بات اس کے خلاف رہی تو صورتحال کو سمجھنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ ان نتائج میں کانگریس کی نشستوں کی تعداد میں حالانکہ کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے ووٹوں کے تناسب میں ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔ 2013 میں بی جے پی کو 19.8 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔ اس وقت ایڈورپا اور سری راملو بی جے پی سے الگ تھے اور ان کی پارٹیوں کو بھی جو ووٹ ملے تھے ان کو مجتمع کرلیا جائے تو یہ تناسب 32.4 فیصد ہوجاتا ہے ۔ اب یہ دونوں بی جے پی کے ساتھ ہیں ۔ ایسے میں مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے 4.8 فیصد ووٹوں کا اضافہ کیا ہے ۔ اب یہ بات قابل غور ہے کہ جب بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی کے ووٹوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے تو نقصان کس کا ہوا ہے ؟ ۔ ان دونوں جماعتوں نے جے ڈی ایس کے ووٹ بینک پر قدغن لگایا ہے ۔ اس کے علاوہ دوسری چھوٹی جماعتوں کے ووٹ بھی ختم ہوگئے ہیں۔ جنتادل ایس کو پہلے 20.2 فیصد ووٹ ملے تھے جو اب گھٹ کر 18.4 فیصد ہوگئے ہیں۔
کانگریس کے ووٹوں کے تناسب میں اضافہ کیسے ہوسکا ہے ؟ ۔ کیا سدارامیا کی جانب سے لنگایت برادری کے فیصلے کا اثر ہوا ہے ؟ ۔ جہاں تک رائے دہی کا سوال ہے یہ تاثر عام ہے کہ سدارامیا کے اس فیصلے سے کوئی اثر نہیں ہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کا وہ اثر دیکھنے کو نہیں مل سکا ہے جس کی توقع کے ساتھ کانگریس نے یہ فیصلہ کیا تھا ۔ بی جے پی کے ووٹ میں اضافہ کی وجہ بھی کیا ہوسکتی ہے ؟ ۔ عمومی طور پر کہا جارہا تھا کہ یہ حکومت مخالف لہر کی وجہ سے ہے ۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ کانگریس کا ووٹ کم نہیں ہوا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے ۔ بی جے پی بھلے ہی یہ کہنے لگے کہ مودی حکومت کی ترقیاتی امیج نے یہاں پارٹی کے حق میں بہتر کیا ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وکاس کا نعرہ بھی یہاں کہیں پس منظر میں چلا گیا تھا ۔ یہاں مودی کی مہمہ کو زْادہ اہمیت دی گئی ۔ بی جے پی کیلئے سب سے زیادہ جو بات کارگر ثابت ہوئی ہے وہ اس کی فرقہ وارانہ روش ہے ۔ خاص طور پر ساحلی علاقوں میں اس کا بہت اثر دیکھنے کو ملا ہے ۔ اس علاقہ میں مودی نے کانگریس کے خلاف نازیبا زبان بھی استعمال کی تھی اور یہاں آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کا بھی کھیل بہت کھیلا گیا ہے جس سے ہوسکتا ہے کہ کچھ رائے دہندے متاثر ہوئے ہوں ۔ یہ حقیقت بھی خود اپنی کہانی سنانے کیلئے کافی ہے کہ بی جے پی نے اپنے تقریبا ایک درجن چیف منسٹروں میں صرف ایک چیف منسٹر کو یہاں مہم کیلئے مدعو کیا تھا اور وہ تھے یوگی آدتیہ ناتھ ۔ چیف منسٹر اترپردیش کی امیج کٹر ہندو شدت پسند کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اگر ہم 2019 میں ہونے والے انتخابات کے تناظر میں کرناٹک سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیں تو یہی پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اس وقت بھی فرقہ وارانہ کارڈ کھیلے گی ۔ 2019 میں نریندر مودی نے ترقیاتی وعدوں کے ذریعہ پارٹی کے ووٹوں کے تناسب میں 10 فیصد کا اضافہ کیا تھا ۔ اس وقت یو پی اے حکومت کے دس سال پر عوام میں ناراضگی بھی تھے ۔ جہاں تک 2019 کا سوال ہے نریندر مودی نوجوان رائے دہندوں کی تائید اپنے کاموں کی بنیاد پر حاصل نہیں کرسکتے ۔ خاص طور پر روزگار کے معاملہ میں وہ پوری طرح ناکام ہیں۔
سنگھ پریوار کی جانب سے اس انتخابی چیلنج کا ایک ہی حل ہے کہ رائے دہندوں کو مخالف مسلم بیانات سے منقسم کردیا جائے ۔ اس کیلئے واٹس ایپ اور دوسرے طریقہ اختیار کرتے ہوئے پروپگنڈہ کیا جائے اور افواہیں پھیلائی جائیں۔ بوگس مسائل کو ہوا دی جائے جیسا ماضی میں کیا گیا ۔ پہلے لو جہاد اور پھر گئو کشی کے مسائل کو ہوا دی گئی ۔ اس کے بعد بی جے پی نے تین طلاق کا مسئلہ چھیڑا اور پھر کثرت ازدواج پر بحث کی گئی ۔ اب ٹیپو سلطان ‘ محمد علی جناح اور نماز کو مسائل بنایا گیا ۔ مودی نے ہوسکتا ہے کہ نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع فراہم نہ کئے ہوں لیکن انہوں نے مسلمانوں کو اس ملک میں ان کی جگہ ضرور دکھا دی ہے ۔ یہ سب کچھ ہندوتوا گروپس کی جانب سے کی جانے والی تشہیر اور اس کی مہم کا نتیجہ ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں اس زہر کا اپنی علیحدہ سیاست کرتے ہوئے جواب نہیں دے سکتیں۔ سدارامیا نے کرناٹک میں علیحدہ پرچم اور لنگایت کیلئے اقلیتی موقف جیسے مسائل کو ہوا دی اور ان سے کانگریس کو معمولی فائدہ ہوا ۔ کرناٹک میں زیادہ موثر حکمت عملی یہ ہوتی کہ جے ڈی ایس کے ساتھ ماقبل انتخابات اتحاد کیا جاتا ۔ جو موجودہ ووٹوں کا تناسب ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا اتحاد اسمبلی میں دو تہائی اکثریت آسانی سے حاصل کرلیتا ۔ سدا رامیا نے رائے دہی کے بعد جے ڈی ایس کے تعلق سے موقف نرم کیا اور کہا کہ وہ کسی دلت کو چیف منسٹر بنانے اپنا عہدہ چھوڑ سکتے ہیں۔ اس وقت تک تاخیر ہوچکی تھی اور ووٹ تقسیم ہوچکے تھے ۔ اس تقسیم میں بی جے پی نے زیادہ ووٹ حاصل کرلئے ۔ نتائج کے اعلان کے وقت بی جے پی نے قدرے تاخیر کردی ۔ اسے ابتدائی رجحانات سے یہ امید ہوگئی تھی کہ وہ اپنے طور پر حکومت قائم کرسکتی ہے شائد اسی لئے اس نے حکومت سازی کیلئے جنتادل ایس کو اپنے ساتھ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ کانگریس نے حالات کو سمجھتے ہوئے جے ڈی ایس کی تائید کا اعلان کردیا اور اسے فوری طور پر قبول کرلیا گیا ۔اگر بی جے پی نے قبل از وقت ایسی کوئی پیشکش کی ہوتی تو صورتحال کانگریس کیلئے انتہائی مشکل ہوجاتی اور جے ڈی ایس کو کانگریس سے اتحاد کا موقع ہی نہیں ملتا ۔
چونکہ بی جے پی کی جانب سے کانگریس مکت بھارت کو پوری شدت سے آگے بڑھایا جا رہا ہے کانگریس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رویہ میں تبدیلی لائے ۔ خود پارٹی قائدین شخصی انا کو فراموش کریں اور شخصی مفادات کی بجائے پارٹی کے مفادات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے ۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو نوشتہ دیوار پڑھ لیناچ اہئے ۔ کانگریس ‘ راہول گاندھی کی قیادت میں نریندر مودی کو 2019 میں کوئی خاص قومی چیلنج دینے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ پارٹی کو اپنے احیاء پر توجہ دینے کی بجائے اپنی بقا پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کی بقا اسی میں ہے کہ وہ 2019 کیلئے زیادہ سے زیادہ جماعتوں کے ساتھ ان کی علاقائی اور نظریاتی دوریوں کی پرواہ کئے بغیر ماقبل انتخابات اتحاد کرے ۔