صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

قاضی محمد حمید الدین

مرد حضرات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ آپ کا اسم گرامی عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق و عتیق لقب ہے۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ ہے۔ آپ کی والدہ کا نام سلمی اور کنیت ام الخیر ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرۂ نسب سے جا ملتا ہے۔ واقعۂ فیل کے تقریباً ڈھائی سال بعد مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی آپ نے کبھی بت پرستی نہیں کی۔ آپ اپنی برادری میں سب سے زیادہ ممتاز اور مالدار تھے اور پھر اسلام لانے کے بعد اپنا مال خرچ کرنے میں بھی سب سے آگے رہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا فائدہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)

آپ بے شمار کمالات کے حامل اور بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ کی شان و عظمت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات نازل فرمائیں۔ آپ کا صحابی ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے، اگر کوئی آپ کے صحابی ہونے کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متقی ہونے کی شہادت دی ہے، جس سے یہ معلوم ہوا کہ اس امت کے آپ سب سے پہلے متقی ہیں اور قیامت تک پیدا ہونے والے سارے متقیوں کے سردار ہیں۔
آپ کی شان اقدس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ارشادات ہیں۔ ۳۱۶احادیث ایسی ملتی ہیں، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام لے کر آپ کے فضائل و مناقب کا اظہار فرمایا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر مجھ پر اپنی صحبت اور اپنے مال سے احسان کرنے والے حضرت ابوبکر ہیں‘‘ (متفق علیہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم پر کسی کا احسان نہیں، مگر ہم نے اس کا بدلہ دے دیا سوائے ابوبکر کے، کیونکہ ہم پر ان کا اتنا احسان ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہی ان کا بدلہ دے گا اور کسی کے مال نے مجھے اتنا نفع نہیں دیا، جتنا نفع ابوبکر کے مال نے دیا ہے۔ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو میں ابوبکر کو خلیل بناتا، لیکن تمہارا صاحب تو اللہ کا خلیل ہے‘‘۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ’’تم غار میں ساتھ تھے اور حوض کوثر پر بھی میرے ساتھ ہوگے‘‘۔ (ترمذی)
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’تمھیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے آزاد کردیا ہے‘‘۔ اس روز سے آپ کا نام ’’عتیق‘‘ پڑگیا۔ (ترمذی)

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے آسمان کی طرف نظر اُٹھائی اور بے شمار ستاروں کو دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’یارسول اللہ! دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے، جس کی نیکیاں ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! وہ کون خوش نصیب ہے؟‘‘۔ فرمایا: ’’عمر بن خطاب‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میرے والد کی نیکیوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟‘‘۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’عمر تو صدیق اکبر کی ان گنت نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے‘‘۔ (نزہۃ المجالس)
تفسیر رازی میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی یہ کہتے ہوئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی کہ اس پر ’’لاالہ الااللّٰہ‘‘ نقش کرواکر لائیں۔ آپ نقاش کے پاس پہنچے اور اس سے کہا: ’’اس پر لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ نقش کردو۔ چنانچہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انگوٹھی لے کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس پر ’’لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ابوبکر صدیق‘‘ نقش تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر سے ان زائد کلمات کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ عرض گزار ہوئے: ’’یارسول اللہ! مجھے یہ بات پسند نہ آئی کہ اللہ تعالیٰ کے نام سے آپﷺ کا نام علحدہ رہے، مگر آگے جو کلمات درج ہیں اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں‘‘۔ اسی اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور حقیقت احوال سے آگاہ کرتے ہوئے عرض کیا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے حبیب کے نام کو صدیق نے میرے نام سے علحدہ رکھنا پسند نہیں کیا تو مجھے بھی یہ بات پسند نہ آئی کہ صدیق کا نام حبیب کے نام سے علحدہ رکھوں، یہ نام میں نے نقش کیا ہے‘‘۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ۲۲؍ جمادی الآخر سنہ ۱۳ھ میں ہوا اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک میں دفن ہوئے۔ (بحوالہ واقدی، حاکم)