صدقۂ فطر کے وجوب کا وقت

سوال : کیا فطرہ معصوم بچوںکی طرف سے نکالنا ضروری ہے۔ اس کی مقدار کیا ہے ۔ اگر رمضان میں زکوٰۃ کے ساتھ ادا کردیا جائے تو ادا ہوگا یا عید کی صبح میں ادا کرنا ضروری ہے ۔فطرہ کس کو دینا چاہئے ؟
احمد عبد اللہ، نظام آباد
جواب : صدقہ فطر ہر مسلمان، آزاد ، مالک نصاب پر جس کی نصاب حاجت اصلیہ سے زائد ہو واجب ہے۔ مالک نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے جو اس کی کفالت میں ہوں صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے ۔ (عن نفسہ و طفلہ الفقیر) در مختار ج : 2 ، ص : 81 ۔
صدقہ فطر میں سوا کیلو گیہوں یا اس کی قیمت ادا کرنا واجب ہے ۔ صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں یعنی جن کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے انہیں کو فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے انہیں فطرہ بھی نہیں دیا جاسکتا۔ ( و صدقۃ الفطر کا لزکوۃ فی المصارف) در مختار ج : 2 ، ص : 86 ۔
صدقہ فطر عید کی صبح صادق کے بعد واجب ہوتا ہے اور عیدگاہ جانے سے پہلے ادا کرنا چاہئے اور اگر رمضان میں زکوٰۃ کے ساتھ ادا کرلیا جائے تو صدقہ فطر ادا ہوجائے گا۔ اگر نماز سے پہلے ادا نہ کیا گیا ہو تو بعد میں ادا کرنا ضروری ہے جب تک کہ ادا نہ کریں ساقط نہ ہوگا۔

تین روز کا اعتکاف
سوال : ہمارے محلہ کی مسجد میں رمضان میں صرف تین روز کا اعتکاف ہوتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کافی ہے جبکہ زید کہتا ہے کہ اعتکاف دس دن کا کرنا ہے ورنہ تمام محلہ کے لوگ گنہگار ہوں گے۔ شرعی حکم کیا ہے بیان کیجئے؟
قادر خان، زہرہ نگر
جواب : رمضان المبارک کے آخری دہے کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایۃ ہے۔ محلہ کی مسجد میں مکمل آخری دہے میں کوئی نہ کوئی اعتکاف رکھنا چاہئے ورنہ سب گنہگار ہوںگے۔ الدرالمختد جلد 2 باب الاعتکاف ص 141 میں ہے (وسنۃ مؤکدۃ فی العشر الاخیر من رمضان) ای سنۃ کفایۃ کما فی البرھان و غیرہ ۔ اور ردالمحتار میں ہے : قولہ (ای سنۃ کفایۃ) نظیرھا اقامۃ التراویح بالجماعۃ ۔ فاذ اقام بھا البعض سقط الطلب عین الباقین ۔

حالت احرام میں غلاف کعبہ سر پر رکھنا اور عورت کا پردہ
سوال : دریافت کرنا یہ ہے کہ حالت احرام میں کعبہ شریف کے غلاف کو چومنا اور سر پر رکھنا کیسا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو کیا قربانی دینا ہوگا ؟ و نیز میرے ہاتھ میں موچھ ہے اور میں پٹی بن رہا ہوں ۔ کیا حالت احرام میں پٹی باندھنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ میری اہلیہ بھی شریک سفر ہے ، کیا وہ احرام کی حالت میں اپنے چہرے پر نقاب ڈال سکتی ہیں یا نہیں جبکہ وہ پردہ کی بہت پابند ہیں ؟
نام ……
جواب : محرم کو حالت احرام میں سر اور چہرے کو چھپانے سے بچنا چاہئے۔ عالمگیری ج : 1 ص : 224 میں ہے ۔ و یتقی سترالرأس والوجہ ۔ لہذا اگر کوئی کعبہ شریف کے غلاف میں داخل ہوجائے اس طرح کے غلاف اس کے سر اور چہرے کو نہ لگے تو کوئی حرج نہیں اور اگر لگ جائے تو مکروہ ہے۔ و کذا لو دخل تحت ستر الکعبۃ حتی غطارا سہ او وجھہ کرہ ذلک لمکان التغطیۃ۔
لہذا احرام کی حالت میں کعبہ شریف کے غلاف کو اس طرح چومنا کہ جس سے چہرہ چھپ جائے یا سر چھپ جائے مکروہ ہے۔ احرام کی حالت میں پٹی باندھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔
ولاباس للمحرم ان یحتجم او یفتصد او یجبر الکسراو یختتن کذا فی فتا وی قاضی خان ۔ عورت احرام کی حالت میں اگر اجنبیوں سے پردہ کرنا چاہے تو اپنے چہرہ کو چھپا سکتی ہے ۔ بشرطیکہ پردہ یا نقاب اس کے چہرہ کو مس نہ کرے۔
کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ج : 1 ص : 645 میں ہے۔ و یجوز للمراۃ ان تسترو جھھا و یدیھا وھی محرمۃ اذا قصدت السترعن الاجانب بشرط ان تسدل علی و جھھا ساترالایمس وجھھا عندالحنفیۃ والشافعیۃ۔
مقتدی کادعاء قنوت مکمل کرنے سے قبل امام کا رکوع کرنا
سوال : رمضان المبارک میں وتر کی نماز جماعت سے امام کے پیچھے ادا کی جاتی ہے ۔ ہماری مسجد میں جو امام صاحب نماز تراویح پڑھاتے ہیں وہ وتر کی نماز بڑی تیزی سے پڑھاتے ہیں، تیسری ر کعت میں ہماری دعاء قنوت مکمل نہیں ہوتی کہ امام صاحب رکوع میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ دعاء قنوت پڑھکر رکوع میں جانا یا امام کے ساتھ رکوع کرلینا۔ اگر ہم دعاء قنوت پڑھ کر رکوع کرتے ہیں تو اس ا ثناء میں امام صاحب کا رکوع سے سر اٹھالینے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ براہ کرم شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں۔
نعمان، وٹے پلی
جواب : اگر وتر کی نماز میں مقتدی دعاء قنوت مکمل پڑھنے سے قبل ا مام رکوع کرلے تو مقتدی امام کی اتباع کرتے ہوئے رکوع میں چلے جائے ۔ عالمگیری جلداول ص : 111 میں ہے : المقتدی یتابع الامام فی القنوت فی الوتر فلورکع الامام فی الوتر قبل أن یفرغ المقتدی من القنوت فانہ یتابع الامام۔
بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب
سوال : میں اپنے شوہر کا بہت خیال رکھتی ہوں۔ ان کی فرمانبرداری کرتی ہوں، ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔ اس کے باوجود وہ مجھ سے ناراض رہتے ہیں۔ خوشی اور مسرت کا اظہار نہیں کرتے۔ میرا خیال نہیں رکھتے۔ کیا شریعت میں صرف عورتوں کو مردوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کا حکم ہے۔ مردوں پر عورتوں کے لئے کچھ بھی احکام نہیں ؟
نام مخفی
جواب : اسلام نے بیویوں کے فرائض کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کو بھی بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (سورہ بقرہ)۔ (عورتوں کے فرائض کی طرح ان کے حقوق بھی ہیں)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانی زندگی میں عورت کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: الدنیا کلھا متاع و خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ (مشکوۃ المصابیح) یعنی ساری کی ساری دنیا نعمت ہے اور بہترین نعمت نیک بیوی ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: تم میں بہتر وہی ہے جس کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے اور میرا سلوک میری بیویوں سے سب سے اچھا ہے (ترمذی) ۔ لہذا مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعاشروھن بالمعروف (سورہ نساء) یعنی تم اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آؤ۔ اگر شوہر کو بیوی کی کوئی عادت پسند نہ ہو تو یقیناً کوئی دوسری عادت ضرور پسند ہوگی تو پسندیدہ عادت کی قدر کرے اور ناپسندیدہ عادت کو درگزر کرے اور صبر کرتے ہوئے بتدریج اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : تم عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو وہ تمہیں اللہ کی امانت کے طور پر ملی ہیں اور خدا کے حکم سے تم نے ان کا جسم اپنے لئے حلال بنایا ہے۔ تمہاری طرف سے ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی غیر کو (جس کا آنا تم کو گوارا نہیں)۔ اپنے پاس گھر میں آنے نہ دیں، اگر وہ ایسا کرے تو تنبیہ کا حق مردوں کو ہے۔(ترمذی، ابن ہشام جلد 4 صفحہ 251) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے لئے سراپا محبت و شفقت اور رأفت و رحمت تھے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ھن لباس لکم کی مجسم تصویر تھے۔ لاڈ پیار ، ناز برداری، روٹھنا منانا، دلچسپی کے پہلو پیدا کرنا، رائے لینا اور ناموافق رائے کو برداشت کرنا وغیرہ یہ سب امور جو ایک ازدواجی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب میں محبت ، نرمی ، مودت اور رحمت کا پیکر تھے۔ لہذا شوہر کو چاہئے کہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کو اپنے پیش نظر رکھے تاکہ دین و دنیا کی سعادت نصیب ہو اور معلوم ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے ساتھ کیسا حسن سلوک فرمایا۔ علاوہ ازیں اگر شوہر بیوی کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے،بیوی کی فرمانبرداری، اطاعت گزاری کے باوجود اس سے خوش نہ ہو تو بیوی کو ان حالات میں صبر سے کام لینا چاہئے اور اپنے حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری کو جاری رکھنا چاہئے کیونکہ ہر حال میں شوہر کی زیادتی پر صبر کرنے کا اجر و ثواب اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس محفوظ رہے گا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب یعنی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر و ثواب عطا فرماتا ہے۔

تراویح کیلئے غیر داڑھی والے حافظ کا انتخاب
سوال : ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب متقی، پرہیز گار ، پابند شریعت ہیں، وہ حافظ قرآن بھی ہیں ۔ تقریباً بارہ سال سے ہماری مسجد میں سوا پارہ نماز تراویح پڑھاتے آرہے ہیں۔ اس سال ان کے پاؤں میں تکلیف کی وجہ وہ نماز تراویح پڑھانے کیلئے تیار نہیں، اس لئے مسجد کی کمیٹی نے ایک حافظ صاحب کا انتخاب کیا جو الحمدللہ حیدرآباد ہی کے ہیں اور تقریباً آٹھ سال سے قرآن سنا رہے ہیں، ان کی عمر تقریباً بائیس سال ہے لیکن ان کو داڑھی نہیں آئی ہے وہ داڑھی کاٹتے نہیں ہیں۔ فطری طور پر ان کو داڑھی نہیں ہے ۔ ہمارے کمیٹی کے ایک ممبر کا کہنا ہے کہ بغیر داڑھی والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ براہ کرم جلد جواب عنایت فرمائیں۔
نعیم الدین، تیگل کنٹہ
جواب : جس بالغ لڑکے کی عمر اتنی ہے کہ ابھی اس کی داڑھی ، مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم نہیں ہوا ہے تو اس کو ’’ امرد‘‘ کہتے ہیں جس کی امامت مکروہ تنزیھی ہے اور جس کے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم ہوگیا ہے اور اب تک نہیں نکلی ہے تو ایسے شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے ۔ در مختار کی کتاب الصلاۃ باب الامامۃ میں ہے : وکذا تکرہ خلف امرد رد المحتار میں ہے : الظاھر انھا تنزیھیۃ ایضا والظاھر ایضا کما قال الرحمتی ان المرادبہ صبح الوجہ لأنہ محل الفتنۃ۔ اسی صفحہ میں ہے : سئل العلامۃ الشْخ عبدالرحمن بن عیسی المرشدی عن شخص بلغ من السن عشرین سنۃ و تجاوز حدا الانبات ولم ینبت عذارہ فھل یخرج ذلک عن حدالامردیۃ و خصوصاً قدنبت لہ شعرات فی ذقنہ تؤذن بأنہ لیس من مستذیری اللحی فھل حکمہ فی الامامۃ کالرجال الکاملین ام لا ؟ اجاب مسئل العلامۃ الشیخ احمد بن یونس المعروف بابن الشبلی من متاخری علماء الحنفیۃ عن ھذہ المسئلۃ فاجاب بالجواز من عہد کراھۃ و ناھیک بہ قدوۃ و کذالک سئل عنھا المفتی محمد تاج الدین القلجی فاجاب کذالک۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں اکیس سالہ حافظ قرآن جنکو طبعی طور پر داڑھی نہیں آئی ہے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا بلا کراہت جائز۔