غضنفر علی خان
گزشتہ جمعہ کو صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے انتہائی طفلانہ اور بچکانہ صدارتی حکمنامہ پر دستخط کردیئے جس کے تحت 7 اسلامی ممالک کے باشندوں کے امریکہ میں داخلہ پر روک لگادی گئی ہے ۔ اس اگزیکیٹیو آرڈر پر امریکہ کی داخلی صیانت کے محکمہ نے فوری عمل درآمد کرنا بھی شروع کردیا ہے۔ جن 7 ممالک سے آنے والے باشندوں پر یہ آمرانہ حکمنامہ سے راست اثر پڑے گا، ان میں ایران ، عراق ، شام ، لیبیا ، سوڈان ، صومالیہ اور یمن شامل ہیں۔ یہ فیصلہ ٹرمپ کی اسلام دشمنی کی نشاندہی کرتا ہے ۔ انہوں نے ساری دنیا کو ایسی آماجگاہ بھی قرار دیا جہاں امن عالم کو سخت خطرات کا سامنا ہے ۔ یہ بار صدر امریکہ بھول گئے کہ امن عالم اور جنگ و جدال کی ، آتش گاہ ‘‘ بنانے میں سب سے زیادہ رول خود امریکہ نے نبھایا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی فراموش کرگئے کہ امریکہ میں صرف امیگریشن پالیسی میں ایسی ناخوشگوار اور دنیا کے دیگر ممالک کے لئے تکلیف دہ فیصلے سے عالمی برادری کو کتنا نقصان ہوگا۔ امریکہ دنیا کی مسلمہ بڑی طاقت ہے اور یہاں جو بیرونی ممالک کے لوگ رہتے ہیں وہ بھی وہاں کی work-force ہیں۔ ابھی اس فہرست میں کچھ اور کثیر مسلم آبادی رکھنے والے ممالک کی شمولیت کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ہمارا پڑوسی ملک پاکستان کا نام بھی ممنوعہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے ۔ سعودی عرب پر بھی یہ پابندی عائد کی جاسکتی ہے لیکن مسلم آبادی والے ان ممالک پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے جن سے ٹرمپ کی کمپنیوں کے تجارتی تعلقات ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امیگریشن پالیسی میں یہ سخت گیر رویہ صدر امریکہ نے اپنے ہی ملک کی داخلی صیانت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہیں کیا بلکہ فیصلہ کے وقت انہوں نے اپنے ذاتی تجارتی مفادات کو قومی سیکوریٹی سے زیادہ عزیز رکھا ۔ امریکی فوج اگر بیدار مغز ہے تو وہ خود سمجھ جائے گی کہ صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہیں بلکہ ذاتی اور اپنے تجارتی مقاصد کو مقدم رکھتے ہوئے کیا گیا ہے ۔ دنیا اگر آج جنگ کی آماجگاہ بن رہی ہے تو اس میں صرف چند اسلامی ممالک ہی کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ آج دنیا کو جنگ کی طرف ڈھکیلنے میں امریکہ کا سب سے بڑا کردار رہا ہے ۔ اسامہ بن لادن کی افغانستان میں موجودگی کا بہانہ بناکر افغانستان کو تہس نہس کسی اور نے نہیں بلکہ امریکہ نے کیا۔ عراق پر فوج کشی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی یلغار نے اس ملک کو تباہ و تاراج کردیا ۔ آج عراق ممنوعہ ممالک میں وہ پہلا ملک بن گیا ہے جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اس فیصلے کے خلاف آنکھیں دکھا رہا ہے ۔ عراق میں ’’تباہ کن‘‘ اسلحہ کی موجودگی کے محض شبہ پر امریکہ نے حملہ کر کے وہاں کے صدر صدام حسین مرحوم کو ہلاک کردیا۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی کو ختم کرنے کیلئے اس ملک پر چڑھائی امریکہ نے کی اور بالآخر اس خوشحال عرب ملک کو بھی تاراج کردیا ۔ شام کے حالات کی ابتری کی ذمہ داری سے بھی امریکہ پلہ نہیں جھاڑسکتا۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں اور آج بھی ہورہے ہیں جن سے اسلامی ممالک میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ہیں اور ان ممالک کے بعض باشندوں نے انتہا پسندی کی راہ اپنالی ہے۔ لیکن امریکہ کے صدر کا یہ خیال کہ مذکورہ 7 ممالک کی ساری آبادی انتہا پسندوں پر مشتمل ہے ۔ حد درجہ طفلانہ بات ہے ، کسی ملک کی آبادی میں انتہا پسند یا شدت پسند افراد کی موجودگی سے خود امریکہ بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اگر امریکہ مکمل طور پر جمہوری ملک ہے اور یہاں امن و امان ہے تو پھر آئے دن امریکی اسکولس میں معصوم بچوں کو قتل کون کر رہا ہے ۔ اس کولوں میں گھس کر یہ کون بندوق بردار ہیں جو معصوم اسکولی بچوں کا قتل کرتے ہیں ۔ کیوں امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کی قابل لحاظ تعداد تشدد کی راہ پر چلتی ہیں؟ کیا امریکہ وہاں کے سیاہ فام باشندوں کی ساری آبادی پر دہشت پسندی کا لیبل لگاسکتا ہے ؟ اگر 7 ممنوعہ ممالک میں دہشت پسندوں کا سکہ چلتا ہے تو پھر امریکہ ان پر کسی معقولیت کی بنیاد پر ان کے داخلہ پر پابندی لگاسکتا ہے ۔ اس وقت امریکہ میں فوری توجہ طلب کئی مسائل ہیں ، امریکہ میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے ، امریکہ میں عام زندگی دن بدن مہنگی ہوتی جارہی ہے ، یہاں علاج معالجہ کی سہولتوں کی بھی کمی ہے ۔ تمام تر ترقی کے باوجود امریکہ ایسے مسائل سے مکمل طور پر مبرہ نہیں ہے جو دنیا کے اور ممالک میں کہیں زیادہ تو کہیں کم ہیں۔ ان حل طلب مسائل پر توجہ کرے یا ترجیحی بنیادوں پر ان کی یکسوئی کرنے کے بجائے کیوں ٹرمپ نے امیگریشن پالیسی کو اولیت دی ۔ ان کی ترجیحات ہی غلط ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی عہدہ یا منصب حاصل نہیں کیا تھا ۔ پہلی مرتبہ اپنی زندگی میں وہ صدارتی عہدہ پر فائز ہوگئے ۔ اگرچیکہ وہ اپنے ملک کے منتخبہ صدر میں لیکن امریکہ کی تاریخ میں وہ پہلے صدر ہیں جن کے خلاف منتخب ہونے کے بعد ہی سے سارے ملک میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ امیگریشن پالیسی کے فیصلہ ہی کی بات نہیں مخالف ٹرمپ مظاہرے تو ان کے منتخب ہونے کے دوسرے ہی دن سے شروع ہوگئے ۔ یہ مظاہرے اب اس متنازعہ پالیسی کے بعد تو ایسی شدت اختیار کرگئے ہیں کہ امریکہ کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹرمپ اپنے ہی ملک میں عوامی مقبولیت نہیں رکھتے ۔ امیگریشن پالیسی کے بعد سے تو امریکہ ہی کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے بڑ ے شہروں میں ان کے خلاف مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ امریکی ایرپورٹس پر ممنوعہ ممالک سے امریکہ آنے والے لوگوں کو بے پناہ مصائب کا شکار ہونا پڑ رہا ہے ۔ وہ ممالک جہاں داخلی حالات نہ گفتہ بہ ہوگئے ہیں۔ پناہ گزین لاکھوں کی تعداد میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پہنچ رہے تھے اور خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں یہ ممالک پناہ دے رہے ہیں لیکن اب یہ سلسلہ ختم کیا ہے ۔ ٹرمپ نے خود اپنے جمہوری ملک کی تاریخ میں ا یک ایسے سیاہ باب کو رقم کیا ہے ۔ جو امریکہ آنے والی نسلوں کیلئے ایک ناخوشگوار واقعہ بن کر رہ جائیں گی ۔ امریکی داخلی صیانت اپنی جگہ ایک مسئلہ ضروری ہے لیکن اس کی یکسوئی کیلئے مسلم ممالک کی امیگریشن پر امتناع عائد کرنا کسی مرض کی غلط تشخیص کے مماثل ہے۔ امریکہ کی عصری تاریخ میں ان کے اس فیصلہ کو غلط اور نقصان دہ فیصلے کی طرح مستقبل کی امریکی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ امریکہ ساری دنیا کا طاقتور ملک ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ساری دنیا کا ’’چودھری ‘‘ بھی ہے ۔ کئی ممالک میں جمہوریت بحال کرنے کے بہانے امریکہ نے آبادیوں کی آبادیاں نیست و نابور کردیں۔ اصولاً کہ عراق ، لیبیا اور شام میں امریکہ کی مداخلت بیجا کے حق میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہئے ۔ ٹرمپ کی خود سری کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے خود اپنے مقرر کردہ اٹارنی جنرل کو محض اس وجہ سے برطرف کردیا کہ اس خاتون نے صدر ٹرمپ کے اگزیکیٹیو آرڈر پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ ان کی اپنی ری پبلک پارٹی کے کئی منتخبہ ارکان بھی اس اقدام سے ناراض ہیں۔ امریکہ اور دنیا بھر میں ان احکامات کے خلاف سیول لبرٹیز شہری آزادی کے گروپ احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کو اس بات کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں کہ ان کے ایک غلط فیصلے نے امریکہ کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچایا ہے ۔ ابھی تو وہ وائیٹ ہاوز کے سبزہ زار کی اس عالیشان عمارت کو اپنی ذاتی آرام گاہ سمجھ رہے ہیں۔ الیکشن کی کامیابی کا نشہ ان کے سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ بہت جلد انہیں اپنے فیصلہ پرنظرثانی کرنی پڑے گی اور اگر آج بھی امیگریشن پا لیسی کے مسلہ پر امریکہ میں ریفرنڈم کیا جائے تو ٹرمپ کو اپنے اس بچکانہ فیصلہ کی حقیقت کا اندازہ ہوجائے گا ۔ انہیں صدر کینیڈا جسٹن سے سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے اپنے ملک میں دیگر ممالک سے آنے والے تارکان وطن کا دل کھول پر خیرمقدم کرنے کا اعلان کیا ہے۔