غضنفر علی خان
14 ویں صدر جمہوریہ کی حیثیت سے سابق گورنر بہار اور راجیہ سبھا کے دو مرتبہ رکن رہنے والے 71 سالہ رام ناتھ کووند نے 25 جولائی 2017 ء کو حلف لیا۔ مسٹر کووند ایک دلت ہیں اور دلتوں کے مسائل اٹھانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ وہ دراصل بی جے پی کے ’’دلت چہرہ‘‘ Dalit Face سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور این ڈی اے نے ان کو صدارتی چناؤ میں اپنا ناقابل شکست اور مضبوط امیدوار بنایا ۔ ان کا انتخاب نوشتہ دیوار تھا کیونکہ نہ صرف این ڈی اے کی تمام پارٹیوں بلکہ کئی ایسی سیاسی پارٹیوں نے بھی ان کی تائید کا اعلان کردیا تھا جن میں ہماری ریاست کی حکمراں پارٹی بھی شامل ہے۔ پہلے ہی سے انہیں کئی غیر متوقع گوشوں سے حمایت حاصل ہوگئی تھی ۔ اس طرح انتخابات وہ جیت چکے تھے ، اب صدارتی انتخابات محض تکمیل ضابطہ کی کارروائی بن کر رہ گئی تھی ۔ صدر رام ناتھ کووند ہیں تو بی جے پی کے دلت لیڈر لیکن ان کی سیاسی وابستگی پوری طرح آر ایس ایس سے رہی ہے ۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ بی جے پی کے ہر رکن کی سوچ و فکر کسی نہ کسی زاویہ اور مرحلہ پر آر ایس ایس سے متاثرہوتی ہے۔ اس لحاظ سے مسٹر کووند اگر آر ایس ایس فکر کے حامل ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ ان کی صدارت کیلئے نامزدگی بھی ان ہی بنیادوں پر ہوئی ۔ ان کو سیاسی سرپرستی بھی آر ایس ایس کی حاصل رہی ۔ اگر یہ سرپرستی نہ ہوتی تو بھلا بی جے پی کی کیا مجال ہوتی جو ان کو صدارتی امیدوار نامزد کرتی۔ اب کہنے کیلئے مسٹر کووند نے اپنی پہلی تقریر میں تکثریت اور تنوع کی بات کی ہے اور ان ہی خوبیوں کو ہندوستان کی روح قرار دیا ہے لیکن اصل آزمائش تو اس وقت ہوگی جبکہ کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوگی جس میں آر ایس ایس اور دستوری تیقنات میں کہیں ٹکراؤ ہوگا۔ انہوں نے ملک کی ’’کثرت میں وحدت‘‘ کا جو اقرار حلف برداری کے موقع پر کیا کہ اس کے علاوہ وہ اس موقع پر کچھ اور نہیں کہہ سکتے تھے ۔ ان کا یہ کہنا دستوری تقاضہ تھا اور ملک کا کوئی بھی صدر یا عام باشندہ کبھی دستور کی یقین دہانیوں اور گنجائشوں سے کسی بھی موقع پر اختلاف نہیں کرسکتا۔ آنے والا وقت طئے کرے گا کہ اگر کوئی مسئلہ ایسا آجائے جس میں درپردہ یا برسر عام آر ایس ایس کا دستور سے ٹکراؤ ہو تو صدر موصوف کی اصل آزمائش ہوگی۔ وہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے پہلے لیڈر ہیں جو صدر جمہوریہ بنے ہیں۔
انہیں کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا ۔ اگر وہ اپنے حلف پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ اندازہ ابھی سے ہونا چاہئے کہ ’’بہت کٹھن ہے راہ پنگھٹ کی‘‘ اب ان کی ثابت قدمی کا سخت امتحان ہوگا۔ سارا ہندوستان اور تمام دنیا دیکھے گی کہ کس طرح پیشہ سے وکیل رامناتھ کووند ہمت اور استقلال سے کام لیتے ہیں یا نہیں، ان سے توقعات بھی ہیں اور ان کے سیاسی کیریئر کے پس منظر میں ان سے خدشات بھی ہیں۔ آر ایس ایس لابی ان پر بی جے پی کے ذریعہ ہمیشہ اپنے ایجنڈہ پر عمل کرنے کیلئے دباؤ ڈالتی رہے گی ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اس وقت ملک کے تینوں بڑے عہدوں ، صدر ، نائب صدر اور وزیراعظم پر بی جے پی کے نمائندے فائز ہیں۔ نائب صدر کیلئے بی جے پی کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو کو بی جے پی نے امیدوار کھڑا کیا ہے ۔ان کے مقابلہ میں اپوزیشن جماعتوں نے قومی رہنما مہاتما گاندھی کے پوتے گوپال کرشن گاندھی کو رکھا ہے لیکن صدارت کے عہدہ کی طرح نائب صدر کے لئے بی جے پی کے امیدوار وینکیا نائیڈو کی جیت طئے شدہ ہے کیونکہ انہیں بھی ارکان پارلیمان و اسمبلی کے ارکان کی اتنی بھاری تائید حاصل ہے کہ ان کو مسٹر گاندھی (جو یقیناً بہتر امیدوار ہیں) ہرا نہیں سکتے۔ اس وقت بی جے پی نے اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ ابھی تک صورتحال یہ تھی کہ اقتدار کے باوجود راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں تھی اور کسی قانون کو منظور کرانے میں اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ حالیہ انتخابی کامیابیوں کے بعد راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کو اکثریتی موقف حاصل ہوگا ۔ اس وقت بی جے پی کے حق میں ہے سنگھ پریوار کا بول بالا ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں فیل بے زنجیر کی طرح چنگاڑتی ہوئی ملک بھر میں گھوم پھر رہی ہیں، اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کلیدی عہدوں پر بی جے پی یا آر ایس ایس کے نمائندے فائز ہیں۔
جمہوری طاقتیں سمٹتی سکڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جتنی مضبوطی سنگھ پریوار کی ہے اتنی ہی شکستگی اور خشتگی اپوزیشن اور سیکولر جماعتوں میں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ معمولی سیاسی بصیرت رکھنے والا کوئی بھی ہندوستانی شہری اندازہ کر سکتا ہے کہ آئندہ ان دونوں طاقتوں میں مقابلہ کا آخر کیا نتیجہ نکلے گا ۔ بات صرف صدر کووند کی نہیں ہے ، بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی طاقتیں دو دھڑوں میں بٹ گئی ہیں۔ ایک طرف شکست کی شکار اپوزیشن ہے تو دوسری طرف قدم قدم پر فتح و کامرانی حاصل کرنے والی بی جے پی اور اس کی ہم خیال سیاسی پارٹیاں ہیں۔ سنگھ پریوار کا موقف مستحکم ہے۔ اب یہ سیکولر پار ٹیوں کا کام ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں جس کے فی الحال کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ بہار میں لالو پرساد یادو ’’مہا گٹھ بندھن‘‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس بہار میں نتیش کمار بی جے پی کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹیاں بھی کبھی متحد نہیں ہوسکتی ۔ اترپردیش میں مایاوتی ، ملائم سنگھ یادو ، سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے سے قریب نہیں ہوسکتے۔ جنوبی ہندوستان میں صورتحال البتہ مختلف ہے ۔ جنوب کی ریاستوں کیرالا ، ٹاملناڈو ، کرناٹک ، آندھراپردیش اور تلنگانہ میں بی جے پی یا سنگھ پریوار کو ابھی تک سیاسی طاقت بننے کا یہاں کی مقامی پا رٹیوں نے موقع نہیں دیا اور آئندہ چناؤ 2019 ء تک صورتحال میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر آتی ہے لیکن شمالی ریاستوں میں بی جے پی نے اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے ۔ اگر جنوب کی ریاستیں ان حالات میں اپوزیشن کے اتحاد کی کوئی نئی کوشش کریں تو شاید کوئی صورت نکلے گی ۔ بہرحال صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے بعد صورتحال میں بہت بڑی تبدیلی پیدا ہوگی ۔ ان روایتی باتوں کو چھوڑ کر اس میں بھی تکثریت اور تنوع کا ذکر کیا جاتا ہے اور صدر کووند نے بھی یہی کیا، اصل آزمائش آئندہ صرف چند دنوں میں ہی پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ سنگھ پریوار اور آر ایس ایس اس موقع کو ہاتھ سے نہیں کھوئیں گے ۔ صدر کووند نے بھی اپنی آر ایس ایس اور بی جے پی سے وابستگی اور وفاداری کو ظاہر کرتے ہوئے پہلی ہی تقریر میں آر ایس ایس کے بانی اپادھیائے کا حوالہ دیا اور ان کو قومی رہنما گاندھی کے ہم مرتبہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جدید ہندوستان کے معمار پنڈت نہرو کا ذکر کرنا بھی گوارا نہیں کیا جو ان کی سیاسی فکر کی عکاسی کرتا ہے۔