صدر جمہوریہ کی امن اپیل دل دردمند کی آواز

غضنفر علی خان

ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی نے صرف 20 دن کے عرصہ میں 3 مرتبہ ہندوستانی قوم سے اپیل کی ہے کہ ’’ملک میں زوال پذیر تحمل پسندی ، رواداری اور پرامن بقائے باہم کے نظریات معدوم ہوتے جارہے ہیں ۔ پارلیمانی جمہوریت کے سربراہ کی حیثیت سے صدر موصوف کو یہ تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ ملک میں ’’بدی کی طاقتیں‘‘ ہندوستان کے تہذیبی ، ثقافتی اور دستوری اقدار کو پامال کررہی ہیں ۔ ہر سمت سے دستور کی خلاف ورزی کی وارداتیں ہورہی ہیں ۔ ملک کے باضمیر اہل قلم اس صورتحال سے اتنے پریشان اور دل شکستہ ہوگئے ہیں کہ جوق در جوق انھیں دیئے گئے اعزازات واپس کررہے ہیں ۔ ایک طوفان ہے کہ ہر طرف پھیل رہا ہے اور اس میں ہندوستان کی رواداری کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ انسانوں کو مارپیٹ کرکے ہلاک کردیا جارہا ہے ۔ کہیں گائے بیل کی اسمگلنگ کے عنوان سے پٹرول بم پھینک کر زندہ انسان کو موت کا تحفہ دیا جارہا ہے ۔ تحمل پسندی کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے ۔

ایسے عناصر خود حکومت میں موجود ہیں جو ان حرکات کے ذمہ دار ہیں ۔ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی ۔ بعض گوشوں سے جو بے حد ذمہ دار اور باخبر ہیں ، کہا گیا ہے کہ ملک کے حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ یہاں کوئی شخص کوئی وزیراعظم مقتدر اعلی نہیں رہا ۔ ہر شخص خود کو اپنے عمل میں آزاد سمجھ رہا ہے ۔ کسی کی نصیحت اثر نہیں کررہی ہے ۔ اس لئے حالات پر قابو پانے کے لئے وزیراعظم مودی کو پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنا چاہئے تاکہ رواداری اور اختلاف کو برداشت کرنے کی ہماری قومی طاقت کو ’’حیات نو‘‘ دی جاسکے ۔ ہندوستان کی عظیم 5 ہزار سالہ مہر و محبت کی تاریخ کو جس پر دنیا فخر کرتی ہے ، بچایا جاسکے ۔ اس کام کے لئے ہماری تاریخ کو حیات نو کے علاوہ ’’آبِ حیات‘‘ کی ضرورت ہے تاکہ پھر کبھی ’’بدی کی طاقتیں‘‘ ایسا ماحول پیدا نہ کرسکیں ۔ ان ہی گوشوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے خصوصی سیشن میں وزیراعظم مودی کو تمام سیاسی پارٹیوں سے صلاح و مشورہ کے بعد ایک ایسی شخصیت کی طرح اٹھنا ہوگا جو کم از کم اپنی پارٹی کے ’’منہ پھٹ‘‘ عناصر کی زبان کو لگام دے سکے ۔ آج یہ عالم ہے کہ بی جے پی میں ان کی (مودی) کی بات کوئی نہیں سنتا ، شدید تنقیدوں سے متاثر ہو کر مودی نے اپنی پارٹی کے صدر امیت شاہ کو ہدایت دی کہ وہ بی جے پی کے چہار درویش کی ٹولی کو جو حد درجہ بکواس کررہی ہے ،بلا کر ان کی سرزنش کریں اور انھیں ہدایت دیں کہ وہ اپنی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کا سلسلہ بند کریں ۔ صدر پارٹی نے پارٹی کے رکن پارلیمان ساکشی مہاراج ، یو پی کے رکن اسمبلی سنگیت سوم ، راجستھان کی وزیراعلی وسندھرا راجے سندھیا کو بلا کر ان سے کہا کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھیں ۔ ایسا ہوا ہیکہ نہیں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان سے پارٹی صدر نے کچھ نہیں کہا ۔ یعنی وزیراعظم اور صدر بی جے پی کی پارٹی کے لیڈروں میں جو قدر و منزلت ہے اسکا بھانڈا بھی پھوٹ گیا ۔ اس پس منظر میں کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کو اپنی اتھارٹی قائم کرنی چاہئے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ وزیراعظم کی بات سننے کوئی تیار ہی نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ مسٹر مودی نے بہار کے ایک انتخابی جلسہ میں تقریر کے دوران ملک کے موجودہ حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے صدر جمہوریہ کی 3 کے منجملہ پہلی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہندوستان میں رواداری اور تحمل پسندی ختم ہورہی ہے ۔ یہ بات انھوں نے خود سے نہیں کہی تھی بلکہ صدر پرنب مکرجی کی تقریر کے حوالہ سے کہی تھی ۔ گویا اگر صدر موصوف نے رواداری کے خاتمہ پر اپنی فکر مندی اور تشویش کا اظہار نہ کیا ہوتا تو وزیراعظم کی زبان سے اس فکر مندی کا تذکرہ یا حوالہ بھی نہیں ہوتا کیوں کہ یہ صورتحال تو کافی عرصہ سے دیکھی جارہی ہے ۔

وقفہ وقفہ سے بی جے پی کے ذمہ دار لیڈر حد درجہ غیر ذمہ داری کے بیانات دے رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ ہے کہ کہیں ختم ہی نہیں ہوتا ۔ بی جے پی کے لیڈروں کے علاوہ ان کے ہم خیال شیوسینا کے لیڈر تو تمام حدیں پار کرگئے ہیں ۔ کسی کے بھی منہ پر اس کے چند سرپھرے ارکان سیاہی پوت دینے سے دریغ نہیں کرتے ہیں اور گائے کے گوشت کی سیاست گرمادیتے ہیں ۔ بی جے پی کو اس بات کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا کہ حکومت تشکیل دینا اتنا مشکل کام نہیں جتنا مشکل ملک کو اس کے متعین کردہ سیکولر راستہ پر چلانا ہے ۔ اس جانب بہار کے چیف منسٹر اور وہاں کے جاریہ اسمبلی انتخابات میں موید کے مدمقابل کھڑے ہوئے نتیش کمار نے ایک قومی ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’دیش چلانا حکومت بنانے سے بہت زیادہ مشکل کام ہے‘‘ ۔ یہ اندیشہ صرف نتیش کمار نے ظاہر نہیں کیا بلکہ ان ہی خدشات کے پیش نظر ابھی بی جے پی کے اقتدار سے باہر آنے سے پہلے ملک کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ “If BJP comes to power it will be a complete disaster” ۔ اگر بی جے پی اقتدار پر آجاتی ہے تو یہ ملک کی مکمل تباہی کا باعث ہوگا ۔ منموہن سنگھ نے یہ بات کئی ماہ پہلے کہی تھی ۔ شاید ان کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کی کہی ہوئی بات صد فیصد صحیح ثابت ہوگی ۔ آج مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کہہ رہے ہیں کہ ’’غنڈہ گردی اور قانون شکنی ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہورہی ہے اس سے ملک کا امیج بگڑ رہا ہے‘‘ ۔ کون امیج بگاڑ رہا ہے ۔ کون رواداری اور اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی نئی نئی مثالیں قائم کررہا ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس رواداری کا سارا تانہ بانہ ٹوٹ کر رہ جائے گا جس پر ہم فخر کرتے ہیں ۔ صدر جمہوریہ ہند نے دو روز پہلے درگا پوجا میں شرکت کے موقع پر اپنے آبائی وطن میں قیام کے دوران کہا کہ ’’حال ہی میں ان کے دورہ مغربی ایشیاء کے موقع پر ان سے جگہ جگہ سوال کیا گیا کہ ہندوستان میں اتنے تنوع کے باوجود کیوں ہمارا ملک ایک قوم کی حیثیت سے باقی ہے‘‘ ۔ اس سوال کے جواب میں پرنب مکرجی نے کہا کہ ’’تکثیریت میں یکجہتی ہمارے مزاج میں ہے ہمارے خمیر میں ہے ، یہ خوشگوار کیفیت ہی ہماری قومی کیمیا میں پائی جاتی ہے اور اس نے ہندوستان 5 ہزار برسوں سے اتنی زبانیں ، اتنی نسلیں ، اتنی ساری تہذیبیں رکھ کر ایک ملک کی حیثیت سے برقرار ہے‘‘ ۔ یہ بات صدر جمہوریہ نے اپنے سیاسی تجربات اپنی علمیت ، اپنی دانش و فراست کا استعمال کرتے ہوئے کہی ۔ ان کا دل دردمند بس اس لئے تڑپ رہا ہے کہ اتنے عظیم اثاثہ کو چند ’’بدی کی طاقتیں‘‘ ختم کرنا چاہتی ہیں ۔ یہ بات بی جے پی کے کسی لیڈر کے دائرہ فکر میں بھی نہیں آسکتی کیوں کہ ان کی فکر ہی خام ہے ۔ ان کا تاریخی شعور پختہ نہیں ہے ۔ ہندوستان میں کبھی کسی ایک نسل ایک مذہب کی حکومت قائم نہیں ہوسکتی ۔ اس کے تنوع کو ختم کرنے کی کوشش کرنے والی بدی کی یہ طاقتیں خود ناپید ہوجائیں گی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا قومی مزاج تنوع میں یقین کامل رکھتا ہے ۔

اس میں کسی بے روح یکسانیت کو سمونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اگر وزیراعظم مودی خود ان بدی کی طاقتوں پر قابو نہ پاسکے تو ان کی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ یہ احساس اب آہستہ آہستہ مودی میں پیدا ہورہا ہے کہ وہ ایک بے اثر وزیراعظم ہیں  ۔ انتہا پسندوں کے آگے ان کی ایک نہیں چلتی ۔ ان کی کہی ہوئی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اگر ہوتا تو صدر بی جے پی امیت شاہ کی مبینہ سرزنش کے بعد پارٹی کے منہ زور لیڈر یہ نہیں کہتے کہ ان سے صدر بی جے پی نے کچھ نہیں کہا ہے ۔ پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وزیراعظم پارٹی کے ان لیڈروں اور آر ایس ایس کے نظریات کے حامیوں کی سرزنش خود کیوں نہیں کی ۔ پارٹی کے صدر کا کوئی دستوری یا قانون موقف نہیں ہوتا ۔ پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا سرچشمہ وزیراعظم ہوتا ہے ۔ اگر وزیراعظم طاقتور ہوتے تو وہ سرکش پارٹی لیڈروں کو اپنی قیام گاہ پر طلب کرکے ان کو پابند کرتے کہ وہ غیر ضروری اور ملک کو نقصان پہنچانے والے بیانات سے گریز کریں ۔ کسی بھی وقت وزیراعظم نے ملک و قوم کو درپیش ان مسائل پر اپنی فکر صحیح کا اظہار نہیں کیا ۔ کانگریس پارٹی کے ایک ترجمان نے یہ درست کہا ہے کہ باغی لیڈروں کی سرکشی کو ختم کرنے کی جو کوشش آج کی جارہی ہے وہ بہت پہلے ہونی چاہئے تھی ۔ ترجمان کے بموجب اب ایسی کوشش بی جے پی کے اصطبل کے دروازے اس وقت بند کرنے کی کوشش کے مماثل ہے جبکہ گھوڑوں نے وہ پٹّے belt توڑ دیئے ہیں جن سے انھیں اصطبل میں باندھے رکھا جاتا تھا  ۔اب بہت دیر ہوگئی ۔ واقعی بی جے پی اس عظیم ملک کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے پوری طرح سے ذمہ دار ہوگی ۔