صدرپاکستان ہندوستان سے تجارت کے حق میں

محمود شام، کراچی (پاکستان)

آپ ہندوستان والوں کو مبارک ہو کہ احرارالہنداسلام آباد تک پہنچ گئے۔ ہمارے مجاہدین کو تو لال قلعے پر سبز پرچم لہرانے کی حسرت ہی رہی۔ لیکن ہند کے احرار اسلا م آبادکی عدالت میں داخل ہو کر ایک روشن خیال جج کو نشانہ بنانے میں نہ صرف کامیاب ہو گئے، بلکہ ان کے ساتھی واردات مکمل کرنے کے بعد آرام سے واپس بھی چلے گئے۔ ملک کے دارالحکومت میں انتہائی اہم اور حساس مقام میں اس طرح دہشت گردوں کا آنا او ر کسی روک ٹوک کے بغیر اپنے مقصد کو حاصل کر لینا پورے پاکستان کو خوف زدہ کر گیا ہے۔ جج رفاقت اعوان اپنی جرأت اور اصول پرستی کی بنیاد پر بہت محترم سمجھے جاتے تھے۔ ان کی عدالت میں لال مسجد کے عبدالرشید غازی کے قتل کے سلسلے میں سابق صدر جنرل مشرف کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو خارج کر دیا تھا کیونکہ ان کے نزدیک یہ مقدمہ قانونی طور پر قابل قبول نہیں تھا بعد میں ایک اور جج نے یہ حکم دے دیا تھا۔یہ ہولناک واقعہ عین اس روز رونما ہوا جب حکومت نے طالبان کی طرف سے ایک ماہ کے لئے جنگ بندی کے اعلان کے بعد طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے روکنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ عوام سوچ رہے تھے کہ اب ایک مہینہ سکون چین سے گزرے گا لیکن صبح سویرے ہی اسلام آباد کی کچہری خودکش بمباروں اور بے خوف فائرنگ کرنے والوں کی زد میں آگئی اور بھارت پر کرکٹ میچ کی ٖفتح کی ساری خوشی خون میں دھل گئی۔ اس کی ذمہ داری ایک بالکل نئی تنظیم احرارالہند نے قبول کی پاکستانیوں کی اکثریت یہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ یہ طالبان کا ہی کارنامہ ہے۔ مصلحت سے کام لیتے ہوئے طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی ایک نئی تنظیم کا نام اختیار کر لیا گیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ واحد سیاسی جماعت ہے جو کھل کر طالبان کو ہی ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف ان کا موقف ہمیشہ سے واضح اور غیر مبہم رہا ہے اس سے اگلے روز ہنگو میں فوجیوں کے قافلے پر حملہ ہوا۔ اس کی ذمہ داری انصارالمجاہدین نے قبول کی ہے۔ مذاکرات کی تیاریاںبھی ہورہی ہیں۔ حکومتی کمیٹی کے ارکان مسکراتے چہروں کے ساتھ سرکاری لگژری گاڑیوں میں سواری کے مزے لیتے طالبان کی نامزد کمیٹی کے ارکان سے ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دونوں کمیٹیوں کے ارکان کی چال ڈھال، گفتگو زبان حال سے ذرا برابر یہ تاثر نہیں ملتا کہ بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ عوام میں مذاکرات کے لئے اب کوئی جوش یاحمایت نہیں ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ خون بہہ رہا ہے۔ اکثریت اب فوجی آپریشن کے حق میں ہے۔ جب فوج نے طالبان کے خفیہ اڈوں پر ٹھیک ٹھیک حملے کئے تو پاکستانیون کو اطمینان ہوا تھا اور ان کا خیال یہی ہے کہ طالبان نے ایک ماہ کی جنگ بندی اسی لئے کی کہ انہیں مار پڑ رہی تھی انہیں از سر نو منظم ہونے کے لئے وقت درکار تھا۔

قوم کی اکثریت اب بھی مذاکرات کے خلاف ہے اور انہیں یقین ہے کہ اس مشق سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کیوںکہ دہشت گرد پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں نہ کسی قانون کو۔ وہ اپنی خونیں وارداتیں جاری رکھیں گے نام دوسری تنظیموں کا لیا جائے گا۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں میں مذاکرات کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔ اس دوران ایک اچھی خبر یہ سننے کو ملی کہ ہمارے صدر مملکت جناب ممنون حسین نے کھل کر کہا کہ پاکستان کی طرف سے ہندوستان کو most favourit nation کا درجہ دینا پاکستان کے حق میں رہے گا۔ میں نے ہی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں اس ہفتے لنچ پر ان سے یہ پوچھا تھا۔ انہوں نے قطعی انداز میں کہاکہ سب سے پسندیدہ قوم کا درجہ دینا ایک رسمی کارروائی ہے۔ لیکن اس میں فائدہ پاکستان کا ہی ہوگا۔ ہمیں ایک بڑی مارکیٹ ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دعوت ملی تو وہ ہندوستان کا دورہ ضرور کرنا چاہیں گے۔

صدر تاجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہندوستان سے تجارت کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن اگلے روز ہی کچھ کسان تنظیموں کی طرف سے بعض اخبارات میں اشتہار شائع ہوا ہے۔ جس میں کسانوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ۳۱ مارچ کو واہگہ پہنچیں اور بھارت سے واہگہ کے ذریعے تجارت کے خلاف احتجاج کریں۔ کیونکہ اس تجارت سے پاکستان کے کسانوں کو نقصان ہوگا۔ ہندوستان کی سبزیاں اور دوسری چیزیں اگر پاکستان میں آئیں گی وہ سستی بکیں گی۔ کیونکہ ہندوستان میں کسانوں کو بہت سہولتیں دی گئی ہیں۔ بجلی، پانی سستے ہیں۔ سرکار کاشتکاروں کا بہت خیال رکھتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں کسانوں کو رعایتیں نہیں دی جاتی ہیں۔ دیکھیں کتنے کسان احتجاج کے لئے پہنچتے ہیں یا کسانوں کو اس سے پہلے ہی کچھ مراعات مل جاتی ہیں۔ صدر ممنون بہت سادہ اور سیدھے شخص ہیں۔ کراچی سے تعلق ہے۔ یہیں پڑھے بڑھے، کراچی کے مسائل سے خوب واقف ہیں اور دکھ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سندھ میں حکومت پی پی پی کی ہے۔

مسلم لیگ (ن) تنگ نہیں کرنا چاہتی۔ کیوں کہ جب مرکز میں پی پی پی کی حکومت تھی تو پانچ سال تک اس نے بھی پنجاب میں مسلم لیگ کو نہیں چھیڑا تھا۔ صدر نے اپنے دورہ چین کے تذکرے بڑے مزے سے کئے ۔ چینی صدر سے ملاقات ایک گھنٹے کی طے تھی لیکن چار گھنٹے جاری رہی چین پاکستان میں کئی سو میل لمبی اقتصادی راہداری تعمیر کرے گا جو کاشغر سے گوادر اور گوادر سے کراچی تک بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوگی اور قابل قدر بات یہ ہے کہ ساری ترقی کے باوجود چینی حکمران اپنے لئے ترقی پذیر قوم کی اصطلاح استعمال کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ان سب تعریفوں کے ساتھ انہوں نے یہ بھی باور کرلیا کہ یہ سب کچھ چین صرف پاکستان سے عشق کی بنا پر نہیں کر رہا ہے۔ اس میں اس کا اپنا مفاد بھی ہے۔ اسے گوادر کی بندرگاہ استعمال کرنے سے کئی ہزار میل مسافت کی بچت ہوتی ہے ۔ہم ایڈیٹر صحافی کھانا زیادہ کھا رہے تھے، صدر صاحب احتیاط کر رہے تھے۔ حالانکہ ان کا زیادہ وقت برنس روڈ پر گزرا ہے جو چٹ پٹے کھانوں کی وجہ سے مشہور ہے اور خود ممنون صاحب اور میاں نواز شریف میں قربت کی وجہ بھی دہی بڑے بتائے جاتے ہیں کہ میاں صاحب کو ان کے لائے ہوئے دہی بڑے اتنے اچھے لگے تھے کہ گزشتہ دور میں اسی باعث انہیں سندھ کی گورنری سونپ دی گئی تھی۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:
92-3317806800