صدرجمہوریہ اور وزیراعظم کا خطاب

وہ وطن پر مٹ گئے اور یہ مٹادیں گے وطن
جانتے ہوکس طرف میرا اشارہ ہے میاں
صدرجمہوریہ اور وزیراعظم کا خطاب
ہندوستانی پارلیمنٹ اگر سیاسی کھیل تماشے کا نام ہے تو اس کھیل تماشے کو اس قدر پست سطح پر لے جایا جارہا ہے کہ اس پر صدرجمہوریہ پرنب مکرجی کو اظہار افسوس کرنا پڑ رہا ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمہوریہ نے پارلیمنٹ کو اکھاڑہ بنائے جانے پر اظہار تاسف کیا ہے۔ لال قلعہ کی فصیل سے خطاب میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھی ہندوستانی سیاست کے بدلتے حالات پر اپنی رائے کے اظہار میں جن باتوں کی جانب اشارہ دیا ہے وہ بی جے پی کے نظریہ کے عین مطابق ہے۔ آر ایس ایس کی پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنے والی مودی حکومت میں اگر کرپشن کے خلاف آواز اٹھا کر پارلیمنٹ کی کارروائی کو درہم برہم کردیا گیا ہے تو اس کے لئے صرف اپوزیشن کو قصور وار ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔ وزیراعظم نے ملک میں ذات پات اور فرقہ پرستی کیلئے کوئی جگہ نہ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے بدعنوانی سے پاک ہندوستان بنانے کا ملک کے 125 کروڑعوام کے سامنے عہد کیا۔ پارلیمانی کارروائی کو پرامن چلنے دینے کے سوال پر ملک کے دانشوروں، تجزیہ کاروں، اہل صحافت اور خود اہل سیاست کو بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ صدرجمہوریہ نے اس سوال کے جواب کے طور پر یہ ضرور کہا ہیکہ جمہوری اداروں پر دباؤ کو ختم کرنا چاہئے۔ کوئی بھی اصلاح داخلی طور پر شروع ہونی چاہئے۔ ملک کے عوام کو اگر اچھا پیام دیا جانا ضروری ہے تو پارلیمانی کارروائی کو جمہوری طرز پر چلنے دیا جائے۔ 69 ویں یوم آزادی کے موقع پر صدرجمہوریہ کے خطاب میں جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے واقعات کا تذکرہ ہوتا ہے تو تشویشناک صورتحال ہے۔ ملک کے عوام نے 1947 میں جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر اگر آج کی پارلیمانی صورتحال کی شکل میں نمایاں ہورہی ہے تو عوام کو آگے چل کر بھیانک حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اور عوامی مسائل کی یکسوئی صرف سیاسی طاقتوں کے درمیان تصادم کی نذر ہوتے رہیں گے۔ جس ہندوستان نے ساری دنیا کو اچھے ذہن فراہم کئے ہیں وہاں سیاستدانوں نے اپنے مقاصد اور مفادات کی خاطر اندرون ملک ترقی کی راہوں کو مسدود کرنے والے کام کئے ہیں۔ امریکہ میں ہندوستانی نوجوان چینائی کے سافٹ ویر انجینئر سندر پچائی نے گوگل ادارہ کے سی ای او کا جائزہ لے کر ہندوستانی نوجوانوں میں نمایاں صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کرپشن سے آلودہ ہندوستانی سیاست نے عوامی ضروریات کو نظرانداز کرکے پارلیمنٹ کو اکھاڑہ بنادیا ہے۔ جب ملک کے اندر اور پارلیمانی تاریخ کی کیفیت اس طرح ابتر ہونے لگے تو ہندوستان کے بہترین ذہن ملک کے باہر اپنی صلاحیتوں کو منوا کر دیگر ملکوں کا فائدہ کریں گے۔ جن طاقتوں نے آج جمہوریت کے اداروں کا اغواء کیا ہے ان کیلئے بی جے پی اور آر ایس ایس کو ذمہ دار متصور کیا جارہا ہے تو یہ غور طلب امر ہے۔ ہندوستان کی سیاست پہلے ہی کافی بے وفا اور بے اعتبار ہوچکی ہے۔ اس میں اب بی جے پی اور نریندر مودی کی شکل میں حکمرانی کا اضافہ ہوا ہے تو لال قلعہ کی فصیل سے کی جانے والی تقاریر کا کوئی ثمر حاصل نہیں ہوگا۔ یوم آزادی کے موقع پر تقاریر برسوں سے کی جاتی رہی ہیں آنے والے برسوں تک بھی یہی ہوتا رہے گا لیکن جو کچھ ابھی اچھے دن کی تمنا رکھنے والوں کو دکھایا جارہا ہے وہ بہت ہی برا اور صدمہ خیز ہے۔ پارلیمانی کارروائی کو ٹھپ کرنے کیلئے اپوزیشن جتنی ذمہ دار ہے اتنی ہی حکمراں پارٹی بھی ہے۔ بی جے پی کے داغدار وزراء اور قائدین کو ملک کی خراب سیاست کا محور بنا کر رکھا گیا ہے۔ عوام کا حافظ اتنا کمزور نہیں ہے وہ چند دنوں بعد بھول جائیں گے۔ یہ غلط فہمی دور کرنا حکومت اور حکمراں پارٹی کے لئے ضروری ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر سیاستدانوں کو یہ عہد کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ جمہوری اداروں کا احترام کرتے ہوئے عوام کے جذبات کو ملحوظ رکھ کر ان کی عزت کریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست میں مثبت اور تعمیری روایات کو آگے بڑھایا جائے۔ اپوزیشن اور حکمراں پارٹی کو اگر خوداحتسابی کی توفیق ہو تو انہیں اپنے طرزرعمل پر افسوس ضرور ہونا چاہئے ورنہ جمہوری ادارے یوں ہی بقول صدر جمہوریہ اکھاڑہ بن کر بدترین صورتحال پیدا کرتے رہیں گے۔ صدرجمہوریہ نے دہشت گردی کے واقعات کی جانب توجہ مبذول کروایا ہے۔ جب سیاستداں آپس میں ہی تو تو میں میں کرتے رہیں گے تو دہشت گردوں کو منصوبوں پر عمل آوری کا راستہ صاف ہوجائے گا اور یہ ملک باہمی سیاسی اختلافات کے باعث دہشت گردوں کے ہاتھوں لہولہان ہوتا رہے گا۔ اس لئے ہوش کے ناخن لے کر فوری سیاست کو کرپشن سے پاک اور سماج کو جرائم سے پاک بنانا ہوگا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے گذشتہ سال یوم آزادی کے موقع پر پہلی تقریر میں کئی وعدے کئے تھے۔ ایک سال بعد یہ وعدے لال قلعہ کی فصیل پر ہی جھول رہے ہیں۔
پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں کمی
عالمی مارکٹ میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کے بعد ہندوستان میں بھی فی لیٹر 1.27 روپئے کٹوتی کی گئی ہے۔ ڈیزل پر فی لیٹر 1.17 روپئے کم ہوگئے۔ اس ماہ یہ دوسری مرتبہ کٹوتی ہوئی مگر عالمی سطح پر جس تیزی سے کمی آرہی ہے اس کے برعکس ہندوستانی پٹرولیم کمپنیاں قیمتوں میں معمولی کمی کررہے ہیں۔ جب پٹرول کی قیمت میں اضافہ کا بہانہ بنا کر دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو بعد کے دنوں میں پٹرول کی قیمت میں کمی پر ضروری اشیاء اور دیگر سازوسامان پر اضافہ شدہ قیمتوں کو واپس نہیں لیا جاتا۔ مارکٹ کی عام قیمتوں پر توجہ رکھنا حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر نظم و نسق کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا جس کے نتیجہ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد جو اشیاء مہنگی کردی جاتی ہیں یہ اشیاء پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے بعد بھی اضافہ شدہ قیمتوں پر ہی فروخت ہوتی ہیں۔ اس طرح مارکٹ میں قیمتوں پر کنٹرول کا کوئی سخت اصول و شرائط نہیں ہیں جس کے نتیجہ میں عوام ہی متاثر رہتے ہیں۔ ملک میں مجموعی طور پر یہی رجحان پایا جاتا ہے کہ جب بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو شرح باربرداری کا بہانہ کرکے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ مارکٹ کی ہر چیز پر زائد قیمت وصول کی جاتی ہے۔ لوگوں کو بدستور مہنگائی کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور اس کا فائدہ راست ذخیرہ اندوزی، منافع خوروں کو ہوتا ہے۔ عوام جہاں مختلف النوع مسائل کی دلدل میں پھنسے ہوتے ہیں، مہنگائی کی روک تھام کیلئے مودی حکومت خاموش ہے۔ گذشتہ سال دالوں کی جو قیمتیں تھیں ان میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دیگر اناج اور خوردنی اشیاء بھی مہنگے کردیئے گئے ہیں۔ مہنگائی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ نتیجہ میں غریب عوام ہی پریشان ہیں۔