غضنفر علی خان
ملک کی سب سے بڑے جمہوریت میں صدر جمہوریہ کے چناؤ نے سیاسی ماحول گرم کردیا ہے ۔ نظریاتی کشمکش ، باہمی اختلافات پھر ایک بار کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اگرچیکہ بی جے پی یا یوں کہیئے قومی جمہوری الاینس (این ڈی اے) کے امیدوار رام ناتھ کووند ایک تجربہ کار قانون داں ہیں، انہوں نے کئی شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ رامناتھ کووند دلت ہیں ۔ د لتوں اور پسماندہ طبقات کی وہ آواز رہے ہیں۔ ان تمام خوبیوں اور تجربہ کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ ہندوتوا نظریہ کے حامل ہیں، ان کا بی جے پی سے قریبی تعلق رہا ہے ۔ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے نامزدگی کے بعد انہوں نے گورنر بہار کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر اترپردیش کی سیاسی پارٹی بہوجن سماج پارٹی کیلئے اب یہ مشکل درپیش ہوگئی ہے کہ وہ رامناتھ کووند کے مقابلہ میں کوئی امیدوار کیسے کھڑا کریں۔ ایسا کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ بہوجن سماج پارٹی صدارت کیلئے ایک دلت امیدوار کی مخالفت کررہی ہے جبکہ یہ پارٹی خود کو دلتوں کا مسیحا سمجھتی ہے ۔ اسی طرح دیگر سیاسی پارٹیوں کیلئے بھی ایک دلت صدارتی امیدوار کی مخالفت پارٹی کے مقابل کوئی دوسرا امیدوار کھڑا کرنا ان ہی معنوں میں ایک نہایت نازک اور پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ رامناتھ کووند پر بی جے پی کی چھاپ ہی ایک ایسا اعتراض ہے جو کچھ وزن رکھتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ کووند بی جے پی کے لئے دلتوں کے نمائندہ رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر بی جے پی کو کبھی بھی موافق دلت پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل نہیں رہا کیونکہ یہ پارٹی اس بات کیلئے شہرت رکھتی ہے کہ اس پر اعلیٰ ذات والوں کا قبضہ ہے ۔ کبھی کھل کر بی جے پی نے دلتوں کی کسی بھی مسئلہ تائید نہیں کی ۔ درپردہ اس کی برہمن نواز ذہنیت ہمیشہ کارفرما رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا ایک دلت کو اپنا صدارتی امیدوار بناکر بی جے پی اور موافق ہندوتوا طاقتیں پنے تعلق سے اس تاثر کو ختم کرسکتی ہے ؟ کیا کسی دلت کے صدر بن جانے سے دلتوں کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ کیا عبدالکلام ، فخرالدین علی احمد مرحوم اور ڈاکٹر ذاکرحسین مرحوم کے دورِ صدارت میں ہندوستانی مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہوا تھا ؟ اب دلت برادری کو بھی یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ اپنی صفوں سے کسی ایک شخص کے صدر بن جانے سے ان کی کایا پلیٹ نہیں ہوسکتی۔ جس طرح سے مسلمان صدر جمہوریہ کے سابقہ دور میں مسلم برادری کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ حالانکہ رامناتھ کووند کو امیدوار قرار دے کر بی جے پی اور این ڈی اے یہ سمجھ رہی ہیںکہ ایسا کرنے سے دلت برادری کو ووٹ بینک میں بدلا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی نے ہمیشہ کانگریس اور دیگر پارٹیوں پر ’’ووٹ بینک‘‘ کی سیاست کرنے کا الزام دیا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ کانگریس پر مسلم ووٹ کی خوشنودی یا Muslim Oppeasment کا الزام لگانے والی بی جے پی آج کووند کو صدارتی امیدوار بناکر دلتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ وہ جو تلواروں کے سایہ میں پلتے ہیں بالآخر تلواروں ہی سے ہلاک بھی ہوجاتے ہیں‘‘۔ تو غلط کیسے ہوگا ۔ کیا یہ درست نہیں کہ کسی طبقہ کے خوشنودی حاصل کر کے انہیں اپنا ووٹ بینک بنانے کا عمل سنگھ پریوار بھی کر رہا ہے ۔ کم از کم اب کانگریس یا کسی بھی پارٹی پر کسی مخصوص طبقہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا الزام عائد کرنے کا مخدوش طریقہ کار بی جے پی کو ترک کردینا چاہئے ۔ اس ساری بحث کے باوجود یہ تقریباً طئے شدہ ہیکہ رامناتھ کووند ملک کے اگلے صدر جمہوریہ ہوں گے ۔ اگر اپوزیشن کوئی امیدوار اپنی طور پر کھڑا بھی کرتی ہے تو اعداد وشمار کی روشنی میں یہ پیش قیاسی کی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن کا امیدوار کامیاب نہیںہوسکتا لیکن اپوزیشن ایک علامتی مقابلہ Token Contest ضرور کرے گی اور اس کو کرنا بھی چاہئے ۔ نظریاتی ٹکراؤ ہے ، اپوزیشن بالخصوص موافق سیکولرازم پارٹیاں اپنی شکستوں کے باوجود یہ پیام ہندوستانی عوام کو دینا چاہیں گی کہ وہ بی جے پی کے امیدوار کے مقابلہ پر کوئی امیدوار کھڑا کر کے اپنے وجود کا پتہ دینا چاہتی ہیں ۔ صدارتی انتخابات اس طرح سے متضاد نظریات کا ٹکراؤ بن گیا ہے ۔ کانگریس نے ان الجھنوں سے بچنے کی خاطر درمیانی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ’’عوامی صدر‘‘ یا People President کا تصور پیش کیا ہے لیکن ایسی کوئی شخصیت کانگریس کے پاس نہیں ہے اور نہ دوسری اپوزیشن پارٹیوں میں موجود ہے جبکہ عوامی صدر کے عہدہ کے لئے کھڑا کیا جاسکے ، ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ ہر سطح پر بی جے پی یا ہندوستان کے نمائندوں کو علامتی مقابلہ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ صدارتی انتخابات ایک پہلو ہے کیونکہ ملک کے اس عظیم الشان عہدہ کیلئے چناؤ میں حصہ نہ لینے سے عوام میں یہ احساس پیدا ہوجائے گا کہ اپوزیشن پارٹیوں بشمول کانگریس نے ہندوتوا کے نظریہ کے مقابلہ میں اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اپوزیشن کا امیدوار انتخابات ہارجائے گا۔ اپوزیشن خاص طور پر کانگریس کے پاس کوئی دوسرا چارۂ کار نہیں کہ میدان میں مقابلہ کے لئے اترے ۔ شکست و فتح تو انتخابی سیاست میں ہوتی ہی رہتی ہے۔ یہ معلوم رکھتے ہوئے بھی کہ امیدوار کو شکست ہوگی ، اس کو اپنا امیدوار کھڑا کرنا پڑے گا ۔
صدر جمہوریہ ہمارے ملک میں دستوری سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عاملہ اختیارات تو وزیراعظم ہی کو حاصل ہیں۔ اب صدرات پر بھی ایک ایسے شخص کے فائز ہونے کے بعد جو اپنی نامزدگی کیلئے حکومت کا احسان مند ہے ۔ وزیراعظم کے لئے اپنا خفیہ ایجنڈہ نافذ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی ۔ سیاں بھئی کوتوال ہمیں ڈر کاہے کا‘‘ کے مصداق صورتحال ہوسکتی ہے ۔ رامناتھ کووند کوئی بہت معروف دلت نہیں ہیں حالانکہ دلتوں میں بھی ایسے لیڈر موجود ہیں جن کی کچھ نہ کچھ یا کم از کم رامناتھ کووند سے بہت زیادہ خدمات ہیں، پھر کیوں قرعہ فعال ان کے نام نکالا گیا ۔ یہ غور طلب بات ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا صدارتی امیدوار منتخب کرانے کی کوشش تھی جو وزیراعظم اور مرکزی کابینہ کے ہر مشورہ کو بلا چوں ، چرا قبول کرے ۔ ابتداء میں سے صدارتی امیدوار پسماندہ طبقات خاص طور پر مسلمانوں کیلئے کوئی ہمدردانہ خدمات نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں مسلمان بچے کماونٹ اسکول میں پڑھتے ہیں جو ان کی شدید غلط فہمی ہے، خود بی جے پی تسلیم کرتی ہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی دیگر پسماندہ طبقات سے بھی زیادہ ہے۔ کاونٹ اسکول میں پڑھنے کا تو کوئی عام مسلم بچہ سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس کو معلوم ہے کہ کوئی کارخانہ ، کرانہ کی دکان پر ہی اس کو کام کرنا ہے۔ اگر ایسی ذہنیت والا شخص صدارت کے عہدہ پر کوئی فائز ہوتا ہے تو ملک کے مسلمان سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ ’’خدا خیر کرے‘‘ یوں بھی صدر ہمارے سیاسی سسٹم میں کارکرد نہیں ہوتا ، اس پر طرفہ تماشہ ہے کہ حکومت اور بی جے پی کی عنایت خاص ہے ، اس عہدہ پر فائز ہوجانا کووند کیلئے کسی خواب سے کم نہیں ہے ۔ اب اس کو کیا کیجئے کہ ہمارے سیاسی نظام ہی میں یہ عنصر ہے کہ صدر مرکزی کابینہ کے فیصلوں پر بھی عمل کرتا ہے۔