صدارتی انتخابات میں ’’کراس ووٹنگ‘ ‘کے اندیشے

لکھنؤ 5 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) اترپردیش اسمبلی کے اراکین صدارتی انتخابات میں جماعتی حدود توڑ کر ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس کا واضح اشارہ سماجوادی پارٹی (ایس پی) کے سینئر لیڈر اور ملائم سنگھ یادو کے بھائی شیو پال سنگھ یادو کے نہایت نزدیکی اور سماجوادی چنتن سبھا کے صدر دیپک مشرا کے بیانات سے ملتا ہے ۔ مشرا نے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے ) کے امیدوار رام ناتھ کووند کی کھل کر تعریف کی ہے۔ مشرا نے صدر کے عہدہ کیلئے رام کووند کو قابل امیدوار قراردیتے ہوئے ان کی جیت کا دعوی بھی کیا۔ این ڈی اے امیدوار کی ملائم سنگھ یادو نے بھی جم کر تعریف کی تھی، اس سے لگتا ہے کہ ملائم سنگھ کا ووٹ بھی این ڈی اے امیدوار کے حق میں جا سکتا ہے ۔ صدارتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے وہپ جاری نہیں ہوتے ، اس لئے اس انتخاب میں جماعتی حدود کو توڑکر رائے دہندگان ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس الیکشن میں لوک سبھا، راجیہ سبھا اور اسمبلی کے اراکین ووٹ ڈالتے ہیں۔ اترپردیش اسمبلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 312، اپنا دل کے 9، بھارتیہ سماج پارٹی کے چار، سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے 47، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے 19، کانگریس کے سات، راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کا ایک اورچار دیگر اراکین ہیں۔ مجموعی طورپر 404سیٹوں والی اترپردیش اسمبلی میں 403 اراکین الیکشن لڑکر رکن بنتے ہیں جبکہ ایک رکن نامزد کیا جاتا ہے۔ نامزد رکن کو صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہوتا۔ الیکشن میں رام کووند کو ترقی پسند اتحاد (یو پی اے ) کی امیدوار اور لوک سبھا کی سابق اسپیکر میرا کمار سے سخت مقابلہ ہونے کی امید ہے ۔ بہرحال اعداد و شمار رام ناتھ کووند کے حق میں نظر آرہے ہیں۔ ادھر کانگریس کے ریاستی ترجمان دجیندر ترپاٹھی کا کہنا کہ میرا کمارطاقتور امیدوار ہیں۔ وہ نظریات کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ ا نہیں پوری امید ہے کہ نظریاتی لڑائی میں رائے دہندگان میرا کمار کا ساتھ دیں گے ۔ جبکہ بی جے پی کے ریاستی جنرل سکریٹری وجے بہادر پاٹھک کا دعویٰ ہے کہ رام ناتھ کووند منکسرالمزاج اور کافی تجربہ کار ہیں۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ کار پارٹی سے بالاتر ہوکر رہا ہے ۔ اس لئے رائے دہندگان انہیں اپنی تائید و حمایت کے ذریعے اس ملک کا پہلا شہری منتخب کریں گے ۔