تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
برقی شرحوں میں اضافہ کا فیصلہ کرتے ہوئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی دو سالہ کارکردگی کے دوران مسلسل برقی سربراہی کو یقینی بنانے کے وعدہ کو پورا کرنے کا معاوضہ لینا چاہا ہے۔ بس کرایوں میں اضافہ کے ذریعہ غریب مسافرین کوبھی ستایا جائے گا۔ چیف منسٹر نے از خود یہ اعتراف کیا کہ عوام کی بہتر خدمت انجام دینے کیلئے محکمہ برقی اور محکمہ ٹرانسپورٹ کی مالی حالت بہتر بنانا ضروری ہے۔برقی اور بس شرحوں میں اضافہ کے ذریعہ غریب عوام سے برقی سربراہی کا معاوضہ لینے والی حکومت نے شہر اور ریاست تلنگانہ کے امیروں کو ٹیکس مراعات کی صورت میں چھوٹ دے رکھی ہے۔ امیر کو امیر ہی رہنے دیا جاتا ہے، غریب اپنی غریبی کے دن حکومت کی پالیسیوں کی آس میں گذارتا ہے۔ تلنگانہ کو بلا شبہ ایک صحت مند ریاست بنانے کی جانب کوشش کرنے والے چیف منسٹر نے ہر شہری کی مالی حالت کو بہتر بنانے کی پالیسی پر ابھی عمل شروع نہیں کیا ہے۔ سرکاری طور پر چلائے جانے والے ان دو محکموں کی مالی حالت ابتر ہے اس کو مالی طور پر مستحکم بنایا گیا تو عوام کو بہتر سہولتیں دی جائیں گی۔آر ٹی سی کو 2,275 کروڑ روپئے کا قرض ہے جبکہ برقی پیداوار کرنے والی کمپنی ڈسکامس اینڈ ٹرانسمیشن کارپوریشن ٹرانسکو کو 2,144 کروڑ کا قرض ہے۔ نئی ریاست کی غریبی کو دور کرنے کے لئے حکومت ٹھوس پالیسیاں بنائے ہوئے ہیں اب تک ایسی ٹھوس پالیسی بنانے پر چیف منسٹر نے غور نہیں کیا تھا مگر آر ٹی سی اور محکمہ برقی کی مالی حالت دیکھ کر انہیں دیگر محکموں کی صورتحال کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ کے عوام میں معاشی ترقی کو اپنا مقصد حیات بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے سرکاری سطح پر کئی رہنمایانہ خطوط وضع کرنے ہوں گے۔ ریاست اور عوام تیزی اور دل جمعی کے ساتھ ترقی کے راستے پر سفر شروع کرتے ہیں تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ عوام میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دولت کمانے کی دوڑ میں ترقی اور کامیابی کی اس بلندی تک پہونچ گئے ہیں کہ اب نئی نسلیں باپ دادا کی کمائی ہوئی دولت پر عیش کررہے ہیں۔
شہر حیدرآباد کی ہی مثال لی جائے تو یہاں ایسے کئی غریب شہری ملیں گے جنہوں نے دولت کمانے کی دوڑ میں زندگی بھر محنت کرکے پیسہ جمع کیا اسے خرچ کرنے کے لیء زندگی بھر موقع نہیں ملا اب ان کی اولاد بے دریغ پیسہ خرچ کرکے شہر میں اپنی رئیسانہ شان ظاہر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ شہر میں نو دولتیوں کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔غریب آدمی جب اتفاق سے یا محنت سے امیر بن جاتا ہے تو ذہنی طور پر ہمیشہ غریب ہی رہتا ہے لیکن اس کے لئے پیدائشی امیر کہلاتے ہیں وہ اپنے غریب باپ کو محنت سے کمائی ہوئی دولت کو امیروں کی طرح لٹاتے ہیں اس لئے آج بازاروں کی رونق کو چار چاند لگانے والوں میں ہمیں غریب باپ کے امیر ترین بچے بھی دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح کا مزہ لوٹنے کا موقع باپ کو کبھی نصیب نہیں ہوا کیونکہ وہ تو اپنی غریبی کو دور کرنے کیلئے کے لئے اتنا مصروف ہوجاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپسے نوازنا شروع کردتا ہے تو وہ پھر پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتا۔ حیدرآباد پر اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں زیادہ ہیں اس لئے یہاں این آر آئیز کی اولادیں غربت کے آنگن میں آنکھ نہیں کھولیں یہ تو سیدھے کارپوریٹ دواخانوں کے ایر کنڈیشنڈ لیبر رومس میں آنکھ کھولے ہوتے ہیں ان کی کاریں اور ان میں مکمل اے سی والی ہوتی ہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں شہر میں تجارتی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں تو سڑکوں پر کاریں ٹریفک پر بوجھ بن جاتی ہیں ۔ ایر کنڈیشن کاروں سے گذرتے امیر زادوںکی تعداد میں اضافہ اس شہر کی گرمی اور حدت کو بڑھاتا جارہا ہے۔ حکومت بھی غریبی اور امیری کی اس بے ترتیبی کا اثر سرکاری محکموں میں دیکھا ہے۔ جو سرکاری محکمہ آمدنی کا ذریعہ نہیں وہاں بھی غربت منڈلارہی ہے۔ خزانہ خالی ہے مگر غور طلب بات یہ ہے کہ جس محکمہ میں مالیہ نہیں ہے وہاں کے ادنیٰ چپراسی سے لیکر اعلیٰ عہدیدار کی ذاتی ملکیت میں کروڑہا روپئے کے اثاثہ جات ہوتے ہیں۔ انسداد رشوت ستانی بیوریو ACBکی جانب سے آئے دن کئے جانے والے دھاوؤں اور رشوت خور عہدیداروں کے اثاثہ جات ضبط کرنے کی خبریں آتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سرکاری محکموں کو کنگال بناکر اپنا اثاثہ بڑھانے والے عہدیداروں اور سرکاری کرمچاریوں نے اس ریاست اور ملک کے حق میں کوئی …… کام نہیں کیا ہے۔ حکومت کو فکر ہے کہ محکموں کی آمدنی کس طرح بڑھائی جائے خاص کر برقی محکمہ اور آر ٹی سی کو مالی پریشانیوں سے دور کرنے کے لئے سخت اقدامات اور مضبوط پالیسی کی ضرورت ہے۔ مگر جب تک بدعنوانیاں ہیں آمدنی کا ذریعہ اپنا راستہ تبدیل کرلیتا ہے۔ محکمہ کی آمدنی کا راستہ جب عہدیداروں کی جیب سے ہوکر ان کے گھر تک پہونچتا ہے تو سرکاری خزانہ خالی ہی ہوگا۔ یہاں بھی سرکاری محکمہ غریبی اور عہدیدار امیری کی چادر اوڑھے ہوئے ہوتا ہے۔ اس لئے جو غریب باپ ہوتا ہے اس کی اولاد امیر دکھائی دے تو سمجھیئے کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ ٹھیک اسی طرح تلنگانہ کی نئی حکومت کے سربراہ اور قائدین کے بچے امیر ترین کس طرح کہلانے لگے ہیں عوام غور کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں مقامی جماعت کے لیڈر نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس …… کروڑ کی جائیدادیں ہیں
جبکہ اس لیڈر کے والد محترم نے ساری زندگی سادگی اور متوسط طریقہ سے گذاری اور عوام کی خدمت کیلئے خود کو وقف کیا تھا۔ تلنگانہ کے حکمراں لیڈروں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز بھی غریبی سے کیا تھا آج ان کے بچے امیری کے جھولے میں جھول رہے ہیں اور یہ سب ذاتی محنت سے ہوتا ہے یا پھر اُلٹ پھیر سے۔ دولت ادھر کی ادھر ہوتی ہے۔ ریاست تلنگانہ کے پاس قدرتی وسائل کی دولت دیگر پڑوسی ریاستوں سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ جنوب مشرق میں اور مغرب میں کرناٹک ہے تو شمال میں اوڈیشہ اور چھتیس گڑھ میں ان ریساتوں کے مقابل تلنگانہ سب سے زیادہ بشمول ثقافت میں مالا مال تلنگانہ میں برے پیمانہ پر گرینائیڈ، کوئلہ، معدنیات کے دیگر ذرائع ائے جاتے ہیں۔ یہاں پر کئی خانگی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ہیں جو تلنگانہ کو متمول بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ معاشی ترقی کے لئے یہ کمپنیاں ہی ریڑھ کی ہڈی ہیں اس لئے ریاست میں پیداوار کی صلاحیت میں تقریباً 8فیصد اضافہ ہوا ہے جس ریاست کی آمدنی سال 2009 میں 145901 کروڑ روپئے تھی اب یہاں 2015 میں 217432 کروڑ روپئے ہوئی ہے۔ تلنگانہ کے آئی ٹی پراڈکٹس کی پیداوار گذشتہ سال مقابلہ 10.99 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی ہے یہ اعداد و شمار خود سرکاری ریکارڈس میں دستیاب ہیں تو پھر تلنگانہ حکومت کو اپنی ریاست اور سرکاری محکموں کی غربت مالیہ کی کمی کی شکایت کرنے کے بجائے محکموں میں ہونے والی بدعنوانیوں اور خرابیوں کا پتہ چلانے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب حکومت نے تلنگانہ میں بہترین صنعتی پالیسی بناکر مضبوط صنعتی اور انفراسٹرکچرل بنیادیں بنائی جارہی ہیں تو اس کے فوائد بھی عوام کو ملنے چاہیئے۔ انڈسٹریل و انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے سے ریاست کی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوگا، ریاست میں پرکشش صنعتی پالیسی کی وجہ سے 62000 کروڑ روپئے کی صنعتی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ہندوستان کی صنعتی سرمایہ کاری تجاویز میں تلنگانہ کا بھی اچھا حصہ ہے اور اس میں متواتر اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ تلنگانہ کا دارالحکومت حیدرآباد ملک کے صنعتی علاقوں میں سب سے بڑے صنعتی پارکس میں تبدیل ہونے والا علاقہ سمجھا جارہا ہے اور اس انڈسٹریل پارکس کو عصری انفراسٹرکچر سے آراستہ کیا جارہا ہے تو پھر شہر اور ریاست کے ساتھ سرکاری محکمے اور ادارے غریب نہیں ہوں گے۔ شہریوں کو بہترین لے آؤٹس کے ساتھ نئی بستیاں قائم کرنے کا موقع ملے گا۔ پانی کی سربراہی، انٹرنل سڑکوں کے ساتھ برقی سربراہی کو یقینی بنایا جائے تو اچھی معاشرتی زندگی شہریوں کو خوشحالی سے ہم آہنگ کرے گی۔ مسرت کی باتت تو یہ ہے کہ حیدرآباد دیگر اضلاع میں تلنگانہ اسٹیٹ انڈسٹریل انوسٹمنٹ کارپوریشن نے150 صنعتی پارکس کو مسلمہ قرار دیا ہے۔ 10اضلاع میں ان صنعتوں کے لئے74,133.180 ایکڑ اراضی فراہم کی ہے جس میں 13,165 صنعتی یونٹس کام کررہ ہیں تو پھر سرکاری محکموں میں مالیہ کی کمی کی شکایت ہوتی ہے تو یہ بدعنوانی یا رشوت ستانی کی وجہ سے ہے جس کا خاتمہ کرنے کے لئے حکومت کو موثر کارروائی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ دیانتداری کے ساتھ حکومت کی جائے تو امیر اور غریب کا فرق کم کرنے میں مدد ملے گی اور سرکاری محکمے بھی خوشحال نظر آئیں گے۔
kbaig92@gmail.com