شیشہ و تیشہ

محمد شفیع مرزا انجم حیدرآبادی
قطعہ
سراپا اس کا کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے
بڑا عجیب سا نقشہ دکھائی دیتا ہے
سلیم کہتے ہیں دنیا کے سارے لوگ جسے
مگر قریب سے سلمہ دکھائی دیتا ہے
………………………
محمد ایوب خان جھاپڑؔ(کویت)
کیوں ؟
ہر طرف آپ کے فسانے کیوں
آپ اتنے بھی دیڑھ شانے کیوں
جھانکنا گھر سے چھت پہ اُتر آنا
خود نمائی کے یہ بہانے کیوں
کل جنہیں زعم تھا بہت خود پہ
پٹ گئے آج وہ نجانے کیوں
یہ زمیں ہے زمیں محبت کی
اس پہ نفرت کے شامیانے کیوں
ہم کھٹکتے ہیں سب کی نظروں میں
کیا پتہ کیا خبر نجانے کیوں
میں نے سنجیدہ بات کی تم سے
لگ گئے آپ ہنہنانے کیوں
اس نے ویسے ہی ہنس کے دیکھا تھا
آپ جھاپڑؔ ہوئے دِوانے کیوں
………………………
موبائیل فون پر باتیں …!
٭ ایک سروے کے مطابق حال ہی میں اس بات کا اعداد و شمار نکالا گیا کہ کون ’’کس سے ، کتنی دیر ‘‘ موبائیل فون پر باتیں کرتا ہے :
لڑکا لڑکے سے
:
00:00:55
لڑکا باس سے
:
00:01:00
لڑکا ماں سے
:
00:00:30
لڑکا باپ سے
:
00:00:20
لڑکا لڑکی سے
:
لامحدود
لڑکی لڑکی سے
:
24 x 7
لڑکی لڑکے سے
:
00:00:01
شوہر بیوی سے
:
00:00:07
بیوی شوہر سے
:
15 مسڈکال
مبشر سید ۔ چنچلگوڑہ
………………………
’’ہری مرچیں‘‘
٭ آج کل سیاست میں جتنے اتحاد بن رہے ہیں اُن سب کا ایک ہی مقصد ہے : ’’آؤ ہم سب مل کر کھائیں ‘‘
٭ ہماری سیاست کا بھی عجیب حال ہے جو آج اقتدار میں ہے وہ کل جیل میں ہوگا اور جو آج جیل میں ہے وہ کل کرسی پر ہوگا۔
٭ لگتا ہے آئندہ چند سالوں میں بیوٹی پارلرز کی تعداد پرائیویٹ اسکولوں سے بڑھ جائے گی …!
٭ عورت مرد کو بیوقوف بناکر بڑی خوش ہوتی ہے حالانکہ مرد جان بوجھ کر بیوقوف بنتا ہے ۔
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔ پداپلی ، کریمنگر
………………………
کچھ ہوگا نہیں!!
٭ ایک ننھا بچہ اسکول سے گھر آیا تو اپنی والدہ سے کہا ’’امی ! بھوک سے پیٹ میں درد ہورہا ہے ‘‘۔ اس کی والدہ نے جلدی سے کھانا پکادیا اور کہا ’’ظاہر ہے ، پیٹ میں کچھ ہوگا نہیں تو درد تو ہوگا ‘‘۔ شام کو بچہ ہوم ورک کررہا تھا ۔ اس کے والد گھر میں داخل ہوئے اور کہا ’’میرے سر میں درد ہورہا ہے‘‘۔
ننھے بچے نے سنا تو کہا ’’ظاہر ہے ، سر میں کچھ ہوگا نہیں تو درد ضرور ہوگا ‘‘۔
سیدہ ریشماں کوثر ۔ دیورکنڈہ
………………………
ہے کوئی بہادر ؟
٭ سرکس کے شو میں ایک ایٹم پیش کیا جارہا تھا جس میں ایک خوبصورت جوان لڑکی اپنے منہ میں فائیو اسٹار چاکلیٹ پکڑے اسٹول پر بیٹھی ہے سامنے سے ایک شیر آتا ہے اور لڑکی کے منہ سے چاکلیٹ کترکتر کر کھالیتا ہے ۔تماشائی دم بخود ہوکر اس ایٹم کو دیکھ رہے تھے اور بے ساختہ تالیاں بجاکر داد دے رہے تھے ۔ ایٹم کے بعد رنگ ماسٹر تماشائیوں کی طرف دیکھ کر بولا ’’بھائیو اور بہنو ! ابھی آپ کے سامنے ایک خطرناک ایٹم پیش کیا گیا ۔ آپ میں سے ہے کوئی بہادر جو اس ایٹم میں حصہ لے‘‘۔
تماشائیوں میں سے ایک نوجوان اُٹھ کر ہاتھ اُٹھاتے ہوئے آگے آگیا اور بولا ’’میں یہ ایٹم کروں گا ‘‘۔ رنگ ماسٹر خوش ہوکر بولا ’’شاباش نوجوان ! لو یہ چاکلیٹ اپنے مُنہ میں پکڑکر اسٹول پر بیٹھ جاؤ ، ابھی شیر آئے گا ‘‘۔
نوجوان گھبراکر بولا ’’نہیں ! نہیں !! میں لڑکی کا نہیں ، میں تو شیر کا رول کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔
رؤف الدین ۔ملک پیٹ
………………………