شیشہ و تیشہ

وحید واجد ایم اے رائچور
اے ٹی ایم …!
پھر سے ناکام لوٹا بے چارہ
اس کے چہرہ پہ تھے بجے بارہ
رونی صورت تھی ! پُوچھا تو بولا
اے ٹی ایم اور بینک نے مارا
………………………
نسیم ٹیکمگڑھی
نرس …!
مہینہ بھر جو اُنھیں دیکھا پٹّیاں باندھے
تو پوچھا چوٹ تمہیں اتنا کیوں ستاتی ہے
بڑے میاں نے کہا مسئلہ یہ ہے دل کا
مرے علاج کو اک نرس گھر جو آتی ہے
………………………
شیخ احمد ضیاء
غزل (مزاحیہ)
مشکل میں لیلیٰ مجنوں کا ہے پیار اِن دِنوں
مجنوں میاں ہیں لیلیٰ سے بیزار اِن دِنوں
میک اپ وہ دن میں کرتی ہیں سو بار اِن دِنوں
بیگم لگے ہیں کانٹوں بھرا ہار اِن دِنوں
نسوانیت کو کھا ہی گیا جینس کاچلن
گم پائلوں کی ہوگئی جھنکار اِن دِنوں
نیتا ہمارے دیش کے سب چھوڑ چھاڑ کے
رشوت کے دام میں ہیں گرفتار اِن دِنوں
کیسے چلے گا دیش ترقی کی راہ پر
بیساکھیوں پہ چلتی ہے سرکار اِن دِنوں
تھرما میٹر کو اُلٹا پکڑتے ہیں اب طبیب
حیرت سے تکتے ہیں انھیں بیمار اِن دِنوں
بے کار جتنے لوگ تھے مسند نشیں ہیں اب
تھے اہل کار جتنے ہیں بے کار اِن دِنوں
اردو کے ساتھ ساتھ اسے انگلش بھی سکھائی
Monday کو کہہ رہی ہے وہ اتوار اِن دِنوں
سیل فون و نیٹ ہیں بچوں کے اب مشغلے ضیاءؔ
ٹھپ ہے کھلونے والوں کا بیوپار اِن دِنوں
………………………
فرق…!
٭  سعادت حسن منٹو کے ایک دوست نے ایک دن ان سے کہا : ’’منٹو صاحب، پچھلی بار جب آپ سے ملاقات ہوئی تھی تو آپ سے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ آپ نے مے نوشی سے توبہ کرلی ہے، لیکن آج مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آج آپ نے پھر پی ہوئی ہے‘‘۔
منٹو نے جواب دیا: ’’بھئی تم درست کہہ رہے ہو، اُس دن اور آج کے دن میں فرق صرف یہ ہے کہ اُس دن تم خوش تھے اور آج میں خوش ہوں‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
یاد دہانی …!
راہگیر بچے سے : تم نے اُنگلی پر یہ دھاگا کیوں باندھ رکھا ہے ؟
بچہ :  یہ دھاگہ امی نے باندھا تھا تاکہ میں خط پوسٹ کرنا نہ بھول جاؤں ۔
راہگیر : کیا تم نے خط پوسٹ کردیا؟
بچہ : نہیں ! امی خط دینا ہی بھول گئیں …!!
سید شمس الدین مغربی ۔ ریڈہلز
………………………
شروعاتِ لڑائی …!
بیٹے نے باپ سے پوچھا : ’’ڈیڈی ! لڑائی کیسے شروع ہوتی ہے ؟‘‘
باپ نے کہا : فرض کرو امریکہ اور روس میں نااتفاقی ہوجائے … بیوی نے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’یہ ناممکن ہے امریکہ اور روس میں کیوں نااتفاقی ہوگی ‘‘ ۔
شوہر نے کہا : ارے بھائی میں تو مثال دے رہا تھا ۔ بیوی نے کہا : تم بچے کے دماغ میں فضول اور واہیات باتیں مت بھرا کرو ۔
شوہر نے کہا لیکن فرض کرنے میں کیا حرج ہے ؟ بیوی نے کہا : نہیں تم بچے کو غلط راستے پر ڈال رہے ہو ۔
شوہر نے کہا : تم ہمیشہ میری بات کو کاٹ دیتی ہو۔ بیوی بولی : تم ہمیشہ بے پر کی اُراتے رہتے ہو ۔
شوہر بولا : تم بیوقوف و احمق ہو
یہ سُن کر بچہ بولا : میں سمجھ گیا لڑائی کیسے شروع ہوتی ہے …!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
بیوفا …!
٭  ایک عورت نے اپنی سہیلی سے کہا : آج میرے شوہر کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے ہی اگلے سات جنم تک بیوی بنانا پسند کریں گے ۔
سہیلی : میں پوچھتی ہوں اگلے سات جنم کے بعد کے جنم میں کیوں نہیں ؟ لگتا ہے تمہارے شوہر نے اگلے جنموں کے لئے ضرور کوئی لڑکی ڈھونڈ کے رکھی ہوگی ۔ یہ مرد ہوتے ہی بیوفا ہیں۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ سکندرآباد
………………………