شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
فقیر آئے اور بددُعا کرچلے!
تیری خواہش ہے اے میرے دْشمن
عین جنگل میں مْجھ کو شام پڑے
لے مری بد دْعا بھی سْنتا جا
جا تْجھے سی۔ ڈی ۔ اے سے کام پڑے
……………………………
شاداب بے دھڑک ؔ
نظم بے دھڑک
گیڈر کو بھی شیر بتانا پڑتا ہے
بھینس کے آگے بین بجانا پڑتا ہے
سانسد بننا بھارت میں آسان نہیں
باپ گدھے کو بھی بنوانا پڑتا ہے
مُنہ پہ سیاہی پھینکی جاتی کیچڑ بھی
گھونسے اور تھپڑ بھی کھانا پڑتا ہے
اُمیدوں پہ ’’جھاڑو‘‘ پھیر دی جاتی ہے
بستر چوراہوں پر لگانا پڑتا ہے
’ہاتھ‘ دکھاکر دیش کو لوٹا جاتا ہے
اور زہریلا ’کنول‘ کِھلانا پڑتا ہے
چائے کی پیالی میں طوفان بھی اُٹھتا ہے
وِش کو امرت کہہ کے پلانا پڑتا ہے
پان بنارس والا کے گانے گاکر
پنواڑی کو سر پہ بٹھانا پڑتا ہے
گھر والی کو ٹکٹ دِلا کے چُناؤ کا
گھر کو بھی بازار بنانا پڑتا ہے
اب ایسے ماحول میں شعر سُنائیں کیا
شعروں کو للکار بنانا پڑتا ہے
نوکِ قلم کو کرکے نشتر بیدھڑکےؔ
خامے کو ہتھیار بنانا پڑتا ہے
………………………
دکھ…!
٭ ایک صاحب کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی، اسپتال گئے تو وہاں ایک اور صاحب کی دونوں ٹانگیں ٹوٹی دیکھ کر بولے …!
’’کیا آپ کی دو بیویاں ہیں …؟‘‘
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔ پداپلی ، کریم نگر
………………………
ہم تو …!
استاد : وہ کونسی معروف شئے ہے جسے ہم کیوبا سے برآمد (Import) کرتے ہیں ؟
شاگرد : مجھے نہیں معلوم ۔
استاد (دوسرے شاگرد سے ) : تمہیں ضرور پتہ ہوگا شکّر کہاں سے آتی ہے ؟
شاگرد : ہم تو پڑوس سے مانگتے ہیں !
سلطان قمرالدین خسرو ۔ مہدی پٹنم
………………………
خواہش …!
٭ پرانے زمانے میں ایک ملک میں سکون ہی سکون تھا ، راجہ کے پاس کوئی بھی کسی قسم کی شکایت کرنے نہیں آتا تھا مگر راجہ کو یہ خواہش تھی کہ کوئی شکایت کرنے آئے ۔ آخر اس نے وزیر سے مشورہ کیا تو وزیر نے مشورہ دیا کہ جو آدمی بھی اپنے کام پر جائے اس سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ چنانچہ راجہ نے ہر آدمی پر ٹیکس لگانے کے احکاما ت جاری کئے ۔ تب بھی کوئی شکایت کو نہیں آیا ۔ آخر راجہ نے ٹیکس کی رقم میں 10 فیصد اضافہ کیا تو بھی کوئی شکایت کرنے نہیں آیا ۔ آخر راجہ نے وزیر کے مشورہ پر یہ احکامات جاری کئے کہ جو بھی آدمی اپنے کام سے جائے اسے تین تین جوتے رسید کئے جائیں۔ لوگ جوتے کھاتے ہوئے خوشی خوشی اپنے اپنے کام پر جارہے تھے ۔ کچھ دنوں کے بعد آخرکار راجہ کے پاس شکایت لیکر کچھ لوگ آگئے تو راجہ کو بہت خوشی ہوئی اور ان سے پوچھا کہ کیا شکایت لے کر آئے ہو …؟
لوگوں نے جواب دیا ، جناب عالی ! ہمیں اپنے کام پر جانے میں دیری ہورہی ہے ، ہماری تعداد زیادہ ہے اور جوتے مارنے والوں کی تعداد کم ہے ۔ اسی لئے یہ درخواست لیکر آئے ہیں کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھادی جائے تاکہ ہمیں لمبی لمبی لائین میں ٹہرکر وقت خراب کرنے کی نوبت نہ آئے اور ہمیں وقت پر اپنے اپنے کام پر جانے میں سہولت ہو ۔
سید آدِب علی۔ رامیا باؤلی ، محبوب نگر
………………………
بڑا آدمی …!
٭ ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا: ’’ہماری گلی میں روزانہ ایک ایسا شخص آتا ہے جس سے لوگ معافی مانگتے ہیں ‘‘
دوسرے دوست نے تعجب سے پوچھا : ’’کیا وہ بڑا آدمی ہے ؟ ‘‘
پہلے دوست نے کہا : ’’نہیں! وہ بھکاری ہے ‘‘
سید شمس الدین مغربی ۔ حیدرآباد
………………………