انورؔ مسعود
اندھیر گردی
کچھ نہ پوچھو اُداس ہے کتنا
کتنا سہما ہوا سا رہتا ہے
دل پہ سایہ ہے لوڈ شیڈنگ کا
’’شام ہی سے بْجھا سا رہتا ہے‘‘
……………………………
شاداب بے دھڑک ؔ
غزلِ شاداب
کیسا دور آیا ہے نبھانا پڑتا ہے
جینے کی خاطر مرجانا پڑتا ہے
راس کہاں آتی ہے گدائی ہر اک کو
روز اس پیشے کو ’زخمانا‘ پڑتا ہے
کھیل سپیروں کا ہے راج چلانا بھی
سانپوں کو بھی دودھ پلانا پڑتا ہے
بنکر درگاہِ دل کا خود سجادہ
اپنا جنازہ آپ اُٹھانا پڑتا ہے
دُنیااِک سرکس ہے کردار ہم اس کے
شیروں پر بندر کو بٹھانا پڑتا ہے
کتنے سقراط آج بھی داؤ پہ لگتے ہیں
سچ کو جب سولھی پہ چڑھانا پڑتا ہے
سُرخی یونہی نہیں بکتی اخباروں کی
سچائی کو خوں سے رنگانا پڑتا ہے
دل کا خوں کرنا پڑتا ہے ہردم
جب غم کے ماروں کو ہنسانا پڑتا ہے
رہنا ہو گر مست انا کے نشّے میں
افعی کو دستار بنانا پڑتا ہے
خاموشی کو چیخ کے زمرے میں رکھ کر
آنکھوں سے بھی شور مچانا پڑتا ہے
رنگ رُسوائی دیوار پہ چمکاکر
شہرت کو شادابؔ بنانا پڑتا ہے
………………………
شریف بندہ !
٭ ایک صاحب اپنے دوست سے : ایک شریف بندے کو اور کیا چاہئے ایک بیوی جو پیار دے ، ایک بیوی جو اچھا کھانا بنائے ، ایک بیوی جو اُس کی خدمت کرے ، ایک بیوی جو فضول خرچ نہ ہو اور یہ چار بیویاں مل جُل کر رہیں۔
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔ پداپلی ، کریمنگر
………………………
اثر نہیں پڑے گا !
پریمی (اپنی پریمیکا سے ) : چلو جلدی سے چل کر شادی کرلیتے ہیں ۔
پریمیکا: پہلے اپنے حالات تو ٹھیک ہوجائیں ؟
پریمی : تم کیوں فکر کرتی ہو ۔ شادی سے کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ تم اپنی نوکری جاری رکھنا اور میں اپنی نوکری جاری رکھوں گا ۔
اسری جمیل الرحمن ۔ گولکنڈہ
………………………
مچھر اور ہاتھی !
امتیاز ( پرویز سے ) بتاؤ مچھر اور ہاتھی میں کیا فرق ہے ؟
پرویز : مچھر ہاتھی کو کاٹ سکتا ہے مگر ہاتھی مچھر کو نہیں کاٹ سکتا ۔
ریشما کوثر ۔ میرباغ کالونی ، نلگنڈہ
………………………
آپ کا بچہ کونسا ہے ؟
٭ ایک اسپتال میں ایک باپ اپنے بچے کو شیشے کے بنے ہوئے پارٹیشن کے پیچھے سے دیکھ ہا تھا ۔ بچوں کے جھولوں کی کئی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ اتنے میں ایک صاحب بھی آکر بچوں کو جھانکنے لگے ۔ اس آدمی نے اُن صاحب سے پوچھا ’’آپ کا بچہ کونسا ہے؟ ‘‘
وہ صاحب نے پہلے قطاروں پر ایک نظر دوڑائی اور پھر کہا : پہلی قطار میں میرے ہی بچے ہیں ‘‘ ۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
آزادی !!
٭ پاگل خانے کے معائنے پر آئی ہوئی ایک سوشل ورکر خاتون نے پاگل خانے کے سپرنٹنڈنٹ سے کہا ’’اُف کیسی جلاّد صفت نظر آتی ہے وہ عورت جس کے پاس سے ہم ابھی ابھی راہ داری میں گزرے تھے ، کیا وہ خطرناک ہے ؟
سپرنٹنڈنٹ ٹالنے کے انداز میں بولا کبھی کبھی خطرناک ہوجاتی ہے ۔
خاتون نے پوچھا : ’’تو پھر آپ نے اسے اتنی آزادی کیوں دے رکھی ہے ؟‘‘
سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا ’’مجبوری ہے ‘‘۔
خاتون نے کہا : کیسی مجبوری ؟ کیا وہ یہاں داخل نہیں ہے ؟
سپرنٹنڈنٹ نے وضاحت کی ، جی نہیں نہ وہ یہاں داخل ہے اور نہ اس پر میرا کنٹرول ہے ، وہ میری بیوی ہے !‘‘۔
ایم اے وحید رومانی ۔ پھولانگ ، نظام آباد
……………………………