محمد امتیاز علی نصرتؔ
فطرت…!
حسد ہے ، بغض ہے ، رنجش ہے ، عداوت ہے
زمانے والے کہتے ہیں یہی انسانی فطرت ہے
حقیقت میں دوستو یہ سب زمانے کی عطائیں ہیں
وگر نہ فطرتِ انساں تو محبت تھی ، محبت ہے
………………………
اقبال شانہؔ
ہاسپٹل میں عید
کس لئے چاند رات کو آخر
چھت پہ دیکھا تو تم ہوئے ظاہر
بال شب کو سکھارہے تھے کیا
خود ہی کچھ گنگارہے تھے کیا
اک بڑا بیوقوف تھا وہ تو
دیکھ کر چاند کہہ دیا تم کو
اور خوشی سے اُچھل پڑے تھے تم
چھت سے نیچے پھسل پڑے تھے تم
اور نہ جانے کہاں کہاں کی پھر
ہڈیاں ٹوٹ ہی گئیں آخر
ایکس رے وارڈ میں پڑے ہو تم
مردہ خانے میں ڈھونڈتے ہیں ہم
اک تمہاری تو دید ہوتی ہے
’’ہاسپٹل‘‘ میں عید ہوتی ہے
………………………
اس کے بس کا …!
٭ کنور مہندر سنگھ بیدی جن دنوں دہلی کے مجسڑیٹ تھے، ان کی عدالت میں چوری کے جرم میں گرفتار کئے گئے ایک نوجوان کو پیش کیا گیا۔
کنور صاحب نے نوجوان کی شکل دیکھتے ہوئے کہا : ’’میں ملزم کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، ہتھکڑیاں کھول دو، یہ بیچارہ تو ایک شاعر ہے، شعر چرانے کے علاوہ کوئی اور چوری کرنا اسکے بس کا روگ نہیں‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
پلاسٹک سرجری
٭ ایک صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا
’’پلاسٹک سرجری کتنے کی ہو گی؟‘‘
ڈاکٹر : ’’پانچ لاکھ کی‘‘
وہ صاحب : ’’اگر پلاسٹک ہم خود دیدیں تو؟‘‘
مرزا عثمان بیگ ۔ جمال بنڈہ ، فاروق نگر
………………………
غریب آدمی !
بیٹا ماں سے : ’’ امی جان ! مجھے پانچ روپئے چاہیئے، مجھے ایک غریب آدمی کو دینا ہے۔
ماں نے پوچھا : وہ آدمی کہاں ہے؟ ‘‘
بیٹے نے جواب دیا ’’ امی ! وہ گلی کے موڑ پر کھڑا آئس کریم بیچ رہا ہے۔‘‘
شیخ فہد۔چندرائن گٹہ
………………………
کیا کروں؟
آدمی : (بھکاری سے ) گھر گھر جاکر بھیک مانگتے تمہیں شرم نہیں آتی ؟
بھکاری : کیا کروں میرے گھر آکر کوئی بھیک دیتا ہی نہیں ؟
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ س
………………………
خوفناک…!
اسٹوڈنٹ : سر لوگ اُردو اور انگریزی میں بات کرتے ہیں ، میاتھس میں بات کیوں نہیں کرتے ۔
ٹیچر : زیادہ 3,5 نا کرو ، 9,2,11 ہوجاؤ ورنہ 6 کے 36 نظر آئیں گے اور 32 کے 32 باہر آجائیں گے ‘‘۔ اسٹوڈنٹ : سر اُردو اور انگریزی ہی ٹھیک ہے ، میاتھس تو بولنے میں بھی بہت خوفناک ہے …!!
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔پداپلی ، کریمنگر
………………………
دل کا معاملہ ہے !
٭ ایک صاحب ایک محترمہ پر عاشق ہوگئے ۔ عشق اپنے پورے شباب پر پہنچ گیا ۔ وہ جب تک روزانہ ایک دوسرے سے نہ مل لیتے ان کو نیند نہ آتی تھی ۔ محبوبہ لوگوں کی نظروں کو دھوکہ دینے کیلئے اپنے عاشق کو ہر روز کسی نہ کسی نئے مقام پر پہنچنے کا وقت دیتی ، کبھی پارک میں ، کبھی ہوٹل میں ، کبھی سینما ہال میں اور عاشق اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہر روز مختلف بسیں بدل بدل کر ، انتظار میں تھک ہارکر ، لوگوں سے پتے پوچھ کر پوچھ کر بالآخر مقام ملاقات پر پہنچ جاتا ۔
ایک مرتبہ جب وہ اسی طرح تھکا ہارا محبوبہ کے پاس پہنچا تو محبوبہ بڑے رومانٹک موڈ میں تھی اور جذبہ عشق میں بولی ’’پیارے…! میرا جی چاہتا ہے کہ آج تمہیں کوئی تحفہ دوں، بتاؤ تم کیا پسند کرو گے ‘‘ ۔
عاشق تھکے ہوئے انداز میں بولا ’’مجھے تو تم صرف ایک سائیکل دلا دو !‘‘ ۔
مبشر سید ۔ چنچل گوڑہ
………………………