شیشہ و تیشہ

شعیب علی فیصل
قطعہ
’’آئے ہیں مہمان گھر میں کچھ تو لا بازار سے‘‘
ماں نے بیٹے سے کہا تو بھاگا وہ رفتار سے
ماں نے اس کو روک کر پوچھا کہ وہ کیا لائے گا
’’آٹو لانے جاؤنگا‘‘ ماں سے کہا یہ پیار سے
………………………

احمد شاہ کومی
سویرا…!
میں اک سویرا دیکھتا ہوں
میں انقلاب سونگھتا ہوں
میری آنکھوں میں چمک ہے اب
میرے دل میں اُمنگ ہے اب
میں دیکھتا ہوں کہ سارے رہزن
دبک گئے ہیں بلوں میں اپنی
عام آدمی جاگا ہے اب
چباکے رکھ دے گا کہ بھاگ جاؤ
اب عام آدمی آزاد ہوگا
اب عام آدمی آزاد ہوگا
نہ ہندو نہ مسلم ۔ نہ مندر نہ مسجد
اب انسان ہوگا اور انصاف ہوگا
اب عام آدمی آزاد ہوگا
اب عام آدمی آزاد ہوگا
………………………

چمچہ لاؤ …!
٭ ایک تقریب میں ٹیبل پر کھانا کھاتے ہوئے شاعر ، کالم نگار ، افسانہ نگار حالات حاضرہ پر محو گفتگو تھے ۔ ایک افسانہ نگار نے ویٹر سے کہا Spoon لاؤ ۔ اس کا ساتھ دیتے ہوئے شاعر نے بلند آواز میں کہا چمچہ لاؤ … چمچہ …!!
ویٹر نے جواب دیا … چمچہ نہیں ہے ۔
کالم نگار نے بے ساختہ کہا : ہندوستان جیسے ملکوں میں چمچوں کی قلت … تعجب کی بات ہے …!!
دستگیر نواز ۔ حیدرآباد
………………………

صحیح فیصلہ…!!
٭ ایک سہیلی دوسری سہیلی سے جو خوبصورت تعلیم یافتہ اور پوسٹ گرائجویٹ تھی اُس سے دریافت کیا کہ کیوں اُس نے شادی کے لئے پولیس ڈی ایس پی اور ڈاکٹر کے رشتے چھوڑکر کالج کے لکچرر کا رشتہ پسند فرمایا ؟
نئی نویلی دلہن نے شرماتے ہوئے کہا : ’’دیکھ رما پولیس ڈی ایس پی لا اینڈ آرڈر ، بندوبست اور دیگر کام کہہ کر بہت کم توجہ گھر والوں کو دیتے ہیں اور ڈاکٹر پیشنٹ سیریس اور آپریشن کہہ کر اپنا زیادہ تر وقت پیشنٹ کے پیچھے صرف کرتے ہیں ۔ کالج لکچرر کو اس لئے پسند کیا یہ کچھ زیادہ ہی مہذب رہتے ہیں ، تھوڑی غلطی پر بھی Repeat Again ، Repeat Again دہراتے ہیں ‘‘۔
یہ سن کر مسکراتے ہوئے سہیلی نے دلہن سے کہا ’’تم نے بہت سمجھداری سے صحیح فیصلہ کیا ہے …!!‘‘
محمد اختر حسین۔سعیدآباد ، حیدرآباد
………………………

ہونا تو یہ چاہئے تھا …!
٭ مولانا عبدالرحمٰن جامی مشہور فارسی شاعر اور صوفی بزرگ تھے اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ صوفی منش لوگ بھی انکی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ ایک مہمل گو شاعر جس کا حلیہ صوفیوں جیسا تھا، انکی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سفرِ حجاز کی طویل داستان کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے دیوان سے مہمل شعر بھی سنانے لگا، اور پھر بولا: ’’میں نے خانۂ کعبہ پہنچ کر برکت کے خیال سے اپنے دیوان کو حجرِ اسود پر ملا تھا‘‘۔
یہ سن کر مولانا جامی مسکرائے اور فرمایا: ’’حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تم اپنے دیوان کو آبِ زم زم میں دھوتے‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………

کیوں نہیں بتایا …!
بیوی : تم نے مجھے شادی سے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تمہاری پہلے سے تین بیویاں ہیں؟
شوہر : بتایا تو تھا کہ ’’میں تمہیں ملکہ ، رانی اور شہزادی کی طرح رکھوں گا …!‘‘
محمد امتیاز علی نصرتؔ۔ پداپلی ، کریمنگر
………………………
دھوکہ !!
٭ ٹیچر ( کاپی دیکھ کر ) یہ تحریر تمہاری نہیں ہوسکتی ، ضرور تمہارے بھائی نے لکھا ہے ۔
امتیاز: نہیں جناب ! بات یہ ہے کہ میں نے ہی اپنے بھائی کے پین سے لکھا ہے ۔ اس لئے دھوکہ ہورہا ہے ۔
سیدہ ریشماں کوثر ۔ دیورکنڈہ
………………………