باقر تحسینؔ
قاتلوں کے چہرے بھی …!
کیا یہی زمانے کی ہم پہ مہربانی ہے
جس طرف نظر ڈالو اُس طرف گرانی ہے
بھوک ، پیاس کے مارے کس قدر شکستہ ہیں
انگ انگ سے اُن کے پھوٹتی جوانی ہے
سر چھپانے اب کوئی آسرا نہیں اُن کو
آسماں کے سائے میں زندگی بتانی ہے
کرب ان کے چہروں پر دیکھئے نمایاں ہے
بھیگی بھگیی پلکیں ہیں آلودہ پیشانی ہے
بے بسی کا عالم ہے زندگی کا ماتم ہے
قابلِ رحم ان کی ساری زندگی ہے
خون ہے یہ انساں کا رنگ لائے گا ایک دن
قاتلوں کے چہرے بھی کتنے زعفرانی ہے
انتخاب سے پہلے صرف جھوٹے وعدے تھے
انتخاب ہوتے ہی ان پر نظرثانی ہے
صبح کو بیاں دے کر شام کو بدل ڈالا
اچھے ، سچے لیڈر کی کیا یہی نشانی ہے
لیڈروں پہ تم تحسینؔ اب بھروسہ مت کرنا
دل میں اُن کے کینہ ہے لب پہ قدر دانی ہے
………………………
اوور ٹائم …!
٭ ایک صاحب دن میں سورہے تھے کہ ان کو مچھر نے زور سے منہ پر کاٹا ، وہ ہڑبڑا کر اُٹھ گئے اور کہنے لگے :
’’کیا یار مچھر ! آج دن کے وقت بھی کاٹ رہے ہو ؟ ‘‘
مچھر بولا : ’’آج میں اوور ٹائم کررہا ہوں !‘‘
………………………
گدھے کی اولاد …!
٭ ایک گدھا کسی گھر کی دیوار سے کان لگائے کھڑا تھا کہ وہاں سے ایک بکری کا گزر ہوا ۔ اس نے گدھے سے پوچھا : ’’تم یہاں کیا کررہے ہو ؟‘‘
گدھے نے جواب دیا : ’’اندر دو آدمی لڑرہے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو گدھے کا بچہ کہہ رہے ہیں ۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان دونوں میں سے میرا بچہ کونسا ہے !!‘‘
ڈاکٹر فوزیہ چودھری ۔ بنگلور
………………………
ٹوٹ پڑو…!
٭ ایک فوجی افسر نے ترقی کی خوشی میں اپنے ماتحت سپاہیوں کی دعوت کی اور حکم دیا کہ : ’’کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑو جیسے دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں ‘‘۔
سپاہیوں نے ویسا ہی کیا ۔ ایک سپاہی پیٹ بھرکر کھاچکا تو باقی مٹھائیاں جیپ میں رکھنے لگا۔ فوجی افسر نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے پوچھا: ’’کیا کررہے ہو ؟ ‘‘
سپاہی نے جواب دیا : ’’جتنوں کو مار سکا ماردیا ، باقی کو قیدی بنارہا ہوں …!!‘‘
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔ پدا پلی ، کریمنگر
………………………
کہاں ہے نشان …!
٭ جیب کتروں نے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کی جیب کاٹ لی ، آفیسر نے اپنے ماتحت سے پوچھا تم نے جیب کتروں کو گرفتار کیا ۔
ماتحت نے کہا :’’نہیں صاحب وہ فرار ہوگئے…!‘‘
آفیسر : لیکن کیسے …!
ماتحت : جناب والا ! میں نے اُن کی انگلیوں کے نشان محفوظ کرلئے ہیں ۔
آفیسر : لاؤ مجھے دکھاؤ ، کہاں ہیں نشان…
ماتحت : جی میرے گال پر …!!
رشید شوقؔ ۔ بانسواڑہ
………………………
مفاہمت …!
٭ ایک محلے میں سیاسی جماعتوں کے دو سرگرم کارکنوں کے درمیان جم کر جھگڑا ہوگیا۔ بات ہاتھا پائی تک پہنچی تو وہاں سے گزرتے ہوئے ایک قدیم جماعت کے کارکن نے ہجوم کو دیکھ کر دریافت کیا کہ کیا ہوا؟ تو کسی نے بتایا کہ دو سیاسی جماعت کے کارکنوں کے بیچ جم کر ہاتھا پائی ہورہی ہے ۔ اتنا سنتے ہی وہ بیچ میں جاکر دونوں میں صلح کرانے لگا : ’’چلو بھائی یہ لڑنا جھگڑنا چھوڑو اور دونوں گلے مل کر مفاہمت کرلو تو ایک کارکن نے اکڑ تے ہوئے کہا کہ
: ’’مفاہمت ! نہیں میں نہیں کرتا ‘‘۔
اتنا سن کر اُس قدیم جماعت کے کارکن نے کہا ’’تم کس کھیت کی مولی ہو جناب ! تمہاری پارٹی کے ایم پی ، ایم ایل اے بھی آج مفاہمت کرنے پر مجبور ہے ‘‘۔
دستگیر نواز۔لنگرحوض
………………………