شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر معید جاویدؔ
افراتفری…!
کیسی ہے یہ افرا تفری
شیر نظر آتا ہے بکری
مودی جی کے راج میں دیکھو
الٹی سیدھی گھومے چکری
………………………
استاد رامپوری
یہ سال دوسرا ہے
(جنوری سے ڈسمبر تک کا حساب کتاب )
جب تم سے اتفاقاً میری نظر ملی تھی
کچھ یاد آرہا ہے شاید وہ جنوری تھی
مجھ سے ملیں دوبارہ یوں ماہ فروری میں
جیسے کہ ہم سفر ہو تم راہِ زندگی میں
کتنا حسیں زمانہ آیا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھیں تم وعدوں کی ٹارچ لے کر
باندھا جو عہدِ اُلفت اپریل چل رہا تھا
دنیا بدل رہی تھی موسم بدل رہا تھا
لیکن مئی میں جبکہ دشمن ہوا زمانہ
ہر شخص کی زباں پر بس تھا یہی فسانہ
دنیا کے ڈر سے تم نے بدلی تھیں جب نگاہیں
تھا جون کا مہینہ لب پر تھیں گرم آہیں
جولائی میں جو تم نے کی بات چیت کچھ کم
تھے آسماں پہ بادل اور میری آنکھ پُرنم
ماہِ اگست میں جب برسات ہورہی تھی
بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہورہی تھی
توڑا جو عہدِ اُلفت وہ ماہ تھا ستمبر
بھیجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ طلب کا لیٹر
تم غیر ہوچکی تھیں اکتوبر آگیا تھا
دنیا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا
جب آگیا نومبر ایسی بھی رات آئی
مجھ سے تمھیں چھڑانے سج کر بارات آئی
بے کیف تھا ڈسمبر جذبات مرچکے تھے
ان سرد مہریوں سے ارماں ٹھٹھرچکے تھے
پھر جنوری ہے لیکن اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا یہ سال دوسرا ہے
………………………
عابی مکھنوی
سنا ہے سال بدلے گا…!
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے چال بدلے گا
پرندے بھی وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا
بدلنے ہیں تو دن بدلو بدلتے ہو تو ہندسے ہی
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا
وہی حاکم ، وہی غربت ، وہی قاتل ، وہی غاصب
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا
اگر ہم مان لیں عابیؔ مہینہ ساٹھ سالوں کا
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا
مرسلہ : ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
محمد نواز
سنا ہے کل سے نیا سال ہو گا
خیمہ زن جب تیرا جمال ہو گا
ہر کلی میں یہی سوال ہو گا
آپ نے جس سے محبت کی ہے
وہ شخص کتنا باکمال ہو گا
گئے لمحات کو سوچا نہ کرو
تیرے ماضی میں میرا حال ہو گا
جب بھی شکوہ زبان پر آیا
عشق کا بس وہیں زوال ہو گا
سوکھی ٹہنی کو دیکھ کر سوچا
تیرے بن کیا ہر کا حال ہو گا
اک برس اور تیرے بن بیتا
سنا ہے کل سے نیا سال ہو گا
………………………
فرح بھٹو
(خیالی پلاؤ)’’نیا سال آنے کو ہے‘‘
ڈھل جائیگی ظلمت کی رات نیا سال آنے کو ہے
کرو نہ اب دکھ کی کوئی بات نیا سال آنے کو ہے
شہید کی ماں نے اپنے آنسوں پونچھ کر یہ کہا
بلند ہیں ہمارے جذبات نیا سال آنے کو ہے
ہوگی سال نو کی صبح اجلی اجلی روشن روشن
حسین ہوں گے سب لمحات نیا سال آنے کو ہے
میری دھرتی سیراب ہوگی سکھ کے ساون سے
خوشیوں کی ہوگی برسات نیا سال آنے کو ہے
بچھڑے ملے گے آخر بھولے بھی گھر لوٹے گے
پھر ہوگا ہاتھوں میں ہاتھ نیا سال آنے کو ہے
کئی معصوم آنکھوں نے سہانے خواب دیکھے ہیں
تعبیر ان کی لائے گا سات نیا سال آنے کو ہے
اداس چہروں پر ہنسی کھلکھلائے گی
دیکھ لینا یہ کرامات نیا سال آنے کو ہے
وطن پر جان دیتے ہیں ہم وفادار اتنے ہیں
بدل ڈالیں گے یہ حالات نیا سال آنے کو ہے
زندگی کی بساط پر لینی ہمیں بازی فرحؔ
دینی ہے شر کو مات نیا سال آنے کو ہے
…………………………