شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
زبانِ غیر…!
کبھی نہ زیر کیا نقطہ ہائے بالا کو
ہمیں پسند نہ آیا کہ تُو کو یُو کرتے
کبھی لکھی نہیں درخواست ہم نے انگلش میں
’’ زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے‘‘
………………………
فرید سحرؔ
غزل (طنز و مزاح)
فجر کی جب بھی اذاں ہوتی ہے
بے نمازی پہ گراں ہوتی ہے
شعر بھی بک رہے ہیں آج یہاں
شاعروں کی بھی دوکاں ہوتی ہے
ان کے کپڑے بھی ہمیں دھوتے ہیں
شوہری ایسی میاں ہوتی ہے
روز ہوتی ہے عید نیتا کی
گھر میں جنتا کے خزاں ہوتی ہے
گھورتے اس کو سبھی رہتے ہیں
اچھی صورت بھی جہاں ہوتی ہے
اوج پر اپنی ہے یہ تُکبندی
شاعری ہم سے کہاں ہوتی ہے
اپنے فاقوں کو چھپانا ہے عبث
بھوک چہرے سے عیاں ہوتی ہے
بیوی اووروں کی ہی جہاں میں سحرؔ
خوبصورت و جواں ہوتی ہے
………………………
کون چاہتا ہے ؟
٭  ایک پروفیسر صاحب شادی شدہ زندگی پر تقریر کررہے تھے ۔ دوران تقریر پروفیسر نے سوال کیا : ’’کون چاہتا ہے کہ اُس کی بیوی چالاک ہوجائے ؟‘‘
سب بیٹھے رہے صرف ایک صاحب کھڑے ہوئے ۔
پروفیسر صاحب نے پوچھا : کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیوی چالاک ہوجائے ؟
وہ صاحب مایوسی سے : چالاک …؟ نہیں ! نہیں !! میں سمجھا ’’ہلاک ‘‘ ہوجائے !!
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔ پدا پلی ، کریمنگر
………………………
بہت اچھا ہوا !
٭  ڈاکٹر کے پاس ایک عورت آئی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک پھنسی ہوگئی تھی ۔ ڈاکٹر نے اس کو توجہ سے دیکھ کر کہا : ’’بہت اچھا ہوا کہ تم آج ہی آگئیں‘‘
عورت : (ڈرتے ہوئے ) کیا مرض خطرناک ہے ؟
ڈاکٹر : بالکل نہیں ! اگر تم کل تک صبر کرتیں  تو خود ہی ٹھیک ہوجاتی میری فیس کا   نقصان ہوتا !
ڈاکٹر فوزیہ چودھری ۔ بنگلور
………………………
ہمارے لیڈر ؟
٭  ایک مزدور لیڈر نے جلسئہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’مجھے محنت و مشقت بہت پسند ہے اسی لئے میں گاؤں کی سخت دھوپ میں درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر کسانوں کو محنت و مشقت کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتا ہوں‘‘۔
ابن القمرین ۔ شاہ علی بنڈہ
……………………………
انکار کی سزا !!
٭  شادی کے چھ ماہ بعد میاں بیوی میں جھگڑا ہوا غصے سے بے قابو ہوکر شوہر نے بیوی کی پُشت پر گھونسہ رسید کیا ۔ اتفاق سے پادری صاحب وہاں سے گذر رہے تھے انھوں نے کھڑکی سے گھونسہ پڑتے دیکھا تو فوراً بیچ بچاؤ کیلئے دوڑے شوہر نے فادرکو گھرمیں داخل ہوتے دیکھا تو سنبھل کر بیوی کی پُشت پر ایک اور گھونسہ رسید کیا اور گرجدار آواز میں بولا ’’اب بھی چرچ جانے سے انکار کروگی !!‘‘
ایم اے وحید رومانی ۔نظام آباد
………………………
تکلیف کی بات
٭ ایک صاحب گہری نیند سورہے تھے ۔ آدھی رات کو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔ انھوں نے ریسور اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی ’’آپ کو جو تکلیف ہوئی اس کی معافی چاہتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ میں آپ کے پڑوس میں رہتا ہوں ۔ آپ کاکتا ساری رات بھونکتا رہتا ہے ۔ جس سے مجھے رات بھر نیند نہیں آتی ۔ براہ کرم اس کاکچھ علاج کیجئے ‘‘۔ اس کے بعد ان صاحب نے شکریہ کہہ کر فون بند کردیا۔
اگلی رات اسی وقت ان صاحب نے اپنے پڑوسی کو فون کیا اور کہا آپ کو جو تکلیف ہوئی اس کی معافی چاہتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ وہ کتا میرا نہیں ہے ۔
ارملان ندیم ۔شولاپور
…………………………