شیشہ و تیشہ

 

محمد شفیع مرزا انجمؔ
غزل (طنز و مزاح)
مچھر نے آکے نیند میں پھر وار کردیا
سوئے ہوئے کو نیند سے بیدار کردیا
شاید ہمارے خواب تھے تقدیر سے جڑے
تعبیر پوچھ پوچھ کے بیکار کردیا
موتی سمٹ رہاتھا میں فکر و خیال کے
اُن کی نگاہِ شوق نے سرشار کردیا
رشوت فریب جھوٹ کرپشن تو عام ہیں
چہرہ بدل کر تم نے چمتکار کردیا
پولیس کی مار پڑتے ہی سچ بولنے لگا
مجرم نے اپنے جرم کا اقرار کردیا
جوڑے کی رقم راہ کی دیوار بن گئی
لڑکے کے والدین نے انکار کردیا
داماد روزگار سے محروم جب ہوا
سُسرے نے اس کے نام گھردار کردیا
اس کی غزل کو سنتے ہی سرپیٹتے ہیں سب
علم و ہنر ہتوڑے سے مسمار کردیا
………………………
مدن پوری ایک پلیٹ …!
٭  ایک شخص کھانا کھانے کی غرض سے ایک معیاری ہوٹل پہنچا اور میز پر رکھی ہوئی کھانے کی لسٹ دیکھا جس پر کئی اقسام کے کھانوں کے نام لکھے تھے ۔ وہ شخص کافی دیر تک لسٹ دیکھتا رہا آخر لسٹ میں سب سے نیچے لکھا ہوا ایٹم جس کا نام ’’مدن پوری‘‘ تھا اُسے پسند آیا اور اُس نے ویٹر کو بُلایا اور کہا :
’’یہ مدن پوری ایک پلیٹ لیکر آؤ ‘‘
ویٹر نے کہا جناب ! یہ نام کسی ڈش کا نہیں ہمارے ہوٹل کے مالک کا ہے ۔
عبداﷲ ۔حیدرآباد
………………………
خالص…!
٭  ایک مشاعرے میں بزرگ شاعر نوح ناروی اپنا کلام پڑھ رہے تھے۔ ان کے نقلی دانتوں کی بتیسی شائد ڈھیلی تھی اچانک شعر پڑھتے ہوئے نیچے گر گئی۔ نوح صاحب جیسے ہی بتیسی اٹھانے کے لئے جھکے اسرارالحق مجازؔ نے مائیک پر آ کر نہات ادب سے کہا: ’’حضرات اب آپ استاد سے ایک خالص زبان کا شعر سنئے…!‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
ڈبل بھیک…!
خیرات مانگنے والی ( بھکارن ) : بی بی خیرات دیجئے …!
بی بی ( خیرات دینے والی ) تم جب بھی ہمارے گھر مانگنے آتے ہو میں خیرات میں کچھ نہ کچھ دیا کرتی ہوں ۔ مجھے تعجب ہے کہ تم غریب ہو ساتھ میں تمہارے یہ دو چھوٹے بچے ہیں اُس کے اوپر پھر تم حمل سے ہو؟ تھوڑا اپنے بچوں پر اپنے حال پر رحم کیا ہوتا ، تم ہمیشہ ہمارے گھر مانگنے آتی ہو اس لئے کہہ رہی ہوں ۔
خیرات مانگنے والی :  بی بی ! اولاد ہوگی تو خوشی ہوگی ، آپ رحمدل ہیں ، میں جب بھی بھیک مانگنے کیلئے آتی ہوں آپ مجھے دس روپئے دیتی ہیں لیکن آج آپ بھیک ڈبل دیدیں تو میں آپ پر بھی ایک بات ظاہر کروں گی اس لئے کہ آپ بھی میرے لئے پرانے ہیں۔
بی بی : ہاں یہ لو بیس روپئے اور بات بتاؤ؟
خیرات مانگنے والی : بی بی جی ! دراصل بات یہ ہے کہ مجھے جو خیرات ملتی ہے اس خیرات میں سے مجھے میری نند کو آدھا دینا پڑتا ہے ۔
بی بی : نند کو کیوں دینا پڑتا ہے ؟
بھکارن : بات دراصل یہ ہے کہ میرے ساتھ جو دو بچے ہیں وہ میری نند کے ہیں …!!
محمد فصیح الدین ۔ کاماریڈی
………………………
اس سے بھی …!
٭  ایک شخص رسوئی گیس کمپنی کو گیس بُک کرنے گیا جہاں پر پہلے سے ہی گیس بُک کرنے والوں کی بھی قطار لگی ہوئی تھی ۔ وہ بھی لائین میں کھڑا ہوا ۔ کافی وقت کے بعد بھی لائین آگے نہیں بڑھی تو اس کو غصہ آیا ۔ اپنے ساتھ ٹھہرے شخص سے کہا ’’میں منیجر کے پاس جاکر اُسے چار جوتے مارکر    آتا ہوں ‘‘ ۔
وہ دو منٹ میں ہی واپس آکر پھر قطار میں ٹھہرگیا…!
اُس کے ساتھ ٹھہرے ہوئے شخص نے پوچھا ’’اتنا جلدی جوتے مارکر آگئے ؟‘‘
وہ شخص بولا : ’’نہیں یار ! وہاں مارنے والوں کی قطار اس سے بھی لمبی تھی …!!‘‘
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
………………………