شیشہ و تیشہ

ہوئی شادی …!
ہوئی شادی تو پاؤں میں پڑی ہیں اتنی زنجیریں
کبھی بیگم کے نخرے اور کبھی بیگم کی تقریریں
سمجھ آنے لگیں اقبالؔ کے مصرعوں کی تفسیریں
نکاحِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
………………………
فرید سحرؔ
غزل ( طنز و مزاح)
بن بلائے ہی بہت کھائی ہے دعوت میں نے
کی ہے اغیار کے چہلم میں بھی شرکت میں نے
کی ہے احباب کی دل کھول کے غیبت میں نے
اور بدلے میں بہت پائی ہے رشوت میں نے
اُلٹا مجھ کو ہی بہت ڈانٹ دیا سُسرے نے
جب کبھی اُن سے کی بیگم کی شکایت میں نے
اب مرے نام میں آتا نہیں سالا کوئی
ایسی سالوں کی بنائی ہے جو دُرگت میں نے
لکھ دیا نام پہ سب کچھ تُونے جب سے میرے
’’کی ہے محسوس ترے پیار کی شدت میں نے‘‘
آج مولا نے نوازا ہے مجھے خوب مگر
اپنے بچپن میں بہت دیکھی ہے غربت میں نے
دیکھتے دیکھتے میں ہوگیا قلاّش میاں
اس قدر ٹوٹ کے کی اس سے محبت میں نے
نااہل لوگ سمجھتے ہیں مجھے شائد اب
آج تک کی نہیں محفل کی صدارت میں نے
چاند بی بی ہے یہاں نام ہزاروں کا مگر
آج تک دیکھی نہیں چاند کی صورت میں نے
جاکے میں بیٹھ گیا پاس ذرا مالن کے
اس میں بیگم کی جو دیکھی تھی شباہت میں نے
روز مرتا ہوں ستم سے میں زمانے کے سحرؔ
جیتے جی دنیا میں پائی ہے شہادت میں نے
………………………
بھابھی کا نام …!
٭  شادی کے بعد ایک دوست دوسرے سے: بھابی کا نام کیا ہے؟
جواب: گوگل
دوست: کیا مطلب؟
جواب: سوال ایک پوچھو تو جواب دس دیتی ہے…!
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
ذرا آہستہ …!
٭  راحت اندوری صاحب کسی مشاعرے میں غزل پڑھ رہے تھے اور دوران غزل ایک شعر پر پہونچے اور اپنے مخصوص انداز میں کہا    ؎
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ بُلا لوں گا اشارا کر کے
سامعین میں سے کسی نے زور سے کہا ، راحت بھائی ! ذرا آہستہ بلائیے کہیں آپ کے گھر کا چاند نہ جاگ جائے …!!
محمد حامداﷲ ۔ حیدر گوڑہ
………………………
غلط فہمی !
راہ چلتے ہوئے ایک بچے نے سکہ نگل لیا۔ اس کی ماں بڑی پریشان ہوئی،کافی کوششوں کے بعد بھی سکہ نہ نکل سکا،وہ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُھر دیکھنے لگی اتنے میں پاس ہی سے ایک آدمی گزر رہا تھا۔اس نے بچے کو اُلٹا کیا اور سکہ نکال لیا۔
ماں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا
’’ آپ ڈاکٹر معلوم ہوتے ہیں‘‘
’’جی نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں انکم ٹیکس آفیسر ہوں‘‘۔ آدمی نے جواب دیا۔
حبیب حذیفہ العیدروس ۔ ممتاز باغ
………………………
سادگی !
مجسٹریٹ نے ملزم سے کہا ’’تم پر دو شادیاں کرنے کاالزام لگایا گیا تھا لیکن چونکہ الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے لہذا میں تمہیں باعزت بری کرتا ہوں ۔ اب تم گھر جاسکتے ہو‘‘۔
اس پر ملزم نے سادگی سے دریافت کیا
’’کونسی بیوی کے گھر ؟ ‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
ڈھٹائی …!
٭  بارش میں بھیگتے ہوئے ایک صاحب نے دور سے ٹیکسی آتے دیکھی تو لپک کر بیچ سڑک پر کھڑے ہوکر اُسے روکا لیکن اس وقت اُن کے غصے کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے دیکھا کہ اُن کے عقب سے ایک خاتون نے آگے بڑھ کر ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور ڈرائیور کے برابر بیٹھ گی ۔
یہ تو بڑی ڈھٹائی ہے وہ صاحب غصہ سے بولے :  ’’ٹیکسی کو میں نے روکا تھا ‘‘
’’ضرور روکا ہوگا ‘‘ خاتون مسکراتے ہوئے بولی : ’’لیکن ڈرائیور سے شادی دو سال پہلے میں نے کی تھی !‘‘
محمد امتیاز علی نصرت ؔ ۔ پداپلی
………………………