شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔ
قطعہ(طنزیہ)
فضائے ملک مکدر ہے کیا کیا جائے
شہر کا حال بھی ابتر ہے کیا کیا جائے
اکیلی بیٹیاں گھر سے نکل نہیں سکتیں
کھڑا سڑک پر دلدّر ہے کیا کیا جائے
………………………
کریٹیکل جگتیالی
مزاحیہ حزل
ہم تو سمجھے سُدھر گئے خالو
ایک بھکارن پر مرگئے خالو
شیر کو مارنے وہ نکلے تھے
ایک چوہے سے ڈر گئے خالو
سیندھی خانے سے جھومتے نکلے
پھر گٹر میں اُتر گئے خالو
پاؤں پھسلا تو سیدھے نالی میں
پورے کیچڑ میں بھر گئے خالو
بڈھیاں سیٹیاں بجاتی ہیں
ہم نے دیکھا جدھر گئے خالو
پِٹ کے آئے تھے کل کریٹیکلؔ وہ
پوچھتے ہی بپھر گئے خالو
………………………
غلطیوں کا فائدہ …!
٭  مشفق خواجہ نے نظیر صدیقی کو ایک خط لکھا : ’’آپ کا کلام پڑھنے والے پر ایسی محویت طاری کردیتا ہے کہ ایک کتابت ہی کیا ، کسی قسم کی بھی غلطی کی طرف دھیان نہیں جاتا … کتابت کی غلطیوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے حسب منشا معنی نکال لیتے ہیں اور یہ بعض اوقات شاعر کے اصل خیال سے کہیں بہتر اور موثر ہوتے ہیں ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
محبت …!
٭  ایک دوست نے دوسرے سے کہا : سنا یار ! ایک نسوار کے عادی شخص نے بیوی کی محبت میں نسوار چھوڑدی ۔
بہت اچھا پھر …!
پھر کیا …!
تین گھنٹے بعد دماغ خراب ہونے کی وجہ سے بیوی کو چھوڑ دیا …!!
سید شمس الدین مغربی ۔ ریڈہلز
………………………
بھولکڑ!
باس : میں کئی دن سے تم کو پوچھونگا سونچ رہا ہوں لیکن بھول جارہا ہوں کہ میں نے تمہیں اس بھولکڑ کلرک کو نوکری سے نکال دو بولا تھا نا اُس کا کیا ہوا ؟
منیجر : میں بھول گیا سر …!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
عادت …!
٭  راحتؔ اندوری صاحب ایک مشاعرے میں غزل کا ایک شعر سُنارہے تھے ، شعر یوں تھا   ؎
جاگنے کی اور جگانے کی عادت ہوجائے
شعر پورا بھی نہیں ہوا سامعین میں سے کسی نے زور سے کہا : ’’راحتؔ بھائی ویسے بھی رات جاگ کر گزار رہے ہیں ، ایک تو مچھر سونے نہیں دیتے ، دوسرے لائیٹ والے فیان کھولنے نہیں دیتے ۔ بات بات پر لائیٹ چلی جاتی ہے ۔
محمد حامداﷲ ۔ حیدرگوڑہ
………………………
گارنٹی…!
٭  ایک شخص سائیکل کی دوکان پر گیا اور دوکان کے مالک سے بولا ۔ آپ نے سائیکل بیچتے وقت گارنٹی دی تھی کہ چھ مہینے تک جو بھی ٹوٹ پھوٹ ہوگی اس کی مرمت مفت کریں گے ۔
دوکان کے مالک نے کہا ’’ہاں ! کہا تھا ، بتائیے کیا ٹوٹا ہے ؟ ‘‘
گراہک نے کہا : جی ! سیکل کا بریک اور میرے آگے کے دو دانت ۔
سید عبدالتواب مدثر ۔ کرنول
………………………
وصیت …!
٭  ایک صاحب نے زندگی بھر اپنی عمر رسیدہ بددماغ بدمزاج دولت مند بیوی کی خدمت کی یہاں تک کہ اس کے پالے ہوئے ایک درجن کتوں کی بھی دیکھ بھال کرتے رہے ۔
مرنے کے بعد بیوی کی وصیت کے مطابق ساری جائیداد ٹرسٹ کو دیدی گئی اور کُتّے اُن کی تحویل میں …؟
ایم اے وحید رومانی ۔ پھولانگ ، نظام آباد
………………………