شیشہ و تیشہ

قطب الدین قطبؔ
عروج و زوال …!!
کوئی شک نہیں انداز بیاں ہے کمال کا
دانا ہے تو رکھ حساب اپنے اعمال کا
ایک بات پتہ کی بتاتا چلوں تجھے
انتہا عروج کی ، ہے آغاز زوال کا
………………………
مرزا فاروق چغتائی
الیکشن…!!
ہے الیکشن کا یہ موسم ہر طرف
وعدوں کے انبار ہیں چاروں طرف
اتنے وعدے مت کرو کہ بعد میں
چُلّو بھر پانی کو ترسو ہر طرف
………………………
دغا …!!
’’سر سے چادر بدن سے قبا لے گئی ‘‘
یہ سیاست ہمیں یوں دغا دے گئی
جتنے ملزم سیاست میں چُن آئے ہیں
اُن کی کرسی سزا سے بچا لے گئی
………………………
نمک پارے
٭ طلاق شدہ خاتون سے کسی نے پوچھا مرد کی جمع کیا ہوتی ہے تو جل کر بولی ’’مردود‘‘
٭ عورت :خود کو چھوڑکر دنیا کی ساری عورتوں کی بُرائی کرتے رہتی ہے ۔
٭ مرد : بیوی کو چھوڑکر دنیا کی سارے عورتوں کی تعریف کرتے رہتا ہے ۔
٭ کامیاب جوڑی : بہرہ میاں اور گونگی بیوی …!!
٭ بیوی : جو گھر میں ہونے والے ہرنقصان اور تکلیف کو شوہر کی لاپرواہی اور ناعاقبت اندیشی سے موسوم کرتی ہے ۔
٭ ہاں یا ناں: صرف ہاں یا نا میں جواب دیں ’’کیا آپ کی بیوی اب بھی آپ کو مارتی ہے …!!؟‘‘
………………………
رانگ نمبر…!!
٭ باپ جو اپنی بیٹی کے گھنٹوں ٹیلیفون پر بات کرتے رہنے سے نالاں تھا ایک دن بیٹی کو ایک فون صرف ایک گھنٹہ میں ختم کرنے پر پوچھا : ’’بیٹا یہ تمہارا کونسا دوست ہے جو اتنی جلدی ٹیلیفون ختم کردیا ؟ تو لڑکی اطمینان سے بولی ’’یہ رانگ نمبر تھا …!!‘‘
مظہر قادری۔حیدرآباد
………………………
میاں بیوی اور مسائل …!
٭ جب میاں بیوی دونوں کے دونوں ایک ہی فیلڈ میں کام کرتے ہوںتو دوسروں کیلئے مسائل کس طرح کھڑے ہوتے ہیں ! بیوی پائلیٹ تھی اور خاوند کنٹرول ٹاور انسٹرکٹر…
پائلیٹ بیوی: ہیلو، کنٹرول ٹاور! یہ فلائٹ 358 ہے، یہاں کچھ پرابلم ہے…!؟
کنٹرول ٹاور سے شوہر: آپ کی آواز ٹھیک سے نہیں آرہی ہے، کیا آپ واپس اپنی پرابلم بتا سکتے ہیں …!؟
بیوی: کچھ نہیں جانے دو، تمہیں میری آواز آتی کب ہے؟
شوہر: براے مہربانی اپنی پرابلم بتائیے…!
بیوی: نہیں، اب تو رہنے ہی دو۔
شوہر: پلیز بتائیے…
بیوی: کچھ نہیں، میں ٹھیک ہوں! تم رہنے دو!
شوہر: ارے بولیے کیا پرابلم ہے؟
بیوی: تمہیں میرے پرابلم سے کیا مطلب؟
شوہر: بے وقوف عورت، 200 مسافر بھی ہیں اس میں…!
بیوی: ہاں! میری تو کوئی پروا ہے نہیں، ان دو سو کی پروا ہے بس، مجھے نہیں کرنی بات …!!
ابن القمرین۔مکتھل
………………………
وقت کی بربادی …!!
٭ لوگ مشاعرہ سننے کیلئے آتے ہیں ورنہ نثر تو وہ دن بھر سنتے رہتے ہیں ۔ آج کل یہ رواج چل پڑا ہے کہ مقررہ اور معلنہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر سے پروگرام شروع کیا جاتا ہے ڈنر سے پہلے تقریر کی جائے تو اشتہا متاثر ہوتی ہے اور بعد میں کی جائے تو ہاضمہ۔ جہاں لوگ من پسند گلوکاروں کو سننے کے اشتیاق میں چلے آئے ہوں وہاں تقریر کرنا ایسا ہی ہے جیسے شاہی ٹکڑے ، فیرنی اور آئسکریم کھلانے کے بعد مہمان کو گنّے کا رس پیش کیا جائے وہ بھی زبردستی یہ کہتے ہوئے کہ اس فقیر پرتقصیر نے دستِ خاص سے چھیلا اور جناب کے منہ کی گولائی کے عین مطابق تراشا ہے … !
یہ تو بے عزتی خراب کرنے کی باعزت صورت ہے …!!
نجیب احمد نجیب۔ حیدرآباد
………………………