محمد انیس فاروق انیسؔ
جو چاہو وہ کرو …!
ہے الیکشن کازمانہ جو چاہو وہ کرو
ہو کلکشن کا بہانہ جو چاہو وہ کرو
یاد رکھو یہ تپتا ہوا صحرا ہے میاں
جیت کا گر ہو نشانہ ، جو چاہو وہ کرو
………………………
کھڑے کیوں نہیں ہوتے …!
لیڈر ہو الیکشن میں کھڑے کیوں نہیں ہوتے
کرنا ہو کلکشن تو کھڑے کیوں نہیں ہوتے
ارمانوں کی کشتی تو مری پار لگادو
موقع ہے الیکشن کا مزے کیوں نہیں لیتے
………………………
احمدؔ قاسمی
دیکھ لو …!
یادِ ماضی کو بُھلاکر دیکھ لو
اک نیا چہرہ لگاکر دیکھ لو
اصلی چہرے پر بہت سے داغ ہیں
آئینہ خود ہی اُٹھاکر دیکھ لو
………………………
فرید سحرؔ
غزل (طنز و مزاح)
آدمی ہم سے تو لاغر نہیں دیکھے جاتے
مار میں بیوی کے شوہر نہیں دیکھے جاتے
اصل شاعر کو ہی محفل میں پڑھایا جائے
درمیاں شیروں کے بندر نہیں دیکھے جاتے
اب تو ایکٹنگ سے سُنانے لگے ہیں لوگ غزل
محفل شعر میں جوکر نہیں دیکھے جاتے
مانگنے ووٹ جو آتے ہیں کبھی بستی میں
جھولی تھامے یہ گداگر نہیں دیکھے جاتے
جب کبھی ہوتی ہے پیسوں کی ضرورت ہم کو
اُن کے لائے ہوئے زیور نہیں دیکھے جاتے
نیک افسر کو سبھی دیکھتے ہیں پیار سے پر
ہیں جو راشی وہی افسر نہیں دیکھے جاتے
اپنی روٹی پہ فقط کھینچتے ہیں دال سبھی
خودغرض ہم سے یہ لیڈر نہیں دیکھے جاتے
حُکمراں بن گئے قاتل ہی ہمارے یارو
اب یہ منحوس دلِدّر نہیں دیکھے جاتے
ائے سحرؔ لڑنے لگی ماہ جبیں بھی کُشتی
نرم ان ہاتھوں میں مُگدر نہیں دیکھے جاتے
………………………
مودی سرکاراور میڈیا کا کردار
باپ : بیٹا، کالج کا رزلٹ کیسا رہا؟
بیٹا: کالج میں ٹاپ کیا ہے پپا میں نے!
باپ : اچھا! ارے واہ ! ذرا مارک شیٹ دکھانا !
بیٹا: پپا! آپ کالج کے کام کرنے کے طریقہ عمل پر سوال کررہے ہیں۔ آپ میرے شوریہ و ہمت پر اُنگلی اُٹھا رہے ہیں ! آپ یونیورسٹی کا منوبل و اعتماد گرارہے ہیں۔ آپ یونیورسٹی تعلیمی اسٹانڈرڈ (شکشا جگت) کی حیئت و حیثیت (چھبیہ نشٹ) برباد کر رہے ہیں!
باپ : (تحکمانہ انداز سے)ایک بار مارک شیٹ دکھاؤ !
بیٹا: (معصومیت والی مکاری سے) مارک شیٹ چوری ہوگئی ہے!
ترتیب و ترسیل ابن بھٹکلی
………………………
اُن کی مرضی…!!
٭ ایک بار ایک کلکٹر، ایس پی اور ٹیچر تینوں دوست باتیں کر رہے تھے…
کلکٹر : ہم تو علاقے کے مالک ہوتے ہیں… جسے جو چاہے کروالے !
ایس پی : ہم بھی کچھ کم نہیں! جسے چاہیں اندر کر کے ٹھوک دیں۔ بہت رعب ہوتا ہے عوام میں!
ٹیچر : ( عاجزی سے ) جی…! ہمارا تو کوئی رعب وعب نہیں ہوتا۔ سارا دن بچوں کو مرغا بنا کر کوٹتے ہیں۔ آگے اُن کی مرضی! کلکٹر بنیں یا ایس پی…!!
سہیل شاہ ۔ محبوب نگر
………………………
شرافت سے …!!
٭ صاحب دفتر میں ترقی پا کر افسر بن گئے تو اگلے دن ہی آفس کے دروازے پر بڑا سا بورڈ آویزاں کر دیا۔ جسے پڑھ کر پورے اسٹاف کی جان ہی نکل گئی …:
’’یہاں میں باس ہوں۔ صرف میرا حکم چلے گاہمیشہ یاد رکھنا اور اپنی اوقات میں رہنا‘‘۔
اگلے دن باس باتھ روم گئے۔واپس آفس میں داخل ہوئے تو میز پر ایک کاغذ پر پیغام لکھا ملا…: ’’آپکے گھر سے آپکی بیگم کا فون آیا تھا پیغام دیا ہے کہ…کچن کے دروازے سے جو بورڈ اُتار کے لے گئے ہو۔ وہ شرافت سے واپس لے آنا…!!‘‘
محسن قریشی۔ بارکس
………………………