طالب خوندمیری
نیا سال!
آنا تھا جسے ، وہ تو بہرحال آیا
اندیشے کئی دِل میں نئے ڈال آیا
ارزانیاں پہلے ہی سے پژمردہ تھیں
مہنگائیاں خوش ہیں کہ نیا سال آیا
………………………
شبیر علی خان اسمارٹؔ
مزاحیہ غزل
میں نے بیوی سے جو لڑائی کی
نسبتی بھائی نے پٹائی کی
سارا پیسہ گیا دواؤں میں
اس نے اُوپر کی جو کمائی کی
غصہ بیوی کا ہوگیا ٹھنڈا
میں نے منّت جو انتہائی کی
ذہن میں میرے آگئے لیڈر
بات نکلی ہے جو قصائی کی
شادی کرکے میں پھنس گیا اسمارٹؔ
کوئی صورت نہیں رہائی کی
………………………
سید اعجاز احمد اعجازؔ
نیا سال …!
ساری دنیا ہے خوش اب نئے سال میں
کیک کاٹیں گے خود سب نئے سال میں
ناچنے میں بسر ہوگئی ساری شب
سننے والا ہی ہے کب نئے سال میں
عمر گھٹتی ہی جاتی ہے ہر سال ہی
یہ سمجھتے نہیں سب نئے سال میں
ساری خوشیاں نئے سال کی عارضی
عقل دے اُن کو یارب نئے سال میں
اب کے ہم کو الیکشن میں ہے دیکھنا
کون کس کا ہے اب نئے سال میں
جی رہے ہیں سبھی اب اسی آس میں
اب بڑھے گا بھی منصب نئے سال میں
بیویوں کا تقاضہ ہے اعجازؔ یہ
لائیں گے ساڑیاں کب نئے سال میں
………………………
فیض احمد فیض لدھیانوی
نیا سال
اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس ،نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں ہوگی سردی
اور اپریل، مئی اور جون میں ہو گی گرمی
تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد ختم کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی ، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں
کیا سبھی بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی
………………………
قابل کون ؟
ایک لڑکے نے اپنے باپ سے پوچھا : ڈیڈی ! زیادہ قابل کون ہے میں یا آپ ؟
’’ظاہر ہے میں !‘‘ باپ نے کہا :
بیٹا : کیوں ؟
باپ : کیونکہ میری عمر زیادہ ہے ، میرا تجربہ زیادہ ہے ۔
بیٹا : پھر تو آپ جانتے ہوں گے امریکہ کی کھوج کس نے کی ؟
باپ : ہاں بیٹا جانتا ہوں ، امریکہ کی تلاش کولمبس نے کی تھی ۔
بیٹا بولا : کولمبس کے ڈیڈی نے کیوں نہیں کی۔ وہ تو کولمبس سے زیادہ قابل تھا…!!
ڈاکٹر فوزیہ چودھری ۔ بنگلور
………………………
جیسے کو تیسا !!
٭ ایک شخص نے ویران سڑک پر ایک راہگیر کو روک کر پوچھا ’’تم نے کسی پولیس والے کو آتے جاتے تو نہیں دیکھا ‘‘۔
راہگیر نے جواب دیا ’’نہیں تو ‘‘
اُس شخص نے جیب سے چاقو نکالی اور کہا ’’تو پھر جیب میں جو کچھ بھی ہے نکال دو ‘‘۔
راہگیر نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ریوالوار نکال کر کہنے لگا ’’میری جیب میں تو یہی ہے اب تم بتاؤ تمہاری جیب میں کیا ہے ؟‘‘
نایاب شبنم ۔ نرمل
………………………