’شیشہ و تیشہ‘کے کالم نگار شاہد صدیقی کی غزل گوئی

صابر علی سیوانی
میں یونیورسٹی آف حیدرآباد کی اندرا گاندھی میموریل لائبریری میں کسی کتاب کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ اسی دوران ایک کتاب میرے ہاتھ آئی ، جس میں مختلف شعراء کے حالات و کوائف کے ساتھ ساتھ ان کے کلام کے کچھ نمونے بھی شامل تھے ۔ اس کتاب میں شاہد صدیقی کا ایک مشہور شعر بھی موجود تھا ، جو پہلی بار میری نظر سے گزرا ۔ اس شعر نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے اسی دن یہ ارادہ کرلیا کہ میں شاہد صدیقی کی شاعری کی حوالے سے ایک مضمون ضرور لکھوں گا ۔ وہ شعریہ تھا؎
تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے
اس شعر میں خیال کی جدت اور فکر کی جو ندرت موجود ہے ، اسے ہر شعر فہم اور ادب شناس محسوس کرسکتا ہے ۔ مذکورہ شعر نے اس پوری غزل کی تلاش پر مجھے مجبور کیا ۔ تلاشِ بسیار کے بعد نصیرالدین ہاشمی کی کتاب ’’دکن میں اردو‘‘ صفحہ 738 پر اس غزل کے پانچ اشعار پڑھنے کو ملے ، لیکن میرے کسی کرم فرما نے اس غزل کے چھٹویں شعر سے بھی مجھے واقف کرایا ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شاہد صدیقی کی وہ پوری غزل یہاں نقل کی جائے ، تاکہ قارئین کو شاعر کی بلند خیالی اور اس کی کہنہ مشقی کا اندازہ ہوسکے ؎
یہ کیا ستم ہے کہ ، احساسِ درد بھی کم ہے
شبِ فراق ستاروں میں روشنی کم ہے
اک ایسی موجِ کرم تھی نگاہِ ساقی میں
کہ اس کے بعد سے طوفانِ تشنگی کم ہے
قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے ، غمِ جستجو ، کبھی کم ہے
عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انساں سے آگہی کم ہے
تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے
نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے
شاہد صدیقی کی یہ غزل ان کی شعری رفعت اور فکری جدت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔ لفظوں کا زیر و بم ، موسیقیت کی تہہ داری ، احساس درد کا اظہار ، عظمت انسانی سے عدم آگہی  ، زندگی کی بے ثباتی ، تشنگی کا تلاطم ، غمِ جستجو کی کمی زیادتی ، انسانوں کی ترقی کی معراج اور نئے چراغ جلانے کی خواہش کا اظہار یہ وہ تمام امور و نکات اس غزل میں موجودہ ہیں  ، جن سے شاعر کی تخیلاتی دنیا وجود میں آتی ہے ۔ خاص طور پر حاصل غزل کے طور پر وہ مشہور شعر جس میں زندگی بھر انتظار کرنے کا دعوی کیا گیا ہے ، اور زندگی کی بے ثباتی پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے ، اس میں ایک خاص قسم کی معنویت ، جدت اور تخیل کی انفرادیت پائی جاتی ہے ۔ یہ شعر سیکڑوں شعراء میں شاہد صدیقی کو ممتاز بنانے کے لئے کافی ہے ۔ مشہور شاعر شہریار نے بھی اسی زمین میں ایک بہترین غزل لکھی ہے ، جس کا ایک نہایت مقبول شعر یہ ہے ؎
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
شاہد صدیقی کا نام عبدالمتین تھا ، لیکن انھیں شاہد صدیقی کے قلمی نام سے شہرت حاصل ہوئی ۔ شاہدؔ ان کا تخلص تھا ۔ شاہد صاحب 1911 ء میں آگرہ (اکبرآباد) میں پیدا ہوئے ۔ عربی و فارسی کی تعلیم گھر اور مکتب میں حاصل کی ۔ والد کے انتقال کے بعد حیدرآباد چلے آئے ۔ شاعری ، نثر نگاری اور صحافت کا شوق ابتداء سے ہی تھا ۔ انھوں نے اپنے شوق کی تکمیل کی غرض سے سب سے پہلے ہفتہ وار اخبار ’’الاعظم‘‘ جاری کیا ۔ بعد ازاں قاضی عبدالغفار کے اخبار ’’پیام‘‘ میں صحافتی ذمہ داریوں سے وابستہ ہوگئے ۔ حیدرآباد کے مشہور اخبار ’’صبحِ دکن‘‘ کے شریک مدیر کے طور پر بھی خدمات انجا دیں ۔ روزنامہ سیاست کا ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کالم برسوں تک لکھتے رہے ۔ ’’کوہکن‘‘ کے فرضی نام سے وہ یہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ سالار جنگ میوزیم میں کچھ دنوں تک ریسرچ اسسٹنٹ  کے طور پر بھی کام کیا ۔ شاہد صدیقی کے تحریر کردہ کالموں کو  ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کے عنوان سے پہلی بار پدم شری مجتبیٰ حسین نے ترتیب دیا اور اس کی اشاعت ساہتیہ اکادمی آندھرا پردیش کے زیر اہتمام 1964 میں عمل میں آئی ۔ 31 جولائی 1962 ء کو ان کا حیدرآباد میں انتقال ہوا ۔ درگاہ شاہ خاموش نامپلی کے احاطے میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
شاہد صدیقی ترقی پسند شاعر تھے ، لیکن عام ترقی پسندوں کی طرح انھوں نے اپنی شاعری کو انقلابی اور جوشیلی شاعر تک ہی محدود نہیں رکھا ۔ وہ تہذیب و ثقافت اور روایتی اقدار کے شیدائی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی اخلاقی اقدار اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی جھلک ان کی شاعری میں نمایاں طورپر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ادبی روایت کی پاسداری کو وہ اپنا فرض اولین تصور کرتے تھے  ۔ شاہد صدیقی نے شاعری کے ساتھ طنز و مزاح نگاری میں اچھی شہرت حاصل کی تھی ۔ طنز و مزاح پر مشتمل ان کے مضامین سیاست میں نہایت پابندی کے ساتھ شائع ہوتے تھے ، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔ جامع اردو انسائیکلو پیڈیا میں ان کی نثری و منظوم تحریروں کے بارے میں یہ عبارت ملتی ہے :۔
’’شاہد نثر نگار  بھی تھے اور مزاح اور پیروڈی سے شغف رکھتے تھے ۔ ہر صنف شاعری میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا  ۔ نظم سے خاص لگاؤ تھا مگر ان کی شہرت میں ان کی غزلوں کا بڑا حصہ ہے ۔ مجموعہ کلام ’’چراغ منزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ ’’شیشہ و تیشہ‘‘ سیاست کے فکاہیہ کالموں کا مجموعہ ہے ۔ بہت سا کلام غیر مطبوعہ ہے‘‘ ۔ (جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی صفحہ 341)
شاہد صدیقی کا صرف ایک ہی شعری مجموعہ شائع ہوسکا ۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’چراغ منزل‘‘ کے نام سے انجمن ترقی اردو حیدرآباد آندھرا پردیش کے زیر اہتمام فروری 1960 میں انتخاب پریس حیدرآباد سے شائع ہوکر منظر  عام پر آیا ، جو 96 صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس مجموعے کے آغاز میں ’’ناشر کی طرف سے‘‘ زیر عنوان حبیب الرحمن معتمد انجمن ترقی اردو حیدرآباد کا ایک صفحہ پر مشتمل نوٹ شامل ہے  ،جس میں اس مجموعے کی اشاعت پر انھوں نے مسرت کااظہار کیا ہے ۔ اس نوٹ کے بعد ’’شاہد صدیقی میری نظر میں‘‘ کے عنوان سے جگر مراد آبادی کا تین صفحات پر مشتمل شاہد صدیقی کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے پیش لفظ موجود ہے ۔ جگر مرادآبادی نے شاہد صدیقی کی شاعری پر نہایت عالمانہ مضمون سپرد قلم کیا ہے اور ان کی شاعری کی مختلف جہتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ شاہد صدیقی کو انھوں نے ریاکاری اور تصنع سے پاک انسان قرار دیا ہے ۔ نہایت شریف النفس ، مخلص ، خوددار اور وضعدار گردانا ہے ۔ لیکن ان کی شاعری کے حوالے سے جو باتیں لکھی ہیں ، اس کا ایک مختصر سا حصہ یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے :
’’شاہد صدیقی کا سب سے بڑا کمال شاعری ہے ، جس کے لئے انھوں نے اپنی زندگی اور دماغی صلاحیت وقف کررکھی ہے ۔ یوں تو ان کا خمیر اسی خاک پاک سے تیار ہوا ہے جسے جغرافیہ اور تاریخ میں اکبر آباد یا آگرہ کہا جاتا ہے اور جس نے میر ، غالب اور سیماب کو جنم دیا لیکن 25 سالہ مشق سخن نے ان کی صلاحیت شعری میں ایسی پختگی اور موزونیت پیدا کردی ہے ، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوا کرتی ہے ۔ موزوں طبیعت ، تخلیقی دماغ اور زندہ دلی نے ان کی شاعری کو زندہ شاعری بنا رکھاہے ۔ یہ نہ مبالغہ ہے نہ رنگ آمیزی ۔ ایک حقیقت ہے جس کے گواہ ہزاروں لاکھوں دل و دماغ ہیں‘‘۔(چراغ منزل صفحہ 5)
شاہد صدیقی کی شاعری میں یوں تو زندگی کے بہت سے مسائل اور موضوعات جگہ پاتے ہیں ، لیکن ان کی پوری شاعری غم و آلام سے عبارت معلوم ہوتی ہے ۔ ان کی ہر غزل میں کسی نہ کسی طرح لفظ’’غم‘‘ کا استعمال ضرور نظر آتا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی زندگی ، آزمائش ، مشکلات اور غم و الم سے نبرد آزمارہی ۔ غم وہ کیفیت ہے جو ہر شخص اپنی زندگی میں کم و بیش ضرور محسوس کرتا ہے ، لیکن غم کی جہتیں الگ الگ ہوتی ہیں ۔ کسی کو غم خوشی دے جاتا ہے جیسے محبوب کی جدائی کا غم یا کسی کو غم ہلاکر رکھ دیتا ہے جیسے کسی اپنے کے بچھڑنے کا غم ، تاہم غم کی کیفیت کا اظہار انسان کے چہرے سے ہو ہی جاتا ہے ۔ شاہد صدیقی کی شاعری میں غم جاناں اور غمِ زمانہ کا امتزاج پایا جاتا ہے ۔ یہی وہ امتزاج ہے جو ان کی شاعری کو پُراثر ، معنی خیز اور پُرسوز بناتا ہے۔یہی وہ امتزاج ہے جو ان کے معاصرین میں انھیں انفراد عطا کرتا ہے، ایسے ہی چند اشعار یہاں پیش ہیں جن میں یہ کیفیات پائی جاتی ہیں ؎
غمِ جاناں کو غمِ دہر سے بہلاتا ہوں
زندگی مصلحت اندیش ہوئی جاتی ہے
زندگی اگر غم ہے ، یہ یقیں بھی کیا کم ہے
موت ،موت ہوتی ہے ، چارہ گر نہیں ہوتی
رفتہ رفتہ یاد ان کی بن گئی غمِ دنیا
زندگی کا سرمایہ ، زندگی کے کام آیا
تڑپ الم میں نہیں ہے ، سکوں خوشی میں نہیں
بہت دنوں سے کوئی لطف زندگی میں نہیں
مذاقِ اہل دل ، دنیا نہ سمجھی ہے ، نہ سمجھے گی
جو غم ان سے ملے ، وہ غم نہیں ہے شادمانی ہے
غمِ دل تھا مجھے ، وہ بھی تمہاری مہربانی تھی
نہ دل ہے اب ، نہ غم ، یہ بھی تمہاری مہربانی ہے
خلش اور وہ بھی غم کی ، درد اور وہ بھی محبت کا
شکایت کرنے والا تھا ، دعا نکلی مرے دل سے
شبِ غم کو مسلسل جلوہ ساماں کردیا ہم نے
بجھیں شمعیں تو اشکوں سے چراغاں کردیا ہم نے
روایت کی پاسداری اور اخلاقی اقدار کی پاکیزگی کے عناصر شاہد صدیقی کی شاعری میں اکثر مقامات پر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔یہ بات بھی درست ہے کہ ان کی شاعری خالص روایتی شاعری کی خصوصیات سے مزین ہے ، تاہم کچھ ایسے موضوعات بھی ان کی شاعری میں جگہ پاتے ہیں ، جو روایتی شاعری سے بالکل الگ ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی شاعری میں محبوب کی بے وفائی ، عشق کی کربناکی اور محبت کے دردناک انجام کی تصویریں نظر آتی ہیں ، لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری میں انفرادیت موجود ہے ۔ انھوں نے میدان عشق میں جو تلخ تجربات حاصل کئے ، اس سے ان کی آنے والی زندگی میں آسانیاں  پیدا ہوگئیں ۔ کیونکہ انسان جب کوئی غلطی کرتا ہے اور جب اس غلطی کا خمیازہ بھگتتا ہے تو بعد میں وہ اس غلطی کو دہرانے سے احتراز ضرور کرتا ہے ۔ کچھ اسی طرح کے تجربات کا احساس ہمیں ان کے درج ذیل اشعار میں ہوتا ہے ؎
فریبِ عشق نے آنکھیں سی کھول دیں شاہدؔ
میں اس کے بعد کسی کا فریب کھا نہ سکا
محبت آنسوؤں کے کھیل سے پروان چڑھتی ہے
فرشتے جمع کرلیتے ہیں موتی اپنے دامن میں
رات کے گزرتے ہی اور ایک رات آئی
آپ تو یہ کہتے تھے دن نکلنے والا ہے
راہِ غم کی ٹھوکریں ، لاتی ہیں منزل کا پیام
ٹھوکریں کھا کر قدم آگے بڑھانا چاہئے
ظلمتیں اجالوں پر فتح پا نہیں سکتیں
اک چراغ بجھتا ہے ، سو چراغ جلتے ہیں
ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ فریب عشق نے آنکھیں کھول دیں کے پھر اس کے بعد کسی کا وہ فریب نہیں کھاسکے ۔ جبکہ دوسری جگہ متضاد باتیں کہتے ہیں اور اپنی زندگی کا مقصد فریب کھانا قرار دیتے ہیں ؎
کبھی خِرد کا کبھی عشق کا بہانہ تھا
مری حیات کا مقصد فریب کھانا تھا
موسمِ خزاں ، فصل گل ، غنچہ ، باغ ، انجمن ، ظلمت ، چراغ ، موت ، سفر ، منزل ، الم ، غم ، خلش ، شمع ، اشک ، عشق ، محبت ، آنسو ، ٹھوکر ، بجلی ، نشیمن ، سحر ، رات ، روشنی وغیرہ ایسے لفظیات ہیں جو بار بار شاہد صدیقی کی شاعری میں استعمال ہوئے ہیں ۔ کبھی یہ الفاظ استعارے کے طورپر اشعار میں آئے ہیں ، کبھی اصل معنی کے ضمن میں استعمال کئے گئے ہیں ۔ بار بار ان الفاظ کا استعمال یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ شاعر کی زندگی بھی آزمائش ، مشکلات اور تجربات و حوادث سے نبرد آزما رہی ، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس نے ان تجربات کو پیش کرتے ہوئے محرومیٔ قسمت کی شکایت کی ہے بلکہ ان تجربات کو پیش کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو مختلف تجربات اور مشکلات سے گزرتے ہوئے زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہئے کیونکہ زندگی ایک حسین اور بے نظیر تحفہ ہے ، جو دوبارہ کسی کے حصے میں نہیں آتی ہے ۔ شاہد صدیقی کی یہی ادا شعر و سخن سے رغبت رکھنے والوں کو پسند آتی ہے ؎
خزاں کا خوف تھا ، غنچوں کو فصلِ گل میں مگر
وہ مسکراکے رہے جن کو مسکرانا تھا
جہاں جہاں میں رُکا ، وقت کے قدم بھی رُکے
مرا وجود ، خود اپنی جگہ زمانہ تھا
توفیق دے کہ پیش کروں غم کو اس طرح
دنیا کو میرے غم پہ خوشی کا گماں رہے
کسی شاعر کا ایک مشہور شعر ہے ، جس میں زندگی کی چمک دمک کو پیش کرکے یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کبھی کبھی روشنی (دولت کی ریل پیل) راستے سے بھٹکادیتی ہے ۔ روشنی کی بجائے اندھیرے (غربت کی شان) ہی سیدھے راستے پر لے جانے کے لئے سنگ میل کا کام کرتے ہیں ۔ شاعر روشنی کے برکات پر اظہار افسوس کرتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ؎
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پہ تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور مجھے
شاہد صدیقی نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کہنے کی کوشش اپنے اس شعر میں کی ہے کہ ؎
سحر ہوتے ہی اہل انجمن کو نیند سی آئی
اندھیرے اور گہرے ہوگئے جب روشنی آئی
موت کے موضوع پر بہت سے شعراء نے اپنے اپنے انداز میں طبع آزمائی کی ہے ۔ موت کے فلسفے کو پیش کرکے زندگی کی حقیقت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن شاہد صدیقی نے جس انداز سے موت کے فلسفے کو پیش کیا ہے ، وہ ضرور ندرت خیال کی عکاسی کرتا ہے ۔ شاہد کا کہنا ہے کہ میں نے حیات ابدی یونہی نہیں پائی ہے ، بلکہ میں نے اسے حاصل کرنے کے لئے اپنی پوری زندگی گزاردی ہے ، تب جا کر یہ دولت ہمیں نصیب ہوئی ہے ۔ یہ کوئی انعام نہیں ہے ، بلکہ یہ تو ہستی کی قیمت ہے ؎
موت ہے قیمتِ ہستی کوئی انعام نہیں
جان دی ہے تو ، حیاتِ ابدی پائی ہے
’’چراغ منزل‘‘ شعری مجموعہ کے علاوہ ان کے کلام کا کوئی دوسرا مجموعہ شائع نہ ہوسکا ۔ انھوں نے نظمیں بھی لکھیں ، لیکن ان نظموں کی بھی اشاعت عمل میں نہیں آسکی ۔ ان کی بہت سی غزلیں جو مذکورہ شعری مجموعے میں شامل نہیں ہیں وہ متعدد اخبارات ، رسائل و جرائد میں طبع ہوچکی ہیں۔ انھیں یکجا کرکے اشاعت کے منزل سے گزارنے کی ضرورت ہے ۔ تعجب اس بات پر ہے کہ اتنے بڑے شاعر ، مزاحیہ و طنزیہ مضمون نگار اور صحافی کو ہم نے نہایت آسانی سے فراموش کردیا ، کیا شاہد صدیقی کی شخصیت  اور فن بُھلائے جاسکتے ہیں ؟ اگر نہیں تو غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ ہم نے انھیں زندہ رکھنے کے لئے کیا کیا؟بہرحال ہم اس مضمون کا اختتام شاہد صدیقی کے اس ضرب المثل شعر پر کرنا چاہتے ہیں ، جس میں نئی فکر ، نیا زاویۂ نگاہ اور نیا آفاق پیش کیا گیا ہے ۔ جدید اردو شاعری میں اس کی مثال شاید ہی مل سکے     ؎
ایک پل کے رُکنے سے دور ہوگئی منزل
صرف ہم نہیں چلتے راستے بھی چلتے ہیں
mdsabirali70@gmail.com