سید قمر حسن
سابق ابوظہبی بیورو چیف خلیج ٹائمز اور امارات ٹوڈے
بابری مسجد کی شہادت کی 23 ویں سالگرہ 6 ڈسمبر 2015 ء کو ہوئی ۔ تقریریں کی گئیں ۔ صحافتی بیانات جاری کئے گئے ۔ شہادت کے سانحہ کے بارے میں بیانات بھی دیئے گئے ۔ مسلمانوں سے کہا گیاکہ وہ شہید مسجد کے ملبہ کو ایک بار پھر اسی مسجد میں تبدیل کردیں جو 6 ڈسمبر 1992 سے پہلے تھی ۔ آئندہ چند دن تک شہاب الدین ، ظفریاب جیلانی ، اسد الدین اویسی اور اس کاروبار میں مصروف دیگر افراد یہی شور و غل کرتے دکھائی دیں گے ۔ اس موقع پر میں شہاب الدین ، ظفریاب جیلانی اور اویسی سے پوچھنا چاہوں گا کہ جناب عالی ان 23 برسوں میں کتنی بار آپ نے ایودھیا کا دورہ کیا ہے تاکہ اپنے طور پر وہاں رہنے والے 6000 مسلمانوں کے حال زار کا راست جائزہ لیتے ۔ آپ نے ان 23 برسوں میں 50 سے زیادہ مسجدوں ، 32 مسلم قبرستانوں ، 22 انفرادی قبروں ، تین قبروں ، تین امام باڑوں ، تین درگاہوں ، ایک خانقاء کے تحفظ اور دیکھ بھال کے لئے کیا کیا ہے جو اب انحطاط کے مختلف مراحل میں ہیں (ایودھیا اور فیض آباد کے مسلمانوں نے قبرستانوں کے اطراف چار دیواری تعمیر کرنے کی فوری ضرورت ظاہر کی ہے) ۔ ان 23 برسوں میں آپ نے سینکڑوں مسلم مردوں ، عورتوں اور بچوں کی بازآبادکاری کے لئے آپ نے کیا کیا ہے جو خونریز فسادات کی وجہ سے اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے ، کاروبار سے بے دخل ہوگئے ۔ 6 ڈسمبر کو کارسیوکوں نے جنھیں قتل کیا تھا بشمول بچوں کے۔ دو دنوں میں جو لوگ قتل کردئے گئے تھے ، کیا ان کے خون کا حساب لیا گیا ۔
ان 23 برسوں میں آپ نے کتنی کتابیں ، کتنے ورقیے ، کتنی ویب سائٹس ، اورکتنا لٹریچر شائع کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ17 بے قصور مسلمانوں بشمول ایک 15 سالہ لڑکا 6 ڈسمبر کو کارسیوکوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔ ان میں سے 8 کی نعشیں ابھی بھی لاپتہ ہیں ۔ ممکن ہے کہ ایودھیا ہندو دیوتا رام کا مقام پیدائش ہو لیکن یہ مسلمانوں کے لئے محترم مقامات سے بھی معمور ہے ۔ رام جی کے والد راجہ دسرتھ کا قصر شاہی اسی مقام سے 3 کیلومیٹر کے فاصلہ پر تھا جہاں کہ میر باقی نے بابری مسجد تعمیر کی تھی ۔ رانیاں، شہزادوں اور شہزادیوں کو شاہی محل میں جنم دیا کرتی ہیں ۔ کھلے میدانوں میں نہیں ۔ ایودھیا وہ نہیں ہے جو کہ سنگھ پریوار یا ہندوتوا کے حوشیلے ہندو ، ہندی ، ہندوستان کے علمبردار دنیا بھر پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں یعنی ’’ہندوازم کا قلب و روح‘‘ ۔
عالی مقام محترم حضرات ! خدا کے لئے شہید بابری مسجد کے ملبہ کو کریدنا بندکردیں ۔ عدالتوں میں قانونی لڑائی لڑنے اسے ماہرین قانون پر چھوڑ دیں ۔ اپنے آرام و آسائش سے بھرے مکانوں سے باہر نکلیں ۔ پرتعیش اور ایرکنڈیشنڈ دفاتر کو وداعی سلام کریں ۔ ایودھیا کی گندگی اور کچرے سے بھری ہوئی سڑکوں ، ڈرینیج کے بہتے ہوئے گندے پانی سے بھری ہوئی متعفن گلیوں میں آئیں ، جہاں سینکڑوں مسلمان رہتے ہیں جو مدد کے لئے چلارہے ہیں ۔ اپنے بچوں کی تعلیم ، صحت کے لئے دواخانوں ، ملازمتوں اور سروں پر مستقل چھت کے سایہ کے لئے چیخ چیخ کر مدد مانگ رہے ہیں ۔ جا کر ان 17 مسلمانوں کے خاندانوں سے ملاقات کیجئے جنھیں 6 ڈسمبر 1992 کے منحوس دن کارسیوکوں نے بے رحمی سے ذبح کردیا تھا ۔ انسانی زندگی اینٹوں اور سمینٹ کی عمارتوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے ۔ ان شہیدوں کو نہ تو کسی نے یاد رکھا ہے اور نہ کوئی ان کا ذکر کرتاہے ۔ اپنی آنکھوں سے دیکھئے کہ 15 سالہ محمد اظہر عرف ٹونی کا گلا کارسیوکوں نے کاٹ ڈالا تھا ، اسکے ارکان خاندان کی آنکھیں آج بھی اپنے بیٹے کے لئے آنسو برسارہی ہیں ۔ 70 سالہ نحیف بوڑھے محمد صابر کے جسم کو کارسیوکوں نے چاقو کے زخموں سے کس طرح داغ داغ کردیا تھا ، دیکھئے ۔ 23 سالہ پولیو کی شکار تبسم سے ملئے جو اس وقت صرف چند ماہ کی تھی جب کارسیوکوں نے اس کے کمزور مکان کو منہدم کردیا تھا ۔ اسے اور اس کے والدین کو کیسے ان کے ہندو پڑوسیوں نے بچالیا تھا ۔ وہ اور اس کے بھائی اب ایک چھوٹے سے تنگ و تاریک 6×6 کے کمرے میں رہتے ہیں ۔ سترہ سالہ عمران کے والد محمد حنیف سے ملئے جس نے ٹاڈا کے تحت بدترین سزائے قید کاٹی ہے صرف اس لئے کہ اس نے اپنے بیٹے کا حال زار بیان کیا تھا ۔
میں یہ داستان ظلم و ستم بیان کرتا رہ سکتا ہوں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا ۔ میں اس سانحہ کو ڈرامہ نہیں بنانا چاہتا ۔ میں اپنے ایودھیا کے حالیہ دورہ کو کمائی کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتا ۔ میں صرف آپ سب کی اور ان افراد کی جو ہمارے درمیان ہیں جو بابری مسجد کے بارے میں اتنے جذباتی اور ہمدرد بن جاتے ہیں ، لیکن ان مہلوکین کو بھلا بیٹھے ہیں ، ان لوگوں کو بھول گئے ہیں جو 6 ڈسمبر کی رات کی قہر سامانیوں کی یاد کے ساتھ زندہ ہیں ، اس طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں جبکہ ایودھیا کے مسلمانوں پر بے رحم کارسیوکوں کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تھا ۔
میں امام بخاری اینڈ کمپنی کی جانب سے جامع مسجد دہلی کے صحن میں آویزاں بابری مسجد کی ایک تصویر شائع کررہا ہوں جس پر تحریر ہے ’’میں بابری مسجد ہوں‘‘ میں اپنی درخواست میں زور پیدا کرنے دو اشعار بھی تحریر کررہا ہوں
میں اپنی داد رسی کے لئے یوم حشر کا انتظار کروں گی
میں انصاف رسانی کی امید میں خاموش رہی
کہ میرا صحن سجدوں سے جگمگائے گا
اور آوازۂ اذاں گونجے گا
مجھے خوف ہے کہ اگر میں بابری مسجد کی اس بیماری سے چھٹکارا نہ پالوں اور سنجیدگی سے ہماری تاریخی عمارتوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا انتظام نہ کروں ، ہندوستان کے دیگر مقامات پر امکانی قبرستانوں ، مقبروں اور درگاہوں کی حفاظت نہ کروں تو مزید شہادتیں واقع ہوں گی ۔